ڈالر کا امریکی زر سے عالمی زر تک کا سفر
ڈالر کا استحصالی کردار اور دیگر ممالک پر اس کے اثرات۔۔
ڈالر کا امریکی زر سے عالمی زر تک کا سفر
تحریر : عمران علی ۔دوبئی
یہ بات تو ھم سب لوگ جانتے ہیں کہ دنیا میں بین الاقوامی سطح پر زیادہ تر لین دین امریکن کرنسی ڈالر میں کیا جاتا ہے۔نہ صرف یہ بلکہ فارن ایکسچینج (Forex) مارکیٹ میں بھی ڈالر کی حکمرانی ہے۔ آج بھی ( 200 فی صد کی اساس پر) 90٪ بین الاقوامی لین دین ڈالر میں ہی کیا جاتا ہے۔ جبکہ یورو 31 فی صد، جاپانی ین 21 فی صد، برٹش پائونڈ 12 فی صد، آسٹریلین ڈالر 7 فی صد، چائنیز یوآن 4 فی صد، وغیرہ۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ڈالر کیوں اور کیسے اتنا اہمیت اختیار کر گیا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ امریکی ڈالر کی بین الاقوامی کرنسی میں تبدیل ہونے کی شروعات 1944ء میں ہوتی ہے۔۔کیونکہ یہ وہ دور تھا جب ایک طرف دوسری جنگ عظیم اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی اور تعمیر نو کی ضرورت تھی اور دوسرا یہ کہ عالمی کساد بازاری (Great Depression: 1929-1939) یعنی 30 کی دہائی والے شدید مالیاتی بحران کے نتیجے میں عالمی سطح پر نظام زر کا توازن بھی بگڑ چکا تھا۔ اس کی وجہ سے پوری دنیا متاثر ہورہی تھی. ان مسائل کے حل کے لیے امریکی ریاست نیو ہیمپشائر کے سیاحتی علاقے بریٹن ووڈز (Bretton Woods) میں جولائی 1944ء کو ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہےجس میں 45 اتحادی ملکوں کے 730 مندوبین نے شرکت کی۔اس کانفرنس کو دنیا Britton wood conference کے نام سے جانتی ہے۔اس ہی کانفرنس میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے بنانے کے لیے بھی فیصلے کیے گئے۔ اس میں ایک فیصلہ بھی تھا جو امریکہ کو سب سے زیادہ طاقتور بنانے والا تھا۔چونکہ جنگ عظیم دوئم کے بعد امریکہ ہی ایک ایسا ملک تھا جس کو سب سے کم نقصان ہوا تھا۔اور امریکہ کی معیشت صحیح حالت میں تھی، ڈالر ہی ایک ایسا ذر بچا تھا جو قابل اعتماد اور قابل بھروسہ تھا،تو برطانیہ کے آشیر باد سے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے ٹرانزیکشن کے لئے ڈالر کو لازمی قرار دے دیا گیا۔اور ڈالر بین الاقوامی زرمبادلہ کے ذخائر کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔اس کے بدلے میں امریکہ سے یہ وعدہ لیا گیا کہ وہ ڈالر کی پرنٹنگ کو نہ صرف محدود رکھے گا بلکہ پوری دنیا 35 ڈالر پر ایک اونس (Ounce=2.26 tola) کی فکس قیمت پر ڈالر کو گولڈ کے ساتھ تبدیل کر سکیں گے۔ اس وقت دنیا کا آدھے سے زیادہ سونا امریکا کے پاس تھا۔ اس کے بعد پوری دنیا میں ڈالر کو بین الاقوامی تجارت کےلئے استعمال کیا جانے لگا۔اور اس سسٹم کو Britton wood system کے نام سے جانا جاتا ہے۔
بریٹن ووڈز کانفرنس میں 'برابر قیمت کا نظام' یعنی Par Value System or Face Value System قائم کرنے کی منظوری دی گئی۔ اسی کو 'بریٹن ووڈز سسٹم' کہا جاتا ہے۔ اس میں طے پایا کہ صرف امریکا اپنی کرنسی کو سونے سے وابستہ کرے گا اور باقی تمام ممالک اپنی کرنسیوں کو ڈالر سے وابستہ کریں گے اور ان کا اپنے پاس ڈالر رکھنا ایسا ہے جیسے انھوں نے سونا رکھا ہوا ہے۔ کیونکہ معاہدے کے تحت جب چاہیں گے ڈالر کے بدلے امریکا سے سونا لے سکیں گے یعنی Redeem کر سکیں گے۔
لیکن پھر 1955 سے 1975 تک ویتنام جنگ کے بعد پوری دنیا کو یہ احساس ہوا کہ امریکہ اپنے حساب سے ڈالر چھاپ رہا ہے۔جب کچھ ممالک نے اس کی پڑتال کرنا چاہی تو امریکہ نے اپنے ملکی ذر مبادلہ کے ذخائر کا آڈٹ کرنے سے دنیا کو منع کر دیا۔اور اسی کے ساتھ امریکی ڈالر ڈی ویلیو ہونا شروع ہوا۔اس وقت جب فرانس نے امریکہ ڈالر کے بدلے اپنا سونا واپس مانگا تو امریکہ کے صدر رچلڈ نیکس نے بڑی بے شرمی سے میڈیا کے سامنے سونا دینے سے صاف انکار کر دیا۔اور 15 اگست 1971 کو Britton wood system کو یک طرفہ فیصلہ کر کے منسوخ کر دیا۔اس سے پوری دنیا میں امریکہ کی کرنسی کی قدر کم ہو گئی۔ جب کہ پوری دنیا کے پاس امریکی ڈالر کثیر تعداد میں ذر مبادلہ کی شکل میں موجود تھا۔ اب بھی دنیا کی کل ریزرو کرنسی کا 62 فی صد ڈالر کی صورت میں جبکہ یورو میں 21 فی صد ہے۔ اس حالت میں اکثر ممالک نے مجبوراً یہ فیصلہ کیا کہ ڈالر کو عالمی کرنسی کے طور پر مانا جائے۔ یہ ماننا کوئی قانونی نہیں بلکہ عملی نوعیت یا Defacto Status ہے-اسی طرح بریٹن ووڈز سسٹم کی جگہ فیاٹ زری نظام (Fiat Monetary System) نے لے لی۔ یعنی کرنسی سونے سے آزاد ہو گئی اور محض حکومتوں کے آرڈر سے جاری کی جانے لگیں۔
جیساکہ آپ نے مشاہدہ کیا کہ ڈالر کو عالمی زر کی حیثیت فوکٹ میں مل گی تھی اب دنیا میں ایک ہی ملک ایسا تھا جس کے پاس فوکٹ کا مال پڑا ہوا تھا اور وہ تھا سعودی عرب۔ امریکہ کے صدر رچرڈ نیکسن اپنا ماسڑ اسڑوک کھیلنے کے لیے سعودی عرب پہنچ گئے۔اور سعودی عرب کے ولی عہد شاہ فیصل کو اس بات پر منا لیا کہ وہ پوری دنیا میں اپنا تیل امریکی ڈالر کی بدلے میں بیچے۔اس کے بدلے میں امریکہ سعودی عرب کی آئل ریفائنریز کو پروٹیکشن دے گا۔ یہ وہ دور ہے جب نئی فوجی حکمت عملی کے تحت 1971 میں پرشین گلف سے برطانیہ نکل گیا تھا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ یہ آفر تمام اوپیک اقوام کو بھی دیا گیا۔یہ وہ وقت تھا جب عرب دنیا اسرائیل six days war میں بری طرح سے شکست کھا چکی تھی۔اب امریکہ، جو عرب اقوام کو پروٹیکشن دینے کی بات کر رہا ہے اسکا سیدھا سادہ مطلب یہ بنتا ہے کہ یا تو اپنا آئل ڈالر کے بدلے فروحت کرو یا پھر ایک اور جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔اسی لیے یہ بے چارے جو کل تک اپنا آئل اصل سونے کے بدلے فروخت کررہے تھے اب کاغذ کے ان ٹکڑوں کے بدلے فروحت کرنے پر مجبور ہو گئے۔اس دور میں دنیا میں Petro dollar کا اجراء ہوا۔جس نے نہ صرف امریکہ کو طاقتور بنایا بلکہ پوری عرب دنیا اس کے ہاتھ کے نیچے آ گئی۔
اس ایک فیصلے کی وجہ سے امریکہ کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا۔کیونکہ وہ امریکن ڈالر جو دوسرے ممالک کے پاس پڑا ہوا تھا اور اپنی قدر کھو چکا تھا پھر اب valuable ہو گیا۔دیگر ممالک کا وہ سونا جو امریکہ کے پاس ڈالر کے بدلے میں رکھا ہوا تھا امریکہ اس کو ڈکار گیا۔ اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عرب دنیا کو اپنی غلطی کا احساس ہونے لگا۔اور امریکہ کا دوغلہ پن اس وقت سامنے آیا جب 1973ء میں اسرائیل اور عرب اقوام کی لڑائی میں امریکہ نے اسرائیل کا ساتھ دیا۔ لیکن آج بھی عرب اقوام اپنا تیل ڈالرز کے بدلے بیچ رہی ہیں۔کیونکہ جب بھی ان میں سے کوئی اس معاہدے کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے۔اس کو صدام حسین اور کرنل قذافی کی طرح نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔ امریکا سعودی عرب سے 10 سالوں کے دوران تیل کی درآمد کم کرتا جا رہا ہے۔ لیکن اس وقت بھی اپنی کل درآمد کا 11 فی صد، تقریباً 9 لاکھ بیرل یومیہ سعودی عرب سے کرتا ہے اور 1973ء میں بھی 11 فی صد سعودی تیل درآمد کرتا تھا۔
اصل میں امریکہ یہ چاہتا ہے کہ تمام اوپیک اقوام چپ چاپ اپنا تیل ڈالر کے بدلے فروخت کرتی رہیں۔اور ڈالر تمام دنیا کی تجارت کی مجبوری بنا رہے۔ یہی وہ حالات تھے اور ہیں جس نے ڈالر کو بین الاقوامی زر کی شکل میں آج بھی قائم رکھا ہوا ہے۔