برصغیر کے اقتصادی حالات انگریز کی آمد سے قبل اور بعد (انگریز مصنفین کی زبانی)
مسلمانوں کے اقتدار کے خاتمہ کے بعد جب اس خطہ پر انفرادیت و گروہیت پر مبنی فکر کی اساس پر ظالمانہ سیاسی و معاشی نظام مسلط کیا گیا تو اس معاشرے کی تباہی
برصغیر کے اقتصادی حالات انگریز کی آمد سے قبل اور بعد (انگریز مصنفین
کی زبانی)
تحریر : محمد اشفاق۔ راولپنڈی
انسانی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جو معاشرے انسانیت کی فکر کی اساس پر عادلانہ سیاسی و معاشی نظام کے حامل رہے ان میں انسانیت نے ترقی و عروج کا سفر طے کیا اور جن معاشروں میں انسانیت زوال و قعر مذلت کی جانب بڑھی تو نتیجتا وہ معاشرے انفرادیت و گروہیت پر مبنی فکر کی اساس پر ظالمانہ سیاسی و معاشی نظام کے حامل رہے۔
اگر بات کی جائے برعظیم پاک و ہند جیسے کثیر الاقوام، کثیر المذاہب ،کثیر
اللسان اور متنوع رسوم و رواج معاشرے کے عروج
وزوال کی تو اس میں یہ ہی اصول جاری و ساری نظر آتا ہے کہ مسلمانوں کے دور اقتدار میں
جو انسانی فکر کی اساس پر عادلانہ سیاسی و
معاشی نظام تھا اس وسیع خطے میں نشوونما پانے والی انسانیت کے لیے ترقی و عروج کی برکات
لیے ہوئے تھا۔اور معاشرے کے تمام شعبہ جات میں وحدت فکر وعمل پائی جاتی تھی۔ پھرجب
مسلمانوں کے اقتدار کے خاتمے کے بعد اس خطے پر انفرادیت و گروہیت پر مبنی ظالمانہ
سیاسی و معاشی نظام مسلط کیا گیاتواس معاشرے کی تباہی و بربادی کے واقعات دنیا کے کونے
کونے میں سنائی دیے. یہاں کی قوم قعر مذلت
کےگھڑے میں کیاگری کہ اب تک دھنسی جارہی ہے اس پر ابھی بہت کچھ لکھنا باقی ہے۔
اس وقت اس مختصر تحریر میں برصغیر کی اقتصادی حالت کا سرسری جائزہ انگریز
مصنفین کی تحریرات کے تناظر میں لینامقصود ہے.
*انگریزکی
آمد سے قبل برصغیر کی زراعت، تجارت اور صنعت کی صورتحال*.
انگریز کی آمد سے قبل ہندستان نہایت دولت مند اور خوش حال ملک تھا جس
کی تمام دنیا میں شہرت تھی۔ جس کی وجہ سے یورپی قوموں کی لالچی نگاہیں ہمیشہ اس کی
طرف اٹھتی رہتی تھیں۔
ڈاکٹرواکز ہندوستان کی دولت و ثروت اور اس کی شہرت کا تذکرہ اور اعتراف ان الفاظ میں کرتا ہے:
'ہندوستان کی دولت، تجارت اور خوش حالی نے سکندر
اعظم کے دل پر گہرا اثر کیا اور جب وہ ایران سے ہندستان کی طرف روانہ ہوا تو اس نے
اپنی فوج سے کہا کہ اب تم سنہرے ہندوستان کی طرف کوچ کر رہے ہو جہاں نہ ختم ہونے والے
خزانے ہیں۔
زرعی پیداوارمیں ہندستان کے صرف ایک صوبہ بنگال کی پیداوار کی حالت کاتذکرہ
لارڈمیکالے ان الفاظ میں کرتا ہے:
' مشرقی ممالک میں صوبہ بنگال باغ ارم سمجھا جاتا
تھا اس کی آبادی بےحد و غایت بڑھی ہوئی تھی۔غلہ کی افراط سے دور دراز کے صوبہ جات پرورش
پاتے تھے۔
ہندستان کی رعایا کی معاشی خوش حالی اور امن کا ذکر میجر باسو ان لفظوں
میں بیان کرتا ہے۔
'رعایا کی خوش حالی اور دولت مندی کے اعتبار سے
بھی مسلمانوں کا دور حکومت سونے کے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ دولت مندی اور آرام
و سکون کا جو نقشہ شاہجہاں کے وقت دیکھنے میں آتا تھا بلاشبہ بے مثل و بے نظیر تھا۔
ہندوستان کی زرعی ، تجارتی اورصنعتی ترقی کے حوالے سے تہارنٹن اپنے سفر
نامہ میں لکھتا ہے۔
یورپ کو تہذیب سکھانے والے یونان اور اٹلی جب بالکل جنگلی حالت میں تھے
، ہندستان اس زمانہ میں درجہ کمال کو پہنچا ہوا تھا اور دولت کا مرکز تھا یہاں چاروں
طرف بڑے بڑے صنعت و حرفت کے مراکز اور کاروبار جاری تھے یہاں کے باشندے دن رات اپنے
اپنے کاروبار میں مشغول رہتے تھے۔ یہاں کی زمین نہایت زرخیز تھی،جس سے خوب فصل پیدا
ہوتی تھی اور بڑے بڑے لائق اور کاریگر صناع موجود تھے جو یہاں کی خام پیداوار سے اتنا
نفیس اور عمدہ مال تیار کرتے تھے جس کی دنیا بھر میں مانگ تھی۔ مغرب اور مشرق کے تمام
ممالک ان اشیاء کو بڑے شوق سےخریدتے تھے یہاں سوت اور کپڑےاس قدر عمدہ اور باریک و
نفیس و خوبصورت بنتے تھے کہ دنیا میں کوئی ملک بھی ان کی برابری نہ کر سکتا تھا۔
مذکورہ بالا بیانات نا صرف ہندوستان کی زراعت،تجارت اور صنعت میں بےمثال
ترقی پر دلیل ہیں ، بلکہ پورے ہندوستان میں پائی جانے والی عمومی اقتصادی خوش حالی کی عکاسی کرتے ہیں. معاشرے میں موجود تمام طبقات
معاشی خوش حالی کے ثمرات سے بہرہ مند ہو رہے تھے۔معاشرے میں معاشی مساوات اور بنیادی
ضروریات نے رعایا میں اپنے پیٹ کی فکر سے ہٹ کر اگلے درجے میں ہر شعبہ زندگی میں نکھار
اور تجدیدی صلاحیت کو بروئےکار لانے کی استعداد پیدا کردی تھی جو کسی بھی معاشرےکے
عروج کی دلیل ہے۔
یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ معاشرہ میں موجود نظام اپنے افراد میں انسانیت
کی تینوں امتیازی خصوصیات بیدار کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوتا ہے۔یعنی ان میں خوب سے
خوب تر کی تلاش کی جستجو، معاشرے کی اجتماعی
فلاح و بہبود کے فکر وعمل کا حامل بنانا اور
نئی تخلیقات کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ ان سے فائدہ
لینے کا نظام بنانے کی صلاحیت و استعداد پیدا کرنا ،ہندوستانی معاشرہ ان انسانی
خصائل کا حامل اور ترقی میں اپنی مثال آپ تھا۔
برعظیم کی اقتصادی صورت حال انگریزکی آمدکےبعد
اب ہم ہندوستان پر انگریز سامراج کے مکمل غاصبانہ تسلط قائم کرنے کے بعد
کے دور کا جائزہ انگریز مصنفین کی زبانی لیں گے۔۔۔۔۔۔
کسی بھی معاشرے کا نظام قوم کی ترقی اور تنزلی میں بڑا بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ انگریز سامراج نے ہندوستان میں جو نظام قائم کیا اس کے بنیادی اصول اور طرز عمل کیا تھے اس کے کیا مہلک اثرات ونتائج تھے؟ اس بارے میں سر جان شور جو وائسرائے بھی رہ چکا ہے لکھتا ہے:
"برطانیہ نے جو طرز حکومت قائم کیا ہے اس کے
تحت ملک و باشندگان ملک رفتہ رفتہ محتاج ہوتے جارہے ہیں اور یہی سبب ہے کہ ان پر تباہی
آ گئی۔انگریزی حکومت کی پیسنے والی بے انتہا ستم گری نے ملک اور اہل ملک کو اتنا مفلس
کر دیا ہے کہ اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔
انگریز کابنیادی اصول یہ رہا ہے کہ ہر صورت میں تمام ہندوستانی قوم کو اپنے مفاد کاغلام بنالیا جائے۔کاشتکاروں کی حالت زار کے بارے میں سر چارلس ایلیٹ چیف کمشنر آسام لکھتا ہے
'میں بلا تامل کہہ سکتا ہوں کہ کاشتکاروں کی نصف
تعداد ایسی ہے جو سال بھر تک نہیں جانتی کہ ایک وقت پیٹ بھر کر کھانا کسے کہتے ہیں؟
جس معاشرے کے کاشتکار کی یہ حالت ہو تو عام عوام کا کون پرسان حال ہو
گا؟ اس کا اندازہ اس سے بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے۔
مسٹر اے برسل ممبر پارلیمنٹ ہندستان کے سفر سے واپسی پر ہندستان کے مزدور
پیشہ لوگوں کے بارے میں لکھتا ہے۔
'' یہ لوگ مکھیوں کی طرح مر رہے ہیں"
ایک امریکن مشنری کا مقولہ لالہ لاجپت رائے نقل کرتے ہیں
'جنوبی ہندوستان کے لوگ زندگی بسر نہیں کرتے بلکہ
زندگی کے دن پورے کرتے ہیں ۔ میں نے ایسےگھر دیکھے ہیں جہاں لوگ مردار گوشت کھا کھا
کر جیتے ہیں۔اور اس زمانہ میں کوئی عام قحط بھی نہیں ہے ۔
سر ولیم ڈگبی نے ہندوستان میں گیارہویں صدی سے انیسویں صدی تک آنے والے
قحطوں کے بارے میں اعدادوشمار بیان کیے ہیں ،جس کے مطابق گیارہویں صدی سے سترہویں صدی
تک یعنی سات سو سال میں(مسلم دور حکومت میں) صرف 17 قحط پڑےجو مقامی نوعیت کے تھے
۔جبکہ انگریز کے دور اقتدار میں صرف ایک صدی یعنی انیسویں صدی کے دوران اکتیس قحط پڑے ۔اور ان میں بھوک سے مرنے والوں
کے اعدادوشمار کے بارے میں سرولیم ڈگبی پراسپرس
برٹش انڈیا میں لکھتا ہے۔
" ساری دنیا میں جنگوں کی وجہ سے ایک سو سات
برس میں یعنی 1793 سے 1900 تک پچاس لاکھ کے قریب جانی نقصان ہوا ہے مگر ہندوستان میں
قحطوں سے صرف 1891 سے 1900 یعنی دس برس میں ایک کروڑ نوے لاکھ سے زیادہ جانیں ضائع
ہوئیں".
مسٹر جے کیرہارڈی اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ 1860سے 1910 تک یعنی پچاس سال کے عرصہ میں بھوک
اور فاقہ سے مرنے والوں کی تعداد ہندوستان میں تین کروڑ کی تھی۔
کسی معاشرے کی خوش حالی کا اندازہ
اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں کی رعایا کی عمومی حالت کیا ہے؟ جس معاشرے
میں لوگ زندگی کےدن موت کی تمنا میں گن گن کر گزاریں ، جہاں کا انسان ایک وقت کی روٹی
کے لیےترسے، جہاں ایک مختصر سی گروہیت اپنی ذاتی ہوس و اقتدار کی تکمیل کے لیے کروڑوں
انسانوں کو موت کی میٹھی نیند سلادے ۔ایسے معاشرے کا انسان ، انسانیت سے گر کر حیوانیت
کی جگہ اختیار کرلیتا ہے۔اس کے لیل ونہار کشمکش حیات کی گتھیاں سلجھانے میں صر ف ہوتے
ہیں۔یہاں تک کہ وہ انسانیت کے ادنی درجہ کے حصول کی فکر و عمل سے عاری زندگی بسر کرنے
پر مجبور ہو جاتا ہے۔
مذکورہ بالا بیانات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انگریز سامراج نے ہندوستان میں جو نظام حکومت قائم کیا اس نے یہاں کے امن و خوش حالی کو قصہ پارینہ بنا دیا اور انسانیت کو جنت کے ماحول سے نکال کر جہنم کی آگ میں جھونک دیا۔ابہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں کہ وہ ان دو ادوار میں سے کس دور کی نشانی یا تسلسل معلوم ہوتا ہے؟ توافسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج ملک جس مقام پر کھڑا ہے سات دہائیوں کا سفر طے کرنے کے بعد بھی اس میں بسنے والے انسانوں کی حالت بعینہ ویسی ہی ہے جیسی ہندوستان میں بسنے والے انسانوں کی انگریز سامراج کے دور اقتدار میں تھی۔
اس خطے کی آزادی کے بعد پاکستان کا قیام ' قلعہ اسلام' کےخوش نما نعرے
سے ہوا لیکن 74 سال گزرنے کے باوجود ملک بے
شمار مذھبی، سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل کاشکار
ہے۔یہاں آمریت پر مبنی حکومتوں میں سے ہرایک نے عوام کے رسیدہ زخموں پر
نمک پاشی کا کا م کیا ۔ غور کیا جائے تو حکومتی طبقہ کا فکر وعمل انگریز سامراج کے
دور اقتدار کے فکر وعمل کی یاد تازہ کرتا ہے۔ خوبصورت عنوان یعنی خود ساختہ اسلامی
نظام میں ملبوس اور چند کھوٹے سکوں کے روپ میں آلہ کار قیادت، جس نے اس مملکت کی ابتدائی
باگ ڈور سنبھالی اس کے پیچھے وہی انسانیت کش نظام اپنے پورے تسلسل اور اپنی تمام تر
تباہ کاریوں کے ساتھ موجود ہے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ حریت و آزادی کے علم بردار اسلاف اور علمائے حق کے لازوال کردار کی روشنی میں قومی و بین الاقوامی حالات کا مطالعہ و تجزیہ کیا جائے اور اس کا درست شعور اگلی نسل میں منتقل کیا جاۓ جو اس دورمیں ابراہیمی و محمدی اسوہ حسنہ کی مثال ہے۔