وقت کی اٹل حقیقت اور ہماری مختصر زندگی - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • وقت کی اٹل حقیقت اور ہماری مختصر زندگی

    انسانی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ ہم سب وقت کے پابند ہیں۔ بچپن میں وقت کی اہمیت کا شعور نہیں ہوتا اور اپنی دنیا میں مگن ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے ۔۔۔

    By Asghar Surani Published on Oct 07, 2024 Views 829

    وقت کی اٹل حقیقت اور ہماری مختصر زندگی

    تحریر: محمد اصغر خان سورانی۔ بنوں

     

    انسانی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ ہم سب وقت کے پابند ہیں۔ بچپن میں وقت کی اہمیت کا شعور نہیں ہوتا اور اپنی دنیا میں مگن ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے ہیں، ہمیں وقت کی اہمیت اور اس کی تیز رفتاری سے گزرنے کا احساس ہونے لگتا ہے۔ انسان کی زندگی بھی مختصر اور محدود ہے جس کے مختلف مراحل ہمیں یہ سمجھاتے ہیں کہ وقت کی رفتار ہماری دسترس سے باہر ہے، اور جو لمحے گزر جاتے ہیں، وہ کبھی واپس نہیں آتے۔

     

    وقت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ایک عظیم نعمت ہے، جو نہایت قیمتی اور بے بدل ہے۔ یہ سرمایہ ہر انسان کو یکساں ملتا ہے، چاہے وہ امیر ہو یا غریب، جوان ہو یا بوڑھا، آزاد ہو یا غلام، ماضی کا انسان ہو یا آنے والے مستقبل کا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر وقت کی قسم کھائی ہے، جو اس کی بے پناہ اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ سورۃ لقمان میں وقت کی اسی قدر کو ان الفاظ میں ظاہر کیا گیا ہے کہ،’’تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ داخل کرتا ہے رات کو دن میں اور داخل کرتا ہے دن کو رات میں اور کام میں لگا دیا ہے سورج اور چاند کو، ہر ایک چلتا ہے ایک مقرر وقت تک‘‘، (لقمان 29)۔ نبی اکرمﷺنے بھی وقت کی قدر و قیمت کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا: ’’دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں بہت سے لوگ دھوکے میں ہیں: صحت اور فراغت‘‘۔یہ حدیث بتاتی ہے کہ صحت اور وقت کی فراوانی ایسی نعمتیں ہیں جنھیں اکثر لوگ ضائع کرتے ہیں۔ ہمیں ان کی قدر کرنی چاہیے اور انھیں صالح اور تعمیری کاموں میں صَرف کرنا چاہیے۔ وقت کے ساتھ ہماری زندگی میں ہر چیز بدلتی ہے، یہ ناصرف ہمارے جسمانی حالات میں تبدیلی لاتا ہے، بلکہ ہمارے جذبات، خیالات اور تعلقات پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ بچپن کی معصومیت وقت کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے اور ذمہ داریاں ہمیں آ گھیرتی ہیں۔ تعلقات بھی وقت کے ساتھ بدلتے ہیں؛ جو لوگ کبھی قریب ہوتے ہیں، وہ دور ہو جاتے ہیں اور اجنبی اپنے بھی بن جاتے ہیں۔

     

    وقت کی ناقابل تبدیل حقیقت

    وقت کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ یہ کبھی واپس نہیں آتا۔ ایک بار جو لمحہ گزر جائے، اسے دوبارہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اسی لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے وقت کو ضائع نہ کریں، بلکہ اس کا بہترین استعمال کریں۔ زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے وقت کو منظم کریں، اپنے مقاصد کو واضح کریں اور ان تک پہنچنے کے لیے وقت کی پابندی کریں۔ وقت کی اٹل حقیقت کا سب سے بڑا ثبوت موت ہے۔ یہ زندگی کا ایک اٹل مرحلہ ہے، جس سے کوئی بھی بچ نہیں سکتا۔ وقت ہر انسان کو آخرکار موت کے دائرے میں لے جاتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی مال دار یا کامیاب کیوں نہ ہو۔ وقت کی یہ حقیقت بڑے بڑے مفکرین اور شاعروں کو زندگی اور موت کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتی رہی ہے۔ وقت کی اس ناقابل تنسیخ سچائی کو سمجھنا اور اس کا احترام کرنا ضروری ہے۔ زندگی مختصر ہے اور وقت بہت تیزی سے گزرتا ہے۔ اس لیے ہر لمحہ قیمتی ہے۔ وقت کا صحیح استعمال زندگی کو کامیاب اور بامقصد بناتا ہے۔

     

    سو سال پہلے ایک برطانوی مصنف نے اپنی ڈائری میں وقت کی اس اہم حقیقت کو بیان کیا۔ انھوں نے لکھا: ’’جب دوبارہ کیلنڈر پر اسی سال کا ہندسہ آئے گا، تو نہ آپ ہوں گے اور نہ میں‘‘۔یہ جملہ اس سچائی کو تسلیم کرتا ہے کہ زندگی عارضی ہے اور انسان کے پاس بہت سی ایسی خواہشات ہوتی ہیں جنھیں پورا کرنا اس کے بس میں نہیں ہوتا۔ مصنف مزید لکھتے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ عمر انھیں اجازت دے کہ وہ دوبارہ اس ہندسے کو دیکھ سکیں، لیکن انھیں معلوم تھا کہ یہ ممکن نہیں ہوگا۔

     

    معروف شاعر ساحر لدھیانوی نے اپنے بستر مرگ پر کہا تھا: ’’ڈاکٹر کپور، میں جینا چاہتا ہوں‘‘۔ ساحر نے اپنی زندگی میں غموں کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ دنیا خوب صورت جگہ ہے۔ ان کے الفاظ میں زندگی کی خوب صورتی کو یاروں کی محفلوں اور دنیا کے شور میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ اس دنیا کو چھوڑ کر نہ جائیں۔

     

    وقت شناسی کی اہمیت

    ہم میں سے بہت سے لوگ اور قومیں وقت کو ضائع کرتے ہیں، یہ سوچ کر کہ ہمارے پاس بہت سا وقت باقی ہے۔ اہم کاموں کو ٹالتے رہنا اور اپنے خوابوں کی پیروی میں تاخیر کرنا وہ غلطیاں ہیں، جن کا احساس ہمیں وقت گزرنے کے بعد ہوتا ہے، یہ وقت کے بارے میں ہماری بے حسی اور جان بوجھ کر ناقدری ہے کہ ہم اسے ضائع کرتے ہیں یہ سمجھتے ہوئے بھی کہ یہ واپس نہیں آتا۔ باقی لوگ اور قومیں جو وقت کی قدر کرتے ہیں وہ آگے نکل جاتے ہیں۔تاریخ میں ایسی کئی اقوام اور ممالک کی مثالیں موجود ہیں، جنھوں نے وقت کی قدر کی، محنت اور منصوبہ بندی کے ساتھ ترقی کی بلندیوں کو چھوا، جب کہ کچھ اقوام وقت اور وسائل کے ضیاع کی وجہ سے پستی اور ذلت کا شکار ہوئیں۔

     

    جرمنی نے دوسری جنگ عظیم کے بعد نہایت مشکلات کا سامنا کیا، مگر وقت کی قدر، محنت اور منصوبہ بندی سے اس نے خود کو دنیا کی ایک بڑی اقتصادی طاقت کے طور پر منوایا۔ "مارشل پلان" کے تحت جرمنی نے انفراسٹرکچر اور صنعت کو بہتر بنایا،جس نے اس کی معیشت کو مضبوط کیا۔ اسی طرح جاپان نے دوسری جنگ عظیم کے بعد بے انتہا نقصان اٹھایا، مگر ٹیکنالوجی، تعلیم اور وقت کی قدر کرتے ہوئے جلد ہی دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں شامل ہوگیا۔ جاپانی قوم کی محنت، وقت کے صحیح استعمال اور منظم منصوبہ بندی کی بدولت آج جاپان ایک ٹیکنالوجی پاور ہاؤس ہے۔ اگر چائنا کی بات کی جائے تو پہلے یہ ایک افیونی قوم تھی، لیکن انقلاب کے بعد انہوں نے وقت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے صنعت، تحقیق اور ترقی پر زور دیا، جس کی وَجہ سے آج چین دنیا کے بڑے اقتصادی اور علمی مراکز میں شامل ہے۔

     

    لیکن جن ممالک نےوقت کی قدر و قیمت کو نہیں جانا اور اس کا صحیح استعمال نہیں کیا تو ہمارے سامنے بہت ساری سلطنتوں کی مثالیں ہیں کہ جب وہاں کے حکمرانوں نے داخلی اختلافات ، فروعی مسائل اور عیش و عشرت میں وقت ضائع کیا تو ان کا زوال آنا شروع ہو گیا۔ علم و تحقیق کی سرزمین اندلس، جو مسلمانوں کی تہذیبی عروج کی علامت تھی، آہستہ آہستہ اندرونی خلفشار، سیاسی بد نظمی اور بیرونی حملوں کے سبب پستی کا شکار ہوگئی۔ اسی طرح عثمانی سلطنت ایک وقت میں دنیا کی سب سے بڑی اور مضبوط سلطنت تھی، مگر بعد کے حکمرانوں نے صحیح وقت پر صحیح فیصلے نہیں کیے اور جدید تقاضوں کو پورا نہ کرنے کی وَجہ سے یہ سلطنت رفتہ رفتہ زوال پذیر ہوئی۔ 1923ء میں عثمانی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔ مغل سلطنت کی عروج کے بعد اس کے آخری حکمرانوں نے انتظامی امور میں لاپرواہی کی اور وقت کے تقاضے کو ناسمجھتے ہوئے اپنی عیش و عشرت میں مبتلا رہے، نتیجتاً یورپین قومیں، جو یہاں تجارت کی غرض سے آئی تھیں، اپنی مکارانہ سیاست، دوغلی پالیسی اور ہندوستانیوں کو تقسیم کرنے میں کامیاب ہوئی، سلطنت کمزور ہوتی گئی اور آخرکار برطانوی سامراج نے ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔ اَب وطن عزیز کی مثال ہمارے سامنے ہے، چین ہم سے 2 سال بعد آزاد ہوا ہے لیکن آج ترقی کی دوڑ میں ہم کہاں ہے؟ اور وہ کہاں ہے؟

     

    وقت کا درست اور بروقت استعمال

    آج وطن عزیز میں ہم جہاں بھی دیکھتے ہیں، ہمیں نفرت، عداوت اور عدم برداشت نظر آتی ہے۔ سیاست ہو یا خونی رشتے، ہر جگہ انسانوں میں احساسات کی کمی اور ناقدری کا جذبہ بڑھ رہا ہے، مکارانہ سیاست اور بھوکی معیشت ہمیں زندگی کی خوشیوں اور سکون سے دور کر رہے ہیں۔

    الغرض کہ ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر وقت کی قدر کریں اور اپنی مختصر زندگی کو بہتر اور خوش گوار بنائیں۔ اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اجتماعی خوشی تب ہی مل سکتی ہے، جب وقت کے تقاضے کو سمجھتے ہوئے معاشرے میں اجتماعی بدحالی اور افلاس کا نظام تبدیل ہو اور وسائل قوم کے ہر فرد تک پہنچیں، تاکہ ہمارا قیام اس دنیا میں ایک خوب صورت یادگار بن سکے۔ وقت کی خوب صورت حقیقت ہمیں یہ سبق بھی دیتی ہے کہ ہر لمحہ قیمتی ہے، اور اس کا صحیح اور بروقت استعمال ہماری اِنفرادی و اجتماعی زندگی کو کامیاب بنا سکتا ہے ۔

     

     

    Share via Whatsapp