معاشی عدل اور دینی ہدایات
معاشی عدل: قومی مسائل کے حل کا ناگزیر تقاضا
معاشی
عدل اور دینی ہدایات
کاشف
حسن۔ پشاور
عدل
کا معنی
لغت
کے اعتبار سے '' کسی چیز کو دو حصوں میں تقسیم کرنے'' کو عدل کہتے ہیں۔ جس کی ضد
''ظلم و زیادتی'' ہے۔
عدل
کا مفہوم '' کسی چیز کو اس کے صحیح مقام پر رکھنا''، حق دار کو اس کا حق دینا اور
اِنفرادی و اجتماعی معاملات میں اعتدال کو اپنا کر افراط و تفریط سے بچنا ہے۔
قرآن
حکیم کا حکم ہے :
إِنَّ
اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ
"بے
شک اللہ انصاف اور احسان کا حکم دیتا ہے"۔ (سورۃ النحل:90)
سماجی
مغالطے کا صحیح فہم
عدل
کو صرف عدالت (قانونی نظام) تک محدود کردیا گیا ہے، حال آں کہ اس کا اطلاق تو
زندگی کے ہر پہلو پر اور خصوصاً معاشی نظام میں ہوتا ہے۔ معاشرے میں اگر معاشی
نظام، عدل کی اساس پر قائم کیا جائے تو اس کے یہ فوائد حاصل ہوتے ہیں:
1۔
وسائل پر مخصوص طبقے کی اجارہ داری نہیں رہتی۔
2۔
طبقات میں تقسیم ختم ہو جاتی ہے۔
3۔
معاشی ترقی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
4۔
معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔
وطن
عزیز پر مسلط معاشی نظام، عدل کے بجائے ظلم وجبر کا آئینہ دار ہے۔
سرمایہ
داریت کا اصل آئینہ اور سماجی اَثر
سرمایہ
داری نظام میں عدل کے بجائے بےجا منافع اور ذاتی مفاد کو زیادہ اہمیت دی جاتی
ہے،جس سے گو ایک طرف پیداواری عمل میں تیزی پیدا ہوتی ہے، مگر دوسری طرف دولت کی
غیرمنصفانہ تقسیم کے نتیجے میں امیراورغریب کا فرق بڑھتا ہے۔
ورلڈبینک
کے ڈیٹا کے مطابق اس وقت وطنِ عزیز کی 40فی صد آبادی (تقریباً 9 کروڑ شہری) خط
غربت (2.15 ڈالر آمدن روزانہ) سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ملکی
دولت کا 60 فی صد سے زائد تقریباً 10 فی صد آبادی کے پاس ہے۔
ان
حقائق کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ سرمایہ داریت کا معاشی ماڈل حقیقی سماجی
فلاح کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور معاشرے کی مجموعی ترقی کے لیے متبادل
معاشی نظام کے قیام کی جدوجہد ناگزیر ہے۔
دین
اور مذہب کا بنیادی فرق
دین
کا لفظ عربی میں نظام کے لیے استعمال ہوتا ہے، جس کے تحت کئی ذیلی نظام آجاتے ہیں،
مثلاً عقائد، عبادات، سیاست، معیشت، سماج سب شامل ہیں، جب کہ عام طور پر مذہب
عقائد کی اساس پر عبادات کا ایک مجموعہ ہے جو اخلاقی وعظ کی حد تک تو درست ہے،
لیکن معاشرتی تشکیل کے لیے منظم فکر وفلسفہ اور پروگرام دینے سے عاری نظر آتا ہے۔
اسلام
ایک مہین دین
قرآن
و سنت کی تعلیمات اور تاریخ انسانی اس بات پر شاہد ہے کہ اسلام کا اللہ تعالیٰ کے
نزدیک پسندیدہ ترین دین ہونے کا بنیادی سبب اس کی جامعیت و ہمہ گیریت ہے۔ دینِ
اسلام نہ صرف انسانی زندگی کے دائروں سے متعلق دو ٹوک اور واضح راہ نمائی فراہم
کرتا ہے، بلکہ یہ فکر ہر دور کے تقاضوں کو اپنے اندر سمونے کی بھی صلاحیت رکھتا
ہے۔
یہی
وَجہ ہے کہ دینِ اسلام معاشی عدل کے فروغ کے لیے ایک مکمل نظام پیش کرتا ہے جو
تمام انسانوں کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے انھیں برابری کے مواقع فراہم کرتا ہے۔
معاشی
انصاف کا مطلب
معاشی
عدل سے مراد ایسا نظام ہے، جس میں ہر فرد کو اس کی ضرورت کے مطابق نظامِ معیشت سے
حصہ ملے اور کوئی طبقہ کسی دوسرے پر ظلم نہ کرے۔ اسلام کا معاشی عدل کا نظریہ
اِنفرادی و اجتماعی حقوق کا تحفظ کرتا ہے اور تمام افراد کو ان کی محنت کے مطابق
ان کا جائز حق فراہم کرتا ہے۔
معاشی
عدمِ توازن کانقصان
معاشی
عدمِ توازن کے نتیجے میں طبقاتی نظام پیدا ہوتا ہے جو اسلام کے اصولوں کے خلاف ہے۔
قرآن
حکیم میں ہے:
كَيْ
لَا يَكُونَ دُوْلَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ
"تاکہ
وہ (دولت) تمھارے مال داروں کے درمیان ہی نہ گھومتی رہے"۔ (سورۃ الحشر: 7)
گروہی
تمدن
معاشی
ناہمواری سے معاشرہ طبقاتی تفریق کا شکار ہوجاتا ہے اور ہر شہر کے اندر دوسرا شہر
بس جاتا ہے۔ امیر و غریب کی تعلیم، صحت اور روزگار تک رسائی کے مواقع میں واضح فرق
بلکہ ایک بہت بڑی خلیج پیدا کر دی جاتی ہے۔
معاشی
بدحالی کا اثر
معاشرتی
عدمِ توازن، محرومیوں کو جنم دیتا ہے اور یہی محرومیاں آگے چل کر سماج میں منافقت
اور عدم اعتماد کے فروغ کا باعث بنتی ہیں۔
حدیث
نبوی ہے :
کَادَ
الْفَقْرُ اَنْ یَّکُوْنَ کُفَراً
قریب
ہے کہ فقر (محتاجگی) کفر (قانون الٰہی سے انکار کا سبب) بن جائے۔
انسانی
صفات سے محرومی
جب
انسانوں کے مابین مالی فرق بڑھتا ہے تو اخلاقی قدریں (ایثار، محبت اور ہمدردی
وغیرہ) کمزور پڑ جاتی ہیں۔ غربت اور محرومی کی حالت میں انسان خود اعتمادی کھو
دیتا ہے اور نان جویں کی فکر میں تخلیقی صلاحیتیں دَب جاتی ہیں۔
بقول
ساحر لدھیانوی:
مفلسی
حس لطافت کو مٹا دیتی ہے بھوک
آداب کے سانچوں میں ڈھل نہیں سکتی۔
اسلام
اور معاشی عدل
دینِ
اسلام میں معیشت کا بنیادی مقصد معاشی عدل کا قیام اور ہر انسان کو اس کے حقوق
دِلانا ہے۔ اس کا مقصد ایسے اقتصادی حالات پیدا کرنا ہے، جہاں ہر فرد کو اپنی
معاشی ضروریات پوری کرنے کا برابر موقع ملے۔ افراد معاشرہ پوری یکسوئی اور خندہ
پیشانی سے سماجی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
اقتصادیات
کے اصول
(الف)
حق معیشت میں مساوات
اسلام
نے ہر انسان کو حق معیشت کا برابر حق دیا ہے۔قرآن حکیم میں ہے:
هُوَ
الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًاۗ
"وہی
ہے جس نے جو کچھ زمین میں ہے، سب تمھارے لیے پیدا کردیا"۔
دینِ
اسلام کے اس معاشی اصول کی اساس پر کسی بھی جغرافیائی حدود میں بسنے والے انسانوں
کا وہاں پر موجود تمام وسائل پر برابر کا حق ہے۔
(ب)
احتکار و اکتناز کی ممانعت
اسلام
نے دولت کو بلاضرورت جمع کرنے اور ذخیرہ اندوزی کو حرام قرار دیا ہے:
وَالَّذِينَ
يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ
فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
"جو
لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں
دردناک عذاب کی بشارت دے دو" ۔ (سورۃ التوبہ: 34)
نبی
کریم ﷺ نے فرمایا :
"جس
نے مسلمانوں کے لیے اجناس کو ذخیرہ کیا اللہ اسے مفلسی اور کوڑھ کے مرض میں مبتلا
کرے گا" (ابن ماجہ)
بلاوَجہ
غلہ اور دولت جمع کرنے کا نقصان
احتکار
اور اکتناز کی وَجہ سے معاشرتی توازن بگڑ جاتا ہے اور غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس
کے برعکس سرمایہ داری نظام خواہشات کو ابھار کر زیادہ سے زیادہ منافع کے حصول کے
سبب احتکار اور اکتناز کو فروغ دیتا ہے۔
(ج)
مالک ہونے کا دائرہ کار
اسلام
میں اِنفرادی اور اجتماعی ملکیت کے درمیان ایک متوازن تصور پیش کیا گیا ہے۔دینِ
اسلام ذاتی ملکیت کا قائل ہے، مگر وہی جس سے اجتماعی حقوق سے محرومی نہ ہو۔ اس نے
ساتھ ساتھ زکوٰۃ اور صدقات (معاشرتی اخراجات میں خرچ) کے ذریعے اجتماعی فلاح کو
یقینی بنایا ہے۔ اس کے برعکس سرمایہ داری نظام میں لامحدود ذاتی ملکیت کا تصور
طبقات کو جنم دیتا ہے، جب کہ اشتراکیت میں ذاتی ملکیت کا تصور ہی مفقود ہے۔
(د)
محنت کا اساسی رول
اسلام
محنت کی عظمت پر زور دیتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَأَنْ
لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعىٰ
"انسان
کے لیے وہی ہے جس کی وہ کوشش کرے"۔ (سورۃ النجم: 39)
تفسیری
روایت ہے:
اَلْکَاسِبُ
حَبِیْبُ الْلّٰهِ
"محنت
کرنے والا اللہ کا دوست ہے"۔
ہر
انسان کو اپنی معاشی حالت بہتر کرنے کے لیے محنت کرنی چاہیے اور دوسروں کے حقوق کا
خیال رکھنا چاہیے۔
اسلام
میں سود (ناجائز منافع خوری) کو حرام قرار دے کر محنت کے عوض، معاوضے کا اصول
اپنایا گیا ہے۔ اسی اصول پر قومی اور ملکی دولت میں اکثر حصہ ان لوگوں کا حق ہوتا
ہے جو قومی ترقی کے لئے ذہنی و جسمانی مشقت اختیار کریں۔
(ہ)اقتصادی
درجہ بندی اور گروہی نظام
اسلام
میں مختلف درجات کو قدرتی اور ضروری تسلیم کیا گیا ہے، لیکن اس کا مقصد طبقاتی ظلم
نہیں، بلکہ باہمی تعاون اور فلاح ہے۔
قرآن
حکیم میں ہے:
وَاللَّهُ
فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ
"اللہ
نے تم میں سے بعض کو بعض (دوسروں) پر رزق میں فضیلت دی ہے"۔ (سورۃ النحل: 71)
ایک
اور جگہ قرآن حکیم میں فرمایا گیا:
وَرَفَعْنَا
بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ
"اور
ہم نے بعض کو بعض پر درجے دیے ہیں"۔ (سورۃ الزخرف: 32)
درجات
کا فرق ایک دوسرے کی مدد اور معاشرتی ترقی کے لیے ہوتا ہے، ظلم اور استحصال کے لیے
نہیں۔
سماجی
انصاف کا قیام
حقیقی
معاشی عدل کے قیام کا واحد راستہ دین اسلام کی اساس پر معاشی نظام کا قیام ہے، جس
کے لیے درج بالا اصولوں کی اساس پر ایک منظم اور تربیت یافتہ جماعت کا قیام اس دور
کا سب سے اہم تقاضا ہے، تاکہ محروم اور پسی ہوئی انسانیت کو ظلم کی اس چکی سے نجات
دِلائی جا سکے۔