بڑھتے ہوئے حکومتی اخراجات اور ظالمانہ ٹیکس - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • بڑھتے ہوئے حکومتی اخراجات اور ظالمانہ ٹیکس

    ملکوں کی تباہی اور بربادی کے دو بنیادی اسباب ہیں: 1 قومی خزانے پر انتظامی اخراجات کا بوجھ, 2 ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے عوام پر ظالمانہ ٹیکس

    By مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری Published on Jul 31, 2019 Views 4713
    بڑھتے ہوئے حکومتی اخراجات اور ظالمانہ ٹیکس 
    تحریر: مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری، لاہور 

    ”اس زمانے میں ملکوں کی تباہی اور بربادی کے دو بنیادی اسباب ہیں: ایک یہ کہ قومی خزانے پر مقتدر طبقوں اور انتظامی اخراجات کا بوجھ حد سے زیادہ بڑھ جائے۔ دوسرے یہ کہ ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے عوام پر ظالمانہ ٹیکس لگائے جائیں۔“ یہ بات عظیم انقلابی مفکر حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے 1747ءمیں اپنی شاہکار کتاب ”حُجَّةُ اللّٰہِ البَالِغَہ“ میں لکھی تھی۔ شاہ صاحبؒ کا حکومت و معیشت کے بارے میں یہ تجزیہ اس خطے کی تاریخی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔ اس تجزےے کے بعد کے دو سو سالہ دور (1747ءتا 1947ء) کی معاشی پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے تو برعظیم پاک و ہند کی تباہی اور بربادی انھی دو بنیادی اسباب کی وَجہ سے ہوئی۔ 

    معاشی غارت گر یورپین بھیڑیوں نے یہاں کی دیوانی پر قبضہ کرتے ہی اس خطے کے غدار مقتدر طبقوں اور اپنے انتظامی افسروں کے اخراجات کے لیے ملکی اور قومی خزانے پر بوجھ ڈالنا شروع کیا۔ اور ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے اس خطے کے عوام پر ظالمانہ ٹیکسوں کا نفاذ کیا۔ ٹیکس ادا نہ کرنے والوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ ان کی جائیدادیں ضبط کی گئیں۔ انھیں کڑی سزائیں دی گئیں۔ اٹھارہویں صدی کے آخر میں ہندوستان میں پڑنے والے قحط سے لے کر بیسویں صدی کے وسط میں بنگال میں مصنوعی طور پر پیدا کئے گئے قحط سے لاکھوں انسانوں کی اموات ہوئیں۔ 

    انگریز سامراج کے دور میں بننے والی معاشی پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ہر گزرتے زمانے کے ساتھ یہاں کی انتظامیہ کا حجم بڑھتا چلا گیا۔ انتظامیہ کے اخراجات کے نام پر یہاں کے ملکی خزانے پر ڈاکہ ڈالا گیا۔ انگریز سامراج یہاں آیا تو اس نے اس خطے کے مالیاتی وسائل پر للچائی ہوئی نظروں سے اسے ”سونے کی چڑیا“ قرار دیا اور اس کے بال و پر نوچنے اور اس سے سونے کے انڈے حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا۔ ترقیاتی اخراجات کے نام پر لوٹ مار کا وہ بازار گرم کیا گیا، جس کی بدترین مثال ریلوے ٹریک بچھانے اور نہری نظام قائم کرنے کے لیے ہونے والے اخراجات کی ہے۔ یورپ میں ریلوے ٹریک بچھانے کے لیے ایک کلومیٹر پر جو اخراجات ہوئے، یہاں کے انگریز انتظامی افسروں نے اپنے رشتہ داروں کے نام پر تیرہ کمپنیاں بنا کر ہندوستان میں ریلوے ٹریک کے اخراجات گیارہ گنا زیادہ وصول کۓ-

    اس طرح ہندوستان میں انگریز سامراج کے دو سو سالہ دور کے معاشی اقدامات کے نتیجے میں اس ملک کی تباہی اور بربادی کے بنیادی طور پر یہی دو اسباب رہے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ اس خطے کو برطانوی سامراج نے بہ ظاہر آزادی دی تو دونوں ملکوں کے قومی خزانے کروڑوں پونڈز کے مقروض تھے۔ اس طرح قرضوں کی معیشت کے ذریعے سے ملکوں اور قوموں کو جدید نوآبادیاتی غلامی کے عالمی سرمایہ داری نظام کی زنجیروں میں جکڑا گیا۔ 

    اس خطے کے حریت پسندوں نے آزادی کی جدوجہد اس لیے کی تھی کہ ایک آزاد قوم کی حیثیت سے غلامی کے دور کی حکومتی اور معاشی پالیسیوں کا یہ ظالمانہ تسلسل ختم ہوگا اور قومی خود مختاری، آزادی اور حریت کی بنیاد پر اپنی معاشی پالیسیاں بنانے اور ملک و قوم کو ترقی دینے کے لیے ملکی تباہی کے ان بنیادی اسباب سے نجات حاصل ہوگی۔ حریت پسندوں کے سرخیل امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے ملکوں اور قوموں کی ترقی اور کامیابی کے بنیادی اسباب بیان کرتے ہوئے یہ بھی لکھا تھا کہ: ”یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ کسی ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ وہاں ٹیکسوں کا نفاذ کم سے کم ہو اور ان کی وصولی میں سہولت پیدا کی جائے۔ دوسرا یہ کہ ملکی نظم و نسق اور حفاظت کے لیے مقرر کردہ انتظامیہ صرف ضرورت کے مطابق ہونی چاہیے (تاکہ انتظامی اخراجات کا بوجھ کم سے کم ہو) ۔ اس زمانے کے لوگوں پر لازم ہے کہ وہ اس نکتے کو اچھی طرح سمجھ لیں۔“ 

    موجودہ حکومت نے 11 جون 2019ءکو اگلے سال کا مالیاتی بجٹ پیش کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ یہ تو معلوم نہیں کہ کیسا ہوگا، لیکن پاکستان کے اب تک کے بننے والے تمام بجٹس بڑھتے ہوئے حکومتی اخراجات کے بوجھ اور عوام پر ظالمانہ ٹیکسوں کے نفاذ کے حوالے سے برطانوی سامراج کی غلامی کے دور کی تاریخ کو دہراتے رہے ہیں۔ 1947ءکے بعد اُمید تھی کہ قومی جمہوری سوچ کے ساتھ اس خطے کے عوام کے مفاد کے لیے حکومتی اور انتظامی اخراجات ضرورت کی حد تک رکھے جائیں گے اور ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے سہولت پر مبنی ٹیکسوں کا نظام قائم ہوگا، لیکن پچھلے بہتّر سالوں کی معاشی پالیسیوں کی تاریخ اس کے بالکل برعکس ہے۔ 

    1949ءسے آج تک بننے والے تمام بجٹوں میں غلامی کے زمانے کی معاشی پالیسیوں کا تسلسل قائم رہا ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا‘ جب انگریز دور کے وزارتِ خزانہ کے افسر غلام محمد سے لے کر موجودہ خزانہ افسران تک بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ملازمین ملک کی وزارتِ خزانہ چلائیں گے تو یہی کچھ ہوگا۔ اگر زمانہ غلامی میں انگریز حکومتی افسران یہاں کی دولت لوٹ کر یورپ لے جایا کرتے تھے تو اب اس زمانے میں پاکستان کے متقدر طبقے ملکی قومی خزانہ چوری کرکے سامراجی ملکوں میں منتقل کرتے رہتے ہیں۔ اس کے لیے ہر آنے والے نئے بجٹ میں مقتدر طبقوں اور انتظامیہ کے اخراجات کے مطالباتِ زر کی ایک لمبی فہرست بنائی جاتی ہے۔ اخراجاتِ جاریہ کا حجم بڑھتا ہی جا رہا ہے اور ترقیاتی اخراجات کے نام پر بھی جو رقومات رکھی جاتی ہیں، ان میں بھی وزیروں اور انتظامی افسروں کا کمیشن پیشِ نظر ہوتا ہے۔ اس طرح قومی خزانے پر ہر گزرتے دن کے ساتھ بوجھ بڑھ رہا ہے۔ یہاں کے مقتدر طبقات سیاست، مذہب، علم و دانش، صحافت و ادب اور سیکیورٹی خدمات کے نام پر قومی خزانے پر بوجھ بنتے جا رہے ہیں اور پھر ان کے درمیان ملکی خزانے سے مال جھپٹنے کے لیے آپس کی جنگ و جدل بھی ہے۔ شاہ صاحبؒ نے کہا تھا کہ: ”مال لوٹنے والے یہ تمام طبقے قومی خزانے سے مال جھپٹنے کے لیے ایک دوسرے پر دست درازی کرتے ہیں اور لوگوں کی معاشی زندگی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔“ آج کچھ ایسی ہی صورتِ حال ہمارے ملک کو درپیش ہے۔ ایسے میں باشعور لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک اور قوم کی ترقی اور معاشی خرابی کے ان اسباب کا جائزہ لے کر قومی جمہوری بنیادوں پر ملکی ترقی کے لیے سوچیں اور درست سمت میں اقدامات کے لیے شعوری جدوجہد اور کوشش کریں۔

    Share via Whatsapp