معاشی نظاموں پر ایک طائرانہ نظر - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • معاشی نظاموں پر ایک طائرانہ نظر

    اسلامی معاشی نظام حکومت آج کے دور کے مسائل کو حل کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے. باقی دوسرے نظاموں کے نتائج بھی آپ کے سامنے ہی ہیں اور اس کے بھی.

    By Tahir shaukat Published on Feb 03, 2020 Views 3974

    معاشی نظاموں پر ایک طائرانہ نظر

    تحریر: طاہر شوکت، لاہور

     

    زیادہ غریبی انسان کو کفر تک لے جاتی ہے

    یہ جملہ ایک حدیث کا مفہوم ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کثرت دولت اور قلت دولت میں کس طرح توازن قائم کیا جائے۔اس کےلیے ہمیں کیا پالیسی اختیار کر نی چاہیے۔

    اس کے مختلف طریقہ کار ہو سکتے ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ اس کو دور کے تقاضوں کے مطابق دیکھا جائے اور اس کا حل ڈھونڈا جائے۔ دوسرا یہ ہے کہ اسے تاریخ  میں دیکھا جائے۔ تاریخ سے بھی ہمیں کئی مسائل کا حل مل جاتا ہے۔ 

    اگر ہم دولت کے نظام کو دیکھیں کہ وہ کس طرح کنٹرول میں رہی ہے۔ شروع میں بنی نوع انسان کے پاس دو وقت کی روٹی کےلیے کوئی نظام نہ تھا۔ وہ جنگلوں بیابانوں میں رہتا تھا اور پھل وغیرہ کھاتا تھا۔ پھر اس نے تبادلہ اشیا کا نظام بنایا؛ جس میں ایک شخص ایک چیز بناتا اور دوسرے کو دے کر اس سے اپنے استعمال کی چیز لے لیتا تھا۔ پھر اس نے نقدی کا نظام بنایا ؛جس میں انسان اپنے استعمال کی چیز نقدی کے بدلے میں لیتا تھا۔اس میں بھی وہ پہلے دھات کا استعمال کرتا تھا جیسا کہ سونا چاندی کے سکے وغیرہ. اس طرح پھر کاغذ کی کرنسی کا اظہار ہوا اور اب سمارٹ کارڈ اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ یہ تو ہم نے دیکھا کہ کس طرح انسان اپنی ضروریات دوسرے انسانوں کے تعاون سے پوری کرتا رہا ۔پھر مسئلہ اکتناز وارتکاز دولت کا سامنےآگیا۔اسے کیسے روکا جائے. اس کےلیے کیا پالیسی اختیار کی جائے ۔ 

    اس کو حل کرنے کےلیے ضروری ہے کہ ہم پہلے دنیا میں رائج معاشی نظاموں کے نتائج کا موازنہ کریں اور پھران میں سے بہتر نظام کواختیار کریں۔ آج کے دور کی معیشت دو طرح کے معاشی نظاموں پر قائم ہے۔

    1۔ سرمایہ دارانہ نظام (کیپیٹل ازم)

    2۔ اشتراکی نظام (سوشلزم )

        سرمایہ دارانہ نظام ۔

    اس نظام سے پہلے یورپ میں جاگیردارانہ نظام قائم تھا۔ جس میں ایک شخص کے پاس طاقت ہوتی تھی اس کے بل بوتے پر وہ دوسروں کی زمینوں اور املاک پر قبضہ کر لیتا تھا۔گویا جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول کارفرما تھا۔ پھرجب دنیا میں صنعتی ترقی شروع ہوئی تو سرمایہ داروں نے مل کر ایسا نظام حکومت  تشکیل دیا جس میں سرمایہ دار کو مکمل تحفظ اور محض اس کے سرمائے کی بڑھوتری کا اہتمام ہونے لگا ۔اس نظام کا بانی ایڈم سمتھ تھا جس نے اس نظام کے بنیادی اصول وضع کئے۔اس نظام کا مرکزی محور سرمائےکو قراردیا گیا۔یہ نظام آج بھی آدھی سے زائد  دنیا پرمسلط ہے۔ حتی کہ اسلامی ممالک جو خود کو اسلامی نظام حکومت کے دعوےدار گردانتے ہیں ان کے ہاں جو نظام معیشت رائج ہے وہ خالص سرمایہ دارانہ ہے۔ اس نظام  کا سب سے بڑا اور نمائندہ ملک امریکہ ہے۔

    اشرااکی نظام 

    سرمایہ دارانہ نظام معیشت چونکہ سرمایہ داروں نے مل کر بنایا تھا جس میں ہر ایک کے  سرمائے کو مکمل تحفظ اوراس کی بڑھوتری کا اہتمام تو موجود تھا لیکن معاشرے کےدیگر طبقوں کو کسی قسم کا کوئی تحفظ حاصل نہ تھا۔جس سے مختلف طبقات میں تناؤ پیدا ہو نے سے معاشرہ بے اطمینانی کا شکار ہوگیا۔سرمایہ دارانہ نظام کے ردعمل میں ایک نیا معاشی نظام  وجود میں آیا ۔ جس میں  محنت کشوں کے حقوق پہ خاص دھیان دیا گیا۔جو محنت کشوں کے اجتماعی حقوق کے قیام کا علمبردار تھا۔اس نظام  کا بانی کارل مارکس کو مانا جاتا ہے۔مگراس  کی تشکیل بھی کائنات کے فطری اصولوں کے خلاف تھی۔ اس میں سب سے بڑا اور بنیادی اصول یہ تھا کہ معاشرے کے تمام انسانوں کی اجرت برابر ہو گی۔ سب لوگ مل کرکام کریں گے اور سب کو مساوی معاوضہ  دیاجائے گا چاہے وہ چھوٹا مزدور ہو یا پھر کسی فیکٹری کا مینیجر ہو. اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ اس  سے محنت کش اور سرمایہ کار کی حوصلہ افزائی کا عمل رک گیا۔ جس سے معاشرے میں ترقی کی رفتار سست روی کا شکار ہو گئی ۔ 

    سوشلزم کی جدید شکل آج  کمیونزم ہے جس میں ایک محنت کش اور ایک مالک کے معاوضے میں فرق رکھا گیا ہے مگر اس نظام میں انسان کے روحانی  تقاضوں کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔جس سے ایک انسان معاشی طور پر ترقی تو کر گیا لیکن ساتھ ہی اخلاقیات سےعاری ہو گیا۔آج یہ معاشی نظام جن ممالک میں رائج ہے روس اور چین ان میں سرفہرست ہیں۔ 

    تاریخ  بتاتی ہے کہ دنیا میں ایک نظام حکومت ایسا بھی  قائم ہوا تھا جس نے انسانوں کو معاشی طور پر مستحکم اور اخلاقی طور پر مضبوط بنا دیا تھا. وہ نظام دنیا پر ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ رائج رہا۔ وہ دور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی تیارکردہ جماعت کا دور تھا.اب ہم اس  پر غور کرتے ہیں کہ اس نظام کی کیا خصوصیات تھیں اور اس کو نافذالعمل کرنے کی کیا حکمت عملی اختیار کی گئی تھی۔

    اسلام کاعادلانہ معاشی نظام

     تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہو تا ہے کہ اس دنیا میں ایک ایسا وقت بھی آیا تھا جب عمومی خوشحالی تھی۔ ہر سمت ہریالی تھی۔ صرف انسان ہی نہیں جانوروں کے حقوق بھی محفو ظ تھے۔  یہ عہد زیادہ پرانا نہیں تھا۔ یہی کوئی چند صدیاں پیچھے چلے جائیں تو پورا مشرق وسطی اور افریقہ خوشحال تھے۔ ۔تمام انسانو ں کےلیے معاشی خودکفالت کا نظام قائم تھا۔ اس نظام کے مطالعہ سے درج ذیل خصوصیات سامنےاتی ہیں۔

    1.    معاشی خودکفالت کےلیے بیت المال کا قیام

    2.    ارتکاز دولت کے تدارک کے لئے قوانین کی تشکیل

    3.     تعاون باہمی پر مبنی تجارتی اصول

    4.     سود اور سرمایہ پرستی کا خاتمہ

    5.     معاوضوں کے تعین کا عادلانہ نظام ۔ 

    مروجہ نظاموں کے مقابلے میں آج بھی ہم دنیا کے مسائل کو بہترین حکمت عملی کے زریعے حل کر سکتے ہیں ۔ اللہ  تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں  شعور کے ساتھ صحیح نظریہ اپنانے کی توفیق عطا کرے اور آج کے حالات میں ایک بہترین معاشی نظام کے قیام کی توفیق دے

     

    Share via Whatsapp