رزق کے لٹیروں کی کہانی - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • رزق کے لٹیروں کی کہانی

    ایک چھوٹے سے پرامن گاؤں میں ایک دولت مند آدمی رہتا تھا۔ وہ اپنی سخاوت، انسان دوستی اور رحم دلی کے لیے کافی مشہور تھا۔ اس نے ایک شام پورے گاؤں کو ۔۔۔۔۔

    By Sufian Khan Published on Oct 07, 2024 Views 457

    رزق کے لٹیروں کی کہانی 

    تحریر : سفیان خا ن ۔بنوں

     

    ایک چھوٹے سے پرامن گاؤں میں ایک دولت مند آدمی رہتا تھا۔ وہ اپنی سخاوت، انسان دوستی اور رحم دلی کے لیے کافی مشہور تھا۔ اس نے ایک شام پورے گاؤں کو ایک شان دار دعوت پر مدعو کیا اور کافی بڑی تعداد میں مختلف قسم کے مزے دار کھانے تیار کیے۔

    جب دعوت کی شام آئی تو گاؤں والے اُس کے گھر جمع ہوئے اور بے چینی سے کھانے کا انتظار کرنے لگے۔ اس دوران گاؤں کے کچھ بااثر، مکّار اور لالچی لوگوں (ایک فی صد سے بھی کم) نے ایک شیطانی چال (devilish scheme) سوچی۔ وہ لالچی اور خود غرض تھے، سو انھوں نے کھانے کی تقسیم (distribution) کا عمل اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

    اِدھر گاؤں والے بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں، اُدھر یہ مکّار کسی کی پرواہ کیے بغیر خون خوار بھیڑیوں کی طرح خود ہی کھائے جا رہے ہیں۔ وہ پلیٹیں بھر بھر کر کھا رہے ہیں۔ کبھی میٹھا کبھی ترش تو کبھی کڑوا۔کبھی چھوٹا گوشت، کبھی بڑا گوشت تو کبھی دم پخت کے شیریں نوالے.... نیز ہر قسم کا کھانا چکھتے چکھتے جب پوری طرح سَیر ہو گئے تو ایک اور شیطانی منصوبہ تیار کر لیا.... انھوں نے بچا ہوا سارا کھانا بھی اپنے پاس رکھ لیا اور باقی گاؤں والوں کے لیے کچھ بھی نہ رہنے دیا۔

    انھوں نے باہم مشورہ سے گاؤں والوں کو جمع کرکے ایک عجیب اعلان سنا دیا:

    دوستو! ہمارے پاس ایک اہم خبر ہے۔ آپ سب کے آنے سے پہلے، مالک نے ہر مدعو کی قسمت کا ریکارڈ ہمیں لِکھ کے دیا تھا، جس میں اس نے دو کالم بنا رکھے ہیں۔ 

    1۔ کھانا کھانے والے

    2۔ کھانا نہ کھانے والے

    یہاں اس نے بہت واضح طور پر ذکر کیا ہے کہ کس کو کتنا کھانا ملے گا اور کون کھائے بغیر ہی چلا جائے گا۔ ہماری خوش قسمتی سے، کھانے والوں کی فہرست میں صرف ہمارے ہی نام آئے ہیں، جب کہ باقی آپ سب کے نام کھانا نہ کھانے والوں کی فہرست میں ہیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ تم سب کو یہاں سے خالی پیٹ ہی جانا ہوگا...... گاؤں والے حیران و پریشان رہ گئے، ان کی خوشی افسوس اور حیرت میں بدل گئی۔ مکّاروں نے اعلان جاری رکھتے ہوئے کہا

    آپ کو ہم سے ناراض نہیں ہونا چاہیے، اگر آپ کو غصہ ہے تو اسے مالک پر نکالیں، ہم پر نہیں۔ آخر یہ سب تو اس کی مرضی سے ہوا، جس نے آپ کی قسمت کا فیصلہ کیا ہے۔ پھر بھی اگر آپ اپنی قسمت بدلنا چاہتے ہیں تو بے کار شکایتوں میں وقت ضائع نہ کریں، بلکہ آپ کو مالک کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے ہر لمحہ ہماری تابعداری کرنی چاہیے، ہم جو کہتے ہیں اس پر آنکھیں بند کرکے فوراً لبیک کہہ دینا چاہیے کیوں کہ آپ سب نے دیکھا کہ ہم مالک کے خاص بندوں میں سے ہیں۔ اس لیے ہم خوش تو مالک خوش اور ہم ناراض تو مالک ناراض...!اعلان ختم ہوا۔

    بھوکے اور تھکے ہارے گاؤں والے کھانا کھائے بغیر ہی وہاں سے چلے گئے۔ کچھ نے اپنی بدقسمتی کے لیے مالک کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیا اور سوال اٹھانے لگے کہ کیوں اس نے ان مکّاروں کو ان پر ترجیح دی۔ دوسرے، جو اپنی قسمت بدلنے کے خواہش مند تھے، مکّاروں کی تابعداری اور چاپلوسیوں میں مشغول ہو گئے، اس امید پر کہ اگلی بار مالک کی خوشنودی حاصل کر سکیں۔

    گاؤں والے مسلسل تکلیف میں مبتلا رہے۔ وہ تین طبقوں میں بٹ گئے۔ ایک طبقہ وہ جو مالک کی انصاف پر سوالات اٹھا رہا تھا، دوسرا وہ جو مالک کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے دن رات ایک کرکے مکّاروں کی تابعداری میں سرگرم تھا۔ تیسرا اور انتہائی چھوٹا مگر سب سے خوش حال طبقہ ان مکّاروں کا تھا، جنھوں نے گاؤں والوں کو بے وقوف بنا کر ان کے حصے کی رزق اور خوشیوں پر ناجائز قبضہ جما لیا تھا۔

    وقت گزرتا گیا،بھوک بڑھتی گئی، طبقاتیت نفرت میں بدل گئی۔ لڑائیاں شروع ہو گئیں۔ تاآنکہ یہ بھوکے پیاسے اور مظلوم لوگ ایک دوسرے کی جان کے پیاسے بن گئے۔ گاؤں میں ایک چھوٹا سا سمجھ دار طبقہ بھی ہے جو روزِ اول سے انھیں سمجھا سمجھا کر تھک چکا کہ بھئی ہمیں تحقیق کرنی چاہیے اور معلوم کرنا چاہیے کہ حقیقت کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مالک کی کارستانی ہو ہی نہیں سکتی، کیوں کہ اس کی فطرت تو ہمیشہ سخاوت سے بھرپور رہی ہے، لیکن گاؤں والے ہیں جو ایک کان سے سنتے ہیں تو دوسرے سے نکال دیتے ہیں۔ دوسری طرف مکّاروں پر بھی اس باشعور طبقے کا خوف طاری ہو چکا ہے۔ اس لیے گاؤں والوں کے سامنے اس باشعور طبقے کو جان بوجھ کر گمراہ پیش کیا جا رہا ہے۔ 

    یہ گاؤں والے آج بھی آپس میں لڑ رہے ہیں۔ معاشی بدحالی نے انھیں چوری، جسم فروشی، قتل و غارت اور خودکشی پر مجبور کر دیا ہے۔اَب وہ محض تین طبقے نہیں، بلکہ کئی ہزار طبقوں میں بٹ چکے ہیں۔ یہاں آج بھی مالک سے شکایتیں ہوتی رہتی ہیں، آج بھی مکّاروں کے لیے استعمال ہونا مقدس فریضہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن آج تک انھوں نے یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی کہ کیا واقعی مالک نے ہمیں ذلیل و رسوا کرنے کے لیے دعوت دی تھی یا پھر ہمارے حصے کا کھانا کوئی اور لے اڑا...

    عجیب اور دلچسپ بات یہ تھی کہ مالک مسلسل اپنی ہدایات انتہائی دیانت دار اور باکردار سفیروں کے ذریعے بھیجتا رہا۔ 

    خبر دار!!!

    ان نوسربازوں کی باتوں میں نہیں آنا ۔

    خبر دار!!!

    یہ دسترخوان میرا ہے اور میں نے تم سب کے لیے بچھایا ہے ۔ 

    ان بد معاشوں ، جعل سازوں اور بد دیانت لوگوں کی باتوں میں نہیں آنا ، ورنہ تم تباہ ہو جاؤ گے ۔۔

    لیکن گاؤں کے لوگ ان مکاروں کو اپنا خیرخواہ اور سچائی کے علمبردار لوگوں کو اپنا دشمن سمجھتے تھے ۔گاؤں کے لوگوں کی بڑی اکثریت نے نوسربازوں کی راہ نمائی میں ، برابر کی تقسیم کی بات کرنے والے لوگوں کے خلاف بڑے بڑے جلوس نکالے۔فاقوں سے نڈھال ہو کر بھی مساوات کی بات کرنے والوں کے خلاف بسر پیکار رہتے تھے ۔بڑے بڑے پوسٹر لگا رکھے تھے کہ مالک نے یہ دسترخوان صرف لٹیروں کے لیے بچھایا ہے ۔ ہم تو صرف ان لٹیروں کے خوشہ چیں ہیں ۔

    مالک ان کا مالک ہے اور یہ ہمارے مالک ہیں ۔ 

    مالک بہت اچھا ہے، لیکن یہ لٹیرے بھی بہت اچھے ہیں ۔

    گاؤں کے فاقہ زدہ لوگ نعرے لگاتے پھرتے تھے ۔

    " لٹیرے زندہ باد

    " لوٹ مار پائندہ باد"

    " مساوات کی بات کرنے والا دین کا غدار ہے "


    Share via Whatsapp