معاشی تنگدستی کے انسانی رویوں اور اخلاق پر اثرات
اس تحریر کا مقصد لوگوں کو معاشیات اور اخلاقیات کے باہمی ربط سے آگاہ کرنا ہے
" معاشی تنگدستی کے انسانی رویوں پر اثرات "
تحریر : حافظ طلحہ اختر ،ایگریکلچر یونیورسٹی ، فیصل آباد
حکیم الامت حضرت امام شاہ ولی اللّٰہ دہلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں :
" انسانیت کے اخلاق اس وقت برباد ہو جاتے ہیں جب انہیں اقتصادی جبر ( معاشی تنگی ) میں مبتلا کر دیا جائے "
شاہ صاحب کی اس رہنمائی کی روشنی میں اگر ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام نے اپنے غلبے کے دور میں انسانیت کو ان کے معاشی حقوق بھی مہیا کیے اور ان کی اخلاقی تربیت بھی کی ۔
اخلاق و معاشیات کا باہمی ربط
یہاں ایک بات سمجھنا ضروری ہے کہ اخلاقیات اور معاشیات کا آپس میں گہرا تعلق ہے ۔ ان میں سے کوئی ایک بھی نظر انداز ہو جائے تو معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا ۔مثال کے طور پر آپ ایک ایسے انسان کی حالت تصور کیجیے جسے دو وقت کی روٹی تک میسر نہیں اس کے بچے روز بھوکے سوتے ہوں وہ دن رات صرف اسی خیال میں گزارتا ہو کہ کھانا کیسے مہیا ہو ؟ کہاں سے آئے ؟ آپ اس حالت میں اسے دعوت دیں کہ وہ اپنے اخلاق درست کر ے ، روحانیت میں ترقی کرے تو یہ بات اس کی اور لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہو گی ۔ اسی لیے کہ جتنی بھی حکومتیں عدل کے نظام پر تشکیل پاتی ہیں وہ سب پہلے اپنے لوگوں کی معاشی ضروریات پورا کرنے کے لیے ایک نظام وضع کرتی ہیں جس کے ذریعے سے وہ اپنے لوگوں کی معاشی ضروریات پوری کرتی ہیں ، پھر اگلے درجے میں لوگ خود اپنی اخلاقی اور روحانی ترقی کی طرف مرکوز ہوتے ہیں ۔
معاش کی فراہمی صالح نظام کے ذریعے
یہاں یہ بات سمجھنا بھی ضروری ہے کہ معاش کی فراہمی ایک نظام کے ذریعے سے یقینی بنائی جا سکتی ہے اس کے بغیر نہیں ۔ اگر بغیر نظام کے لوگوں میں کوئی بھی چیز تقسیم کی جائے تو اس کا نتیجہ سوسائٹی میں احساس کمتری اور محرومی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔ دین اسلام کے حکم زکوٰۃ کی ادائیگی بھی ایک نظام سے وابستہ ہے ۔
پاکستانی نظام معیشت
اب اگر ہم پاکستانی نظام معیشت کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہمارے ملک میں ، اسلام کا کوئی بھی قانون اپنی اصل روح میں نافذ العمل نہیں۔ہمارا معاشی نظام ایڈم سمتھ کا دیا ہوا ہے جس کے بنیادی اصولوں میں سے یہ ہے کہ سرمایہ ہی سب کچھ ہے ، اسے زیادہ سے زیادہ اکٹھا کیا جائے اور اس کو اکٹھا کرنے کے لیے جو بھی درندگی اور ظلم کا راستہ اختیار کرنا پڑے تو اس پہ کوئی پابندی نہیں ۔ اب ایک نظام جس کی بنیاد ہی سرمائے کی پرستش اور بلا ضرورت اکھٹا کرنے پر ہو تو وہ کیسے انسانیت کی اجتماعی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے ۔ آج ہم میں سے زیادہ تر لوگ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ اسلام کا اپنا بھی کوئی معاشی نظام ہے ! حالانکہ اس نے 1000 سال تک انسانیت کی ضروریات کو پورا کیا ہے ۔ یہی وہ دور تھا جس میں انسانی اخلاق اعلیٰ معیار پر تھے ۔
غلط فہمی کا شکار عوام
آج ہماری سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ ہم اسی سرمایہ دارانہ نظام سے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ ہمیں معاشی حقوق دے اور ضروریات پوری کرے جبکہ ہم ظلم کے اس نظام کو بدلنے کے لیے تیار نہیں ، اس کے خلاف کوئی مزاحمتی شعور بیدار نہیں کر پا رہے یہی وجہ ہے کہ آج معاشرے میں اخلاقی اور روحانی ترقی پر وعظ و نصیحت کیے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ جو تم پر غربت ہے یہ تو اللّٰہ کی طرف سے تمہاری قسمت ہے جب کہ اللّٰہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں :
اور زمین پر کوئی چلنے والا نہیں مگر اس کی روزی اللہ پر ہے ۔
( سورۃ ھود ؛ 123)جب اللّٰہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کا رزق پیدا کر دیا ہے تو پھر مسئلہ اس کی تقسیم میں ہوا نہ کہ پیداوار میں ۔
یکم مئی کو پھر مایوسی
ابھی یکم مئی گزرا ہے جو مزدوروں کا عالمی دن ہے ۔ اس دن میں بجائے اس کے کہ آپ مزدور عوام کے لیے پالیسی بناتے ، کوئی قانون وضع کرتے جو مزدوروں کو معاش کی فراہمی میں مددگار ثابت ہوتا ، لیکن ہوا یہ کہ روایتی طور پر ایک دو اجلاس بلائے گئے اور اس میں بھی وہی روایتی باتیں لیکن اصل بات تو یہ تھی کہ ایسا نظام بنانے کی بات کی جاتی جس میں وسائل کی مساوی تقسیم یقینی ہو سکے ۔ پھر بڑا ظلم یہ کہ لوگوں کو منبر کے ذریعے سے تسلی دینا کہ جو تکالیف تم برداشت کر رہے ہو اس کا اجر تمہیں آخرت میں ملے گا ۔
یہ عجیب بات ہے کہ ایک مرحلے کے درست کیے بغیر اگلے مرحلے کے درست ہونے کی امید کرنا ! آج ہمارے معاشرے میں لوگوں کی اخلاقیات پر بڑے مباحثے کیے جاتے ہیں مگر کبھی ہم نے سوچا کہ اس کی وجہ کیا ہے !
آج کی ضرورت
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایک عادلانہ معاشی نظام قائم کر کے انسانیت کے بنیادی حقوق اور ضروریات پورا کرنے کے لیے فکر مند ہوں ، پھر اگلے مرحلے میں عام انسانیت اپنی روحانی اور اخلاقی ترقی کی طرف متوجہ ہو گی ۔