پاکستان میں ٹیکسز اور نظام انصاف کی حقیقت
نوجوانوں کو اس ظالمانہ نظام کو سمجھنا ہوگا جو عوام پر بھاری بوجھ ڈال کر اشرافیہ کو فائدہ پہنچاتا ہے اور سماجی و معاشی ناہمواری کو مزید گہرا کرتا ہے۔
پاکستان میں ٹیکسز اور نظام انصاف کی حقیقت
تحریر: نثار خان۔ بنوں
پاکستان میں ٹیکسز کے نظام کو سمجھنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہر قسم کے ٹیکسز جو امرا پر لگائے جاتے ہیں، حقیقت میں ان کا بوجھ عوام الناس کو ہی اُٹھانا پڑتا ہے۔اور اس تناظر میں عدلیہ کے فیصلے بھی اکثر متمول طبقات کے حق میں جھکے نظر آتے ہیں۔
ملک کے معاشی نظام کو چلانے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے جو بجٹ تیار کیا جاتا ہے دو چیزوں پر مشتمل ہوتا ہے، کمانے اور خرچ کرنے کے ذرائع، حکومت اپنے ملکی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے پیسے جمع کرتی ہے، جس کے بھی دو ذرائع ہوتے ہیں: ٹیکس اور غیرٹیکس آمدنی۔ غیرٹیکس آمدنی میں قرضے اور امداد، سرکاری اداروں سے حاصل ہونے والی آمدن ، سرکاری خدمات کی فیس وغیرہ شامل ہیں،لیکن سب سے بڑا حصہ ٹیکس آمدن کا ہوتا ہے۔ اور یہ ٹیکس وفاقی اور صوبائی حکومتیں محتلف سرکاری اداروں کے ذریعے سے اکٹھا کرتی ہیں۔
چوں کہ ملک کے ادارے ہمارے سیاست دانوں کے غیرضروری اخراجات اور سرمایہ داروں کی مراعات کی وَجہ سے خسارے میں رہتے ہیں، اس لیے ان کا بوجھ بھی عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔ پاکستان بجٹ میں دکھائے جانے والے اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہے، اس لیے سیاست دان، سول اور ملٹری بیوروکریسی کی فضول خرچیوں کو پورا کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے عوام کے نام پر قرض لے کر پورے ملک کو گروی رکھ دیا جاتا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ ایک فلاحی ریاست کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ غیرٹیکس ذرائع جیسے ملکی اداروں سے اتنا ریونیو جنریٹ کیا جائے، تاکہ عوام پر کم سے کم ٹیکس لگایا جائے۔ اس کی مثال روس، چائنا اور ایران ہیں، جب کہ سرمایہ دارانہ نظام میں معیشت کا سارا بوجھ عوام کے گلے میں ڈالا جاتا ہے اور اسی سرمایہ دارانہ جاگیردارنہ نظام کے ملاپ کا فرسودہ نظام پاکستان میں موجود ہے ۔
کچھ عرصے سے آئی ایم ایف بار بار اس بات پر زور دیتا رہا کہ امیروں پر بھی ٹیکس لگایا جائے۔ اس تناظر میں حکومتِ پاکستان نے امیروں پر ایک نیا ٹیکس متعارف کروایا، جسے سیکشن 7E کا نام دیا گیا۔ یہ ٹیکس بہ ظاہر امیروں سے وصول کرنا تھا اور عام عوام پر اس کا کوئی اثر نہیں ہونا تھا۔ 7E ٹیکس فنانس ایکٹ 2022ء کے تحت قومی اسمبلی کے ذریعے نافذ کیا گیا۔ اس کی بنیادی شرط یہ ہے کہ اگر کسی فرد کی جائیداد کی مجموعی مالیت ڈھائی کروڑ روپے سے زیادہ ہو، تو اضافی جائیداد پر ایک فی صد ٹیکس عائد ہوگا۔
تاہم! اس ٹیکس کے اطلاق میں کچھ شرائط بھی شامل ہیں، جنھیں نکالنے کے بعد ٹیکس کا حساب کیا جائے گا۔ مثال کے طور پر:
1۔ زرعی زمین جس پر فصل کاشت کی جاتی ہو۔
2۔ ایسی جائیداد جو کسی کاروبار کے لیے استعمال ہورہی ہو۔
3۔ ذاتی رہائش گاہ۔
4۔ شہداء کو دی گئی جائیداد۔
مثال:
اگر کسی فرد کی کل جائیداد 10 کروڑ روپے کی ہو، جس میں 3 کروڑ روپے کی زرعی زمین، 2 کروڑ کا ذاتی گھر اور 2 کروڑ کی کاروباری زمین شامل ہو، تو یہ سب مستثنیٰ ہوں گے۔ باقی ماندہ 3 کروڑ روپے پر ٹیکس لاگو ہوگا۔ ان میں سے ڈھائی کروڑ روپے نکالنے کے بعد صرف 50 لاکھ روپے پر ایک فی صد ٹیکس عائد ہوگا، یعنی ہر سال 50 ہزار روپے ادا کرنا ہوں گے۔
سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو مراعات:
یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر مذکورہ اضافی جائیداد سے کرایہ حاصل ہو رہا ہو، اور وہ گوشواروں میں ظاہر کیا جائے، تو وہ بھی اس ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دی جا سکتی ہے۔ظاہر ہے کہ جاگیردار اور سرمایہ دار اپنی زمین پر کاروبار بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی سرمایہ دار کی زمین پر فیکٹری ہو تو وہ زمین اس ٹیکس سے مستثنیٰ ہو گی۔ اسی طرح، زرعی زمین پر کاشت کاری کے ذریعے وہ ٹیکس سے بچ نکلتے ہیں۔
عدالتی پیچیدگیاں 7E ٹیکس کے نفاذ کو مختلف عدالتوں میں چیلنج کیا گیا اور اس کے نتیجے میں متضاد فیصلے سامنے آئے:
1۔ سندھ ہائی کورٹ نے 7E ٹیکس کو جائز قرار دیا۔
2۔ لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے اس کے خلاف فیصلہ دیا، لیکن انٹرا کورٹ بینچ نے اسے درست قرار دیا۔
3۔پشاور اور اسلام آباد ہائی کورٹس نے بھی اس ٹیکس کے خلاف فیصلے دیے۔
یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے، جہاں اس کی سماعت کے لیے ایک نیا بینچ تشکیل دیا جا رہا ہے۔ لیکن اگر آئی ایم ایف نے چاہا، تو حکومت اسے دوبارہ اسمبلی سے منظور کروا کر عدالتی فیصلوں کی اہمیت ختم کرسکتی ہے۔
عوامی بوجھ:
امیروں نے مختلف قانونی ذرائع سے اس ٹیکس میں رکاوٹیں ڈالیں اور اسے ادا نہیں کیا۔ اس کے برعکس، حکومت نے زمین کی خرید و فروخت پر اس ٹیکس کو لاگو کر دیا۔ اَب ہر وہ شخص جو زمین فروخت کرے گا، اسے یا تو7E ٹیکس ادا کرنا ہو گا یا اس سے استثنیٰ کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ہوگا۔
زمین کے انتقال کے وقت ٹیکس کلیکشن کی اتھارٹی تحصیل دار، کو پابند کیا گیا کہ 236K زمین خریدنے پر خریدار سے لیا جانے والا ٹیکس اور 236C زمین فروخت کرنے پر فروخت کنندہ سے لیا جانے والے ٹیکس کے ساتھ 7E ٹیکس یا اس کے استثنیٰ کے سرٹیفکیٹ کی تصدیق کی جائے، ورنہ زمین کا انتقال نہ ہو۔
عام آدمی جو نہ تو گوشوارے جمع کرانے کا عادی ہے اور نہ ہی ٹیکس قوانین سے واقف ہے، یا تو سرٹیفکیٹ کے لیے رشوت دیتا ہے یا کنسلٹنٹ کی فیس ادا کرتا ہے۔ اس پر مزید یہ کہ ہر سال اسے گوشوارے جمع کرانے کا پابند بھی کیا جاتا ہے۔ یوں، یہ ٹیکس بالواسطہ طور پر عام عوام کے گلے پڑ جاتا ہے۔
جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی چالاکیاں:
سرمایہ دار اور جاگیردار مختلف قانونی ہتھکنڈوں سے اس ٹیکس سے بچ نکلتے ہیں۔ مثلاً:
1۔ چینی کی فیکٹری کے مالک اپنی زمین کو کاروباری استعمال کے لیے ظاہر کر کے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔
2۔ زرعی زمین، جس پر وہ گنے کی کاشت کرتے ہیں، کو بھی اس ٹیکس سے باہر رکھا جاتا ہے۔
3۔ خیراتی کاموں اور فلاحی عطیات کے نام پر اپنے ٹیکس کی چھوٹ حاصل کر لیتے ہیں، جس سے ان کی تشہیر بھی ہو جاتی ہے۔
آخر میں سارا بوجھ غریب عوام پر ہی آتا ہے۔ غریب عوام کو گوشوارے جمع کر کے سرٹیفکیٹ لینا پڑتا ہے اور اس کے لیے الگ اضافی پیسے دینےپڑتےہیں یا ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ حکومتِ پاکستان، جو اس ٹیکس کے عدالتی فیصلے کے انتظار میں ہے، عوام سے اربوں روپے پہلے ہی جمع کر چکی ہے۔ اگر عدالت اس ٹیکس کو ناجائز قرار دیتی ہے، تو بھی عوام کو ان کی رقم واپس نہیں ملے گی۔
یہ نظام عام آدمی کو مزید دَبانے کا ذریعہ بن چکا ہے، جب کہ جاگیردار اور سرمایہ دار اپنی چالاکیوں سے ہر بار بچ نکلتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ ظلم کب تک جاری رہے گا؟
نوجوانوں کو اس ظالمانہ نظام کے اَثرات سمجھ کر ایک صالح جماعت کے زیر سایہ سیاسی اور معاشی شعور حاصل کرنا ہوگا تاکہ عدل، امن اور خوش حالی پر مبنی ایک منصفانہ نظام قائم کیا جا سکے۔ موجودہ نظام عوام پر مہنگائی اور ٹیکسوں کا بوجھ ڈال کر اشرافیہ کو فائدہ پہنچاتا ہے، جب کہ جاگیردار اور سرمایہ دار قوانین سے بچ نکلتے ہیں۔ نوجوانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ جماعتی سطح پر منظم جدوجہد کرتے ہوئے سماجی انصاف اور مساوات کے قیام کی راہ ہموار کریں۔ اس مقصد کے لیے ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ ٹرسٹ لاہور نوجوانوں کی تربیت اور راہ نمائی میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے، جو ایک روشن اور منصفانہ مستقبل کی ضمانت ہے۔