پاکستان کی سکڑتی دولت
پاکستان میں ارتکازِ دولت کا ایک جائزہ
پاکستان کی سکڑتی دولت
تحریر: محمد علی۔ ڈیرہ اسماعیل خان
تقسیمِ ہند سے پہلے ہندوؤں کا رجحان تجارت کی
طرف زیادہ تھا، ہمیں تاریخ میں ایسے حقائق ملتے ہیں کہ مسلم لیگ میں شامل ہونے
والی مسلم اشرافیہ نے اپنا وزن مسلم لیگ کی جھولی میں اس لیےڈالا تاکہ نئی ریاست
میں وہ اپنے کاروبار کو ترقی دیں اورآسانی سے مارکیٹ کو قابو میں رکھ سکیں۔
تجارت پر اجارہ داری کی یہی سوچ تقسیمِ ہند کی
امریکی ضرورت کے ساتھ ایک اہم وَجہ بنی۔ یہ سلسلہ پاکستان بننے کے بعد بھی جاری
رہا، پاکستانی صنعت پہ اسی اشرافیہ کا راج ہے۔ جہاں یہ نو زائیدہ مملکت پہلے کچھ
سال سول اور ملٹری بیوروکریسی کی کھینچا تانی کا شکار رہی وہیں وسائل کی بندر بانٹ
کا بھی۔
سکندر مرزا کو ہٹا کر ایوب خان آئے اور 10 سال
اقتدار پر قابض رہے۔ اپنے 10 سالہ دورِ اقتدار کا جشن "اصلاحات اور ترقی کا
عظیم عشرہ" کے نام سے منایا۔ایوب حکومت کے چیف اکنامسٹ اور پلاننگ کمیشن کے
چیئرمین، ڈاکٹر محبوب الحق نے جب یہ انکشاف کیا کہ ملک کی 80 فی صد دولت پر 22
خاندانوں کا قبضہ ہے تو اس انکشاف کا بہت چرچا ہوا اور حکومت مخالف تحریک نے اس
انکشاف کو مرکزی نقطہ بنایا۔(ہو اونز پاکستان،ص82)
22 خاندانوں کی کہانی 1950ء سے شروع ہوتی
ہے، جس کا ذکر شاہدالرحمن نے اپنی کتاب "ہُو اونز پاکستان
Who Owns Pakistan" میں کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب شروع کے پانچ سالہ
منصوبے ترتیب دیے جا رہے تھے تو مرکزی حکومت نے صنعتی فروغ کے لیے ایک کانفرنس کی،
جس میں سپیکر نے یہ تجویز پیش کی کہ حکومت صنعتیں لگائے اور انھیں نجی شعبے کو بیچ
دے۔ اس حوالے سے دو ادارے بنائے گئے، جس میں ایک کا نام پاکستان انڈسٹریل
ڈیویلپمنٹ کارپوریشن (PIDC) اور دوسرے کا نام پاکستان
انڈسٹریل کریڈٹ اینڈ انویسٹمنٹ کارپوریشن(PICIC) تھا۔(ایضاً،ص81)
صنعتیں لگانا PIDC کا، جب کہ
PICIC کا
کام ان کو قرضہ جات اور سہولیات مہیا کرنا تھا۔
آدم جی گروپ سے تعلق رکھنے والے اس وقت کے
مشہور سرمایہ دار ڈبلیو اے آدم جی، PIDC کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے
سربراہ، جب کہ داؤد گروپ سے تعلق رکھنے والے احمد داؤد اس کے نائب چیئرمین رہے۔PICIC
کے
بورڈ آف ڈائریکٹر میں 13 لوگوں کا تعلق نجی شعبے سے تھا، جن میں 7 لوگ کا تعلق آدم
جی، داؤد گروپ، جلیل، فینسی گروپ، رنگون والا اور والیکا جیسے سرمایہ دار خاندانوں
سے تھا۔(ایضاً،ص82)
عوام کے ٹیکس کے پیسے سے PIDC نے بہت سی صنعتیں لگائیں اور
ان کو نجی گروپس کے حوالے کر دیا۔ ڈاکٹر شاہد الرحمن لکھتے ہیں کہ صنعتوں کو نجی
گروپس کے حوالے کرنے کا یہ عمل غیر شفاف تھا، جس کے لیے کوئی تشہیر نہیں کی گئی
اور نہ ہی کوئی ڈاکومنٹ موجود ہے، جس سے پتہ چلے کہ کون سا صنعتی یونٹ کتنے پیسوں
کے عوض بیچا گیا۔(ایضاً، ص81)
جو صنعتیں PIDC نے لگائیں اور نجی گروپس کو
بیچیں، ان میں "کرنا فلی پیپر ملز" داؤد گروپ کو بیچی گئی جو مشرقی
پاکستان میں تھی۔ اسی طرح جوہر آباد شوگر ملز (کوہِ نور) سہگل گروپ کو بیچی گئی،
کراچی گیس کمپنی فینسی گروپ کو بیچی گئی، چار سدہ شوگر ملز ہوتی خاندان کو دی گئی،
آدم جی کیمیکلز، آدم جی انڈسٹری، آدم جی ہائی گریڈ پیپر، پیپر بورڈ مل آدم جی گروپ
کو دیے گئے۔مغربی پاکستان میں چھ جویٹ مل انھی 22 سرمایہ دار خاندانوں کو دی
گئیں۔(ایضاً)
اس گنگا میں صرف سرمایہ دار خاندانوں نے ہی
ہاتھ نہیں دھوئے، بلکہ حکمران بھی اس لوٹ کھسوٹ میں شامل تھے۔جنرل ایوب خان کے
سمدھی لیفٹیننٹ جنرل حبیب اللہ خٹک کو گندھارا موٹرز انڈسٹری سمیت چار صنعتی یونٹس
دیے گئے۔(ہو اونز پاکستان،ص41)
گندھارا موٹر انڈسٹریز کو
چمکانے کے لیے ایوب خان نے کئی ایسے فیصلے کیے جو آج تک مملکتِ خداداد کی تنزلی کی
ایک وَجہ ہیں۔ ایوب خان کے دورِحکومت میں جب پلاننگ کمیشن نے انھیں ریلوے چلانے کی
تجویز دی تو انھوں نے جواب دیا کہ ہم ریلوے نہیں ٹرک چلائیں گے، کیوں کہ ٹرکوں کے
ٹھیکے ایوب خان کے خاندان کے پاس تھے۔ آج ریلوے کی تباہی کے تانے بانے اسی گندھارا
انڈسٹریز کے ساتھ بھی ملتے ہیں۔
ایک طرف تو حکومتِ پاکستان
PIDC کے
ذریعے صنعتیں لگا رہی تھی، اوردوسری طرف پاکستان PICIC کے ذریعے انھی 22 سرمایہ دار
خاندانوں کو قرضے بھی دے رہی تھی۔پروفیسر لورنس جے وائٹ نے اپنی کتاب،
"انڈسٹریل کنسنٹریشن اینڈ اکنامک پاور ان پاکستان" میں یہ انکشاف کیا کہ
64 فی صد قرضے انھی 22 سرمایہ دار خاندانوں کو دیے گئے، اسی طرح سعید شفقت نے اپنی
کتاب "پولیٹیکل سسٹم آف پاکستان اینڈ پبلک پالیسی" میں لکھتے ہیں کہ 70
فی صد قرضے صرف11 خاندانوں کو دیے گئے۔ ان 22 خاندانوں کی دولت کا اندازہ آپ اس
بات سے لگا سکتے ہیں کہ پلاننگ کمیشن کے چیئرمین اور ایوب خان کے چیف اکنامسٹ محبوب
الحق کا کہنا ہے کہ 80 فی صد بینک اور 70 فی صد انشورنس کمپنیاں انھی 22 خاندانوں
کی ملکیت تھیں۔(ایضاً،ص82)
"انڈسٹریل کنسنٹریشن اینڈ
اکنامک پاور ان پاکستان" کے مصنف لارنس جے وائٹ اور "پولیٹیکل سسٹم آف
پاکستان اینڈ پبلک پالیسی" کے مصنف سعید شفقت کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر شاہد
الرحمن نے لکھا ہے کہ PIDC اور PICIC کو بنانے کا مقصد ہی ان 22
خاندانوں کو نوازنا تھا۔(ایضاً،ص81)
شاہد الرحمن صاحب مزید لکھتے ہیں کہ مشرقی
پاکستان میں 39 بڑے صنعتی یونٹس میں سے 11 اور مغربی پاکستان میں 17 میں سے 8 بڑے
صنعتی یونٹس انھی 22 خاندانوں کو دیے گئے۔ اور 1974 ءمیں نیشنلائز ہونے والے 13
بینکوں میں سے 7 انھی خاندانوں کے تھے، جن میں کُل ملکی ڈیپازٹ کا 90 فی صد جمع
تھا۔(ایضاً،ص84)
22 سرمایہ دار خاندانوں کی کہانی کے بعد عام آدمی
کی کہانی بھی سن لیں۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 2024ء میں پاکستان میں شرح غربت
40.5 فی صد رہے گی۔ خیال رہے اس سے پہلے شرحِ غربت 40.2 تھی، جس میں 0.03 فی صد کا
اضافہ ہوا، یوں مزید 2.6 ملین افراد خطِ غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔(ورلڈ بینک
رپورٹ 10 اکتوبر 2024ء) یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے
اور امیر امیر تر۔
روزنامہ "دی نیوز" نے 25 مئی 2024ء
کو "پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس" کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے
ہوئے لکھا ہے کہ بلوچستان میں 70 فی صد لوگ غربت کا شکار ہیں، 48 فی صد لوگ خیبر
پختونخوا میں، 45 فی صد سندھ میں اور 30 فی صد پنجاب میں۔ اگر سہولیات کی فراہمی
کی بات کی جائے تو 26.5 فی صد آبادی کو رہائش کی سہولیات کے مسائل ہیں، 49.4 فی صد
آبادی کو تعلیمی سہولیات میسر نہیں، جب کہ 24.1 فی صد آبادی کو صحت کی سہولیات
میسر نہیں۔
آپ نے سٹاک ایکسچینج انڈیکس میں تیزی پر حکومتی
جماعت کے لوگوں کو واویلا کرتے دیکھا ہو گا، لیکن اس کے باوجود بھی اس کا اَثر
معیشت پہ نہیں پڑتا، کیوں؟
اس حوالے سے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ
اکنامکس کے چانسلر ڈاکٹر نعیم الحق اور امین حسین نے،اپنے مقالے "اے سمال
کلب: ڈسٹریبیوشن، پاور اینڈ نیٹورکس ان فائننشل مارکیٹس آف پاکستان" میں اس
سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی کہ کیا وَجہ ہے کہ اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کے
باوجود بھی اس کا اَثر ملکی معیشت اور عام آدمی کی زندگی پر نہیں پڑتا؟ سرکاری
رپورٹس کی روشنی میں انھوں نے سٹاک ایکسچینج کی سال 2018ء کی ساخت کا جائزہ لیتے
ہوئے بتایا کہ یہ چند اداروں کے ہاتھوں یرغمال ہوچکی ہے۔
مصنفین اپنے مقالے میں لکھتے ہیں: "اس
تحقیق سے ان تصورات کی تصدیق ہوگئی اور یہ حقیقت سامنے آئی کہ سٹاک مارکیٹ پر 31
خان دانوں کی اجارہ داری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 50 برس پہلے ڈاکٹر محبوب الحق نے
جن 22 خاندانوں کی اجارہ داری کا انکشاف کیا تھا، وہی رجحان اَب بڑھ کر 31
خاندانوں میں تبدیل ہوچکا ہے اور سٹاک مارکیٹ میں بیش تر دولت بھی ان ہی کے ہاتھوں
میں محدود ہے۔"(اے سمال کلب:ڈسٹریبیوشن،پاور اینڈ نیٹورکس ان فائننشل مارکیٹس
آف پاکستان،صفحہ 6اور 12)
اس مقالے میں بتایا گیا ہے کہ سٹاک ایکسچینج
اشرافیہ کا ایک کلب بن چکی ہے، جس میں بڑے سرمایہ داروں کا گٹھ جوڑ ہے، ان کی گرفت
مضبوط ہے اور نئے آنے والے سرمایہ دار کے لیے مواقع محدود ہیں۔
ممتاز ماہر معیشت حسن صدیقی سے جب بی بی سی نے
سوال کیا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ چند ادارے پورے ملک کی معیشت پر قابض ہوں؟تو
جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں اکثر معاشی پالیسیاں طاقت ور طبقات کے
دَباؤ میں بنائی جاتی ہیں اور اگر اس میں کوئی رکاوٹ ہو تو حکومت اور سرکاری ادارے
اس کا بوجھ عوام پر منتقل کر دیتے ہیں اور نئی قانون سازی کرنے میں کوئی عار محسوس
نہیں کرتے۔(بی بی سی اردو 6جون2012ء)
پیش کردہ حقائق سے آپ کو پاکستان کی معاشی
تباہی کا اندازہ ہو گیا ہو گا۔اس سب کے باوجود طرفہ تماشا یہ ہے کہ جس بھی پارٹی
کی حکومت آئی اس کے دور میں سرمایہ دار کو کلین چٹ ملتی رہی، اس کا کاروبار پھلتا
پھولتا رہا، کبھی وہ قرضے معاف کرواتا رہا تو کبھی ایمنسٹی اسکیمز سے فائدہ
اُٹھاتا رہا۔ جب کہ اس سب کا بوجھ تنخواہ دار طبقہ اور عام آدمی اٹھاتا رہا جس پہ
طرح طرح کے ٹیکس لگا کر، مہنگائی کر کے اس کا خون تک نچوڑا گیا۔
لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سرمایہ دارانہ
نظام کو توڑا جائے اور اس کی جگہ ایسا نظام قائم کیا جائے، جس میں دولت کا ارتکاز
محض چند ہاتھوں میں نہ ہو، بلکہ معاشرے کے تمام افراد اس کے حصہ دار ہوں، خصوصاً
محنت کش طبقہ جو پیدائش دولت کا ایک اہم کردار ہے،جس کو اس سرمایہ دارانہ نظام میں
اپنی محنت کا جائز صلہ تک نہیں ملتا۔