گدا گری ایک لعنت یا قومی پیشہ
کسی معاشرے میں نظام کے ذریعے پیدا ہونیوالی برائیوں یا خرابیوں کا سدباب اس نظام کی تبدیلی سیے ممکن ہے محض فرد کی تبدیلی یا اصلاح سے نہیں-
گدا گری ایک لعنت یا قومی پیشہ
ہارون رشید۔ راولپنڈی
ماہرین عمرانیات کے مطابق گداگری ایسا سماجی رویہ ہے، جس میں معاشرے کا کمزور اور پسا ہوا طبقہ اپنی بنیادی ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے دوسروں کی مدد کا محتاج ہوتا ہے۔ یعنی گداگری غربت اور محرومی سے جنم لینے والی ایسی سرگرمی کا نام ہے،جس میں دوسروں کے سامنے درخواست کر کے رقم یا صدقات کا حصول ہوتا ہے۔
غربت، افلاس، بےروزگاری، بیماری، ذہنی و جسمانی معذوری، قدرتی آفات اور جنگیں عام طور پر گداگری کا باعث ثابت ہوتی ہیں۔کچھ لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ غربت گداگری کی بنیادی وجہ ہے اور اگر گداگری کو ختم کرنا ہے تو غربت کو ختم کرنا ہوگا۔ایک سروے کے مطابق پاکستان میں سات کروڑ سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں، لیکن اس غربت کی بنیادی وجہ تیسری دنیا کا بدترین سرمایہ دارانہ نظام ہےکہ جس میں محنت کی صحیح اجرت نہیں ملتی۔ بدقسمتی سے اس پر کوئی سروے نہیں یا شاید میر ے .ناقص مطالعہ سے نہیں گزرا۔
پاکستان میں گداگری کا پیشہ ایک مافیا میں بدل چکا ہے اور ایک منظم مضبوط نیٹ ورک ان گداگروں کے پیچھے کام کر رہا ہوتاہے۔اس نیٹ ورک کے افراد اپنے لوگوں کو مختلف جگہوں پہ کھڑے کرتے ہیں اور بھیک منگواتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی نگرانی بھی کی جا رہی ہوتی ہے،اور تو اور یہ جگہیں کرائے پہ دی جاتی ہیں اور ہر بھکاری کی جگہ مخصوص ہوتی ہے۔ اس کی جگہ پہ دوسرا بھکاری نہیں کھڑا ہوسکتا اور ساتھ ساتھ بھیک مانگنے کے اوقات کار بھی متعین ہوتے ہیں۔اس گداگر مافیا کے گروپ میں جو بھکاری سب سے زیادہ کما کر دیتا ہے اس کو اتنے ہی پوش علاقے میں تعینات کیا جاتا ہے۔ اگر ان کی کمائی کی بات کریں تو اہم مقامات یا شاہراہوں پر بیٹھنے والے پیشہ ور بھکاری اوسطا-10 ہزار روزانہ کماتے ہیں۔ ان گداگروں کی تعداد کےحوالے سے کوئی مستند اعدادوشمار تو نہیں ہیں، لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں بھکاریوں کی تعداد 1 کروڑ سے 2٫5 کروڑ کے درمیان ہے ۔ پیشہ ور بھکاری مختلف حربے اپناتے ہوئے اپنی معذوری ، محتاجگی یا بیماری کا راگ الاپتے ہوئے اور اللہ رسول کے واسطے دیتے ہوئے کمال اداکاری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور لوگوں(خاص طور پر خواتین کیوں کہ وہ نرم دل ہوتی ہیں)کوجذباتی کرتے ہوئے ان سے زیادہ سے زیادہ رقم نکلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اس سارے عمل کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ معاشرے کا اصل حق دار اور سفید پوش طبقہ نظر انداز ہو جاتا ہے۔
پاکستان کے لوگوں کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جو صدقات و خیرات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ بڑے بڑے لنگر خانے قائم کرتے ہیں، لیکن یہ سب کچھ کرنے کے باوجود غربت و افلاس اور بھکاریوں کی تعداد میں کمی کے بجائےروز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
کسی قوم کو غربت اور غلامی کا احساس نہ ہونا اور اس سے نکلنے کے لیے کوئی واضح نظریہ اور لائحہ عمل کا نہ ہونا خطرناک بات ہے۔ جب آپ ﷺ نے مدینہ ہجرت کی تو اس وقت کا یثرب (بیماریوں کا گڑھ) کے معاشی حالات انتہائی دگرگوں تھے۔ چوں کہ وہاں کے لوگوں کا بڑا ذریعہ معاش کھجوروں کی تجارت کے ساتھ ہی وابستہ تھا۔ ایسے میں مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کا بے سرو سامانی کی حالت میں مدینہ آجانا ایک بہت بڑے معاشی و سماجی بحران کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا تھا ۔اگرچہ اس وقت انصار مدینہ نے ہر طرح سے مالی امداد کی پیش کش کی، مگر آپ ﷺاور آپ کی تربیت یافتہ جماعت انصار پر کسی قسم کا بوجھ نہیں بنے، بلکہ حمیت و خود داری کا مظاہرہ کرتے ہوئےخود اپنے پاؤں پر نہ صرف کھڑے ہوئے، بلکہ آپ ﷺ کی قیادت میں وہاں کی معیشت کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوے اسے یثرب سے مدینہ یعنی متمدن شہر بنا دیا۔
لیکن آج المیہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران اور مقتدر حلقے آئے روز بین الاقوامی طاقتوں اور اداروں سے امدادی پیکجز اور قرض کے نام پر مسلسل بھیک مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں تو کبھی گزشتہ لیے گئے قرضوں کی معافی کے لیے دہائیاں دی جا رہی ہوتی ہیں۔سوچنے کی بات ہے کہ کیا ہماری مقتدرہ کے پاس اس معاشی بد حالی سے نکلنے کا کوئی قابل عزت راستہ نہیں ہے؟ کیا ہمارے نام نہاد معاشی ماہرین کو نہیں پتہ کہ ملکی برآمدات کو کیسے بڑھانا ہے اور غیر پیداواری و غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کر کے تجارتی مالیاتی خسارے کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے؟ ہمارے وہ افلاطون اور ارسطو جو اقتدار میں آنے سے پہلے بڑے بڑے دعوے اور بڑھکیں مار رہے ہوتے ہیں، حکومت ملنے کے ساتھ ہی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک بینک جیسے بدمعاش مالیاتی اداروں کے سامنے ان کی من مانی شرائط پر کیوں کمزور پڑ جاتے ہیں۔ کیوں یہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے عام عوام پر ٹیکسز کا بوجھ بڑھانے، اشیائے خوردو نوش کی قیمتیں بڑھا نے، ترقیاتی کاموں کے بجٹ میں کٹوتی کرنے پر تو ہدایات دیتے ہیں، لیکن اس بیوروکریسی، افسر شاہی اور حکومتی عہدیداروں کو ملنے والی مراعات ، الاؤنسز ، بڑی بڑی تنخواہوں اور دیگر پیکجز پر کوئی بات نہیں کرتے۔ دراصل یہ سب اس سرمایہ دارانہ نظام کی شاطرانہ اور مکار چالیں ہیں، جس نے ہمارے حکمران طبقوں اور اداروں کو افراد کے ذاتی مفاد کی خاطر اپنا مطیع بنایا ہوا ہے اور اپنی مرضی کے فیصلے کروائے جاتے ہیں۔ان عالمی ساہو کار طاقتوں کی ترجیحات میں کہیں دور دور تک بھی نہیں ہوتا کہ کوئی ملک خودمختار بنے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے۔ یہ پاکستان کی طرح کے غریب ممالک کی معیشت کو کسی بھی صورت مستحکم نہیں ہونے دیتے اور ان کا انحصار اپنےاوپر رکھتے ہوئے ان کو قرضوں اور بھیک کی مد میں امداد دیتے رہتے ہیں۔ تاکہ ان کی طے کردہ شرائط پر عمل درآمد ہو سکے، بلکہ اب تو ریاست کے سربراہ نے علی الاعلان اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ہم بھکاری ہیں اور بھکاریوں کے پاس اختیار نہیں ہوتا، بلکہ انہیں بھیک دینے والوں کے اشاروں پر چلنا ہوتا ہے۔
“BEGGARS CAN'T BE CHOOSERS"
تو جب ہمارے حکمرانوں اور مقتدر طبقوں کو دوسرے ممالک اور بین الاقوامی اداروں سے قرض اور بھیک مانگتے ہوئے شرم اور غیرت کا احساس تک نہیں ہوتا تو عام عوام سے اس کی کیا توقع کی جا سکتی ہے، جیسے کہ اہل دانش کا مشہور قول ہے کہ: 'عوام تو حکمرانوں کے دین پر ہوتے ہیں ' جیسے حکمران اس بےحس سرمایہ داری نظام کے چنگل سے نکلنے کے لیے تیار نہیں، بلکہ الٹا اس کے آلہ کار کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسی طرح عوام میں وہ لوگ جنہوں نے گدا گری کو بہ طور پیشہ اپنا لیا ہے، وہ بھیک مانگنے کے عمل کو محنت کے مقابلے پر آسان اور زیادہ منافع بخش کام سمجھتے ہوئے اس کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ دراصل یہ سب اس سرمایہ دارانہ نظام کی جکڑ بندیاں اور مکارانہ چالیں ہیں، جس نے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ عام آدمی کے اندر آزادی اور خودمختاری کی سوچ کے بجائے پست اور غلامانہ ذہنیت کو پروان چڑھایا اور یہ احساس ہی ختم کر دیا کہ غلام ہونا اور دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا، انسانیت کی کتنی بڑی تذلیل ہے۔ یہ اس موجودہ نظام کا ہی کمال ہے کہ ایک طرف تو آپ میٹرو اور اورنج ٹرین جیسی جدید اور مہنگی سروسز متعارف کروارہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف اسی ملک و قوم کے بچے ان کے اسٹیشنز پر بھیک مانگنے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور ملک کے حکمران ان سروسز کو بحال ر کھنےاور چلانےکے لیے بین الاقوامی حکومتوں اور اداروں کی دہلیز پر کاسہ گدائی لیے پھررہےہوتے ہیں، تو یہ ترقی ہے یا قومی پستی، فرق صرف اتنا ہے کہ عام بھکاری اپنے گھر چلانے کے لیے گلیوں سڑکوں اور چوراہوں پر بھیک مانگتا ہےاور یہ مقتدرہ ملک چلانےکے لیے انٹرنیشنل طاقتوں اور اداروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔
دینِ اسلام نے کسی صورت بھی گداگری کو پسند نہیں کیا، بلکہ کسب حلال پر زور دیا ہے۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات سے منہ موڑ کر ہر جگہ ذلیل و خوارہو رہے ہیں ۔دین اسلام تو نماز جیسے سب سے اہم فرض میں بھی دوڑ کر شامل ہونے کو منع کرتا ہے۔ تاکہ انسانیت کا وقار مجروح نہ ہو۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:’’جب نماز کھڑی ہو جائے تو دوڑتے ہوئے نہ آؤ، بلکہ سکون اور وقار کے ساتھ چلتے ہوئے آؤ اور نماز کاجو حصہ تم پالو اسے پڑھ لو اور جو چھوٹ جائے اسے پوری کرلو ‘‘۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے ایک حدیث مروی ہے کہ نبیﷺ نے گداگر کے لیے وعید سناتے ہوئے فرمایا کہ ’’جو آدمی لوگوں سے ہمیشہ سوال کرتا رہتا ہے، وہ قیامت کے دِن آئے گا اور اس کے منہ پر گوشت کی ایک بوٹی نہ ہو گی‘‘۔
اسلام دینِ فطرت ہے یہ کسی صورت میں بھی انسانیت کی تذلیل و تحقیر برداشت نہیں کرتا۔آج اگر ہم نے اپنے ملک سے گدا گری اور بھیک کا خاتمہ کرنا ہے تو سب سے پہلےاس کی وجوہات غربت ،افلاس بیروزگاری اور جہالت جیسی بیماریوں اور یہ بیماریاں جس نظام سے جنم لے رہی ہیں اس ظالم سامراجی سرمایہ دارانہ نظام کا اپنے معاشرے سے خاتمہ کرنا ہوگا ۔ اس غلط اور فرسودہ نظام کے ذریعے پیدا ہونے والی برائیوں کے مقابلہ اور خاتمے کے لیے منظم جدوجہد کرنی ہوگی ۔