قومی اثاثوں کی حفاظت؛ قومی تقاضا - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • قومی اثاثوں کی حفاظت؛ قومی تقاضا

    پاکستان برائے فروخت؛ ۔۔سیل سیل سیل : میگا آف ۔۔۔!

    By Sufian Khan Published on Dec 09, 2024 Views 268

    قومی اثاثوں کی حفاظت؛ قومی تقاضا

    تحریر: سفیان خان۔بنوں 

     

    ریلوے لے لو۔۔۔! پی آئی اے لے لو۔۔۔! آجا بھئی، اسٹیل مل بھی لے لو۔۔۔۔۔!“

    یہ کسی خوانچہ فروش کی بازگشت ہر گز نہیں اور نہ ہی کسی اتوار بازار میں کھڑے ریڑھی بان کی آواز ہے۔ یہ ایک ایسے نیلام گھر کی صدائیں ہیں، جہاں نیلام ہونے والا سامان کوئی معمولی اشیا نہیں، بلکہ قومی اثاثے ہیں۔ پاکستان کے وہ ادارے جو کسی بھی ریاست کے لیے ترقی، فخر اور مضبوط معیشت کی علامت ہوا کرتےہیں،آج اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کا زوال محض اتفاقیہ نہیں، بلکہ ایک ایسی پری پلاننگ گیم کا حصہ ہے، جس کے ذریعے پاکستان کو عالمی استحصال اور سامراجی قوتوں کے لیے ایک منافع بخش منڈی بنا دینا ہے۔  یہ گیم  اکنامکس کی زبان میں "استحصالی نجکاری" (Predatory Privatization) کہلاتا ہے۔ اس میں ایک طرف سرمایہ دار کے روپ میں شکاری (Predator)بیٹھا ہوتا ہے اور دوسری طرف اس کا شکار  قومی ادارے ہوتے ہیں۔ چوں کہ شکاری کے لیے آسان شکار وہی ہوتا ہے جس کی رفتار سست اور پرواز ڈھیلی ہو۔ لہٰذا شکاری ہمیشہ اپنے مطلوبہ شکار کو کمزور کرکے قابلِ شکار بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ پاکستان کے معاملے میں بھی شکاری نے یہی چال چلی، بلکہ یہاں پر تو شکاری نے اپنے شکار کے سارے پَر ہی کاٹ دیے۔ اَب نہ وہ چل سکتا ہے نہ اُڑ سکتا ہے۔ یہ اَب شکاری کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ اسے پنجرے میں بند کر دیتا ہے یا پھر اس کی مونہہ مانگی قیمت وصول کرکے کسی دوسرے شکاری کے حوالے کر دیتا ہے۔ جو ممالک شکاری کے جال سے محفوظ ہیں، وہاں انھی اداروں سے اربوں کمایا جا رہا ہے۔ 


    ذیل میں پاکستان کے مفلوج اداروں کا پڑوس (چین) کے اداروں کے ساتھ موازنہ پیش خدمت ہے۔

    پی آئی اے PIA کا موازنہ:

    پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز موت کے دروازے پر کھڑی نظر آرہی ہے۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق پی آئی اے کے پاس 32 طیارے ہیں، جن میں چھ بوئنگ 777 شامل ہیں۔ ایک بوئنگ 777 کی قیمت 440 ملین ڈالر (تقریباً 14 ارب روپے) ہوتی ہے، لیکن آج پوری پی آئی اے کی قیمت صرف 10 ارب روپے لگائی گئی ہے۔ یہ زوال اس شکاری کی کامیاب نشانہ بازی کا مونہہ بولتا ثبوت ہے۔ پی آئی اے کا سربراہ ہمیشہ کسی ریٹائرڈ ایئرمارشل یا وردی والے افسر کو ہی چنا گیا، جنھوں نے قومی اثاثے کو ہمیشہ اپنی ذاتی خواہشات کے لیے بے دردی سے استعمال کیا۔جب کہ چین کی چائنا ساؤدرن ائیر لائنز پچھلے سال تقریباً 6 ارب ڈالر ریونیو بنانے میں کامیاب رہی، حال آں کہ یہ بھی حکومتی ملکیت میں ہے۔ چین نے اپنی ایئر لائنز کو فلِیٹ ماڈرنائزیشن اور ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کے ذریعے کامیاب بنایا ہے۔

     

    پاکستان ریلوے کا موازنہ:

    پاکستان ریلوے جس نے ملک کے لیے شہ رگ کا کردار ادا کرنا تھا، آج بدانتظامی اور سیاسی مداخلت کے باعث اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ ناجائز سفارش، اقربا پروری اور کرپشن نے اسے ناقص پٹریوں اور پرانے انجن کا کباڑ بنا کر اربوں روپے کے خسارے میں دھکیل دیا ہے۔ اس کے برعکس پڑوسی ملک چائنا کے ہائی اسپیڈ ریل نیٹ ورک نے دنیا کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ پچھلے سال جہاں ہمارا ادارہ 55 ارب سے زائد خسارے میں رہا، وہاں چین نے اپنے نیٹ ورک سے 170 ارب ڈالر کما ئے۔ ان کا ریلوے سسٹم جدید ترین ٹیکنالوجی، وقت کی پابندی اور بہترین منصوبہ بندی کی مثال بن چکا ہے۔

     

    پاکستان اسٹیل مل کا موازنہ:

    پاکستان اسٹیل مل، جو کبھی خطے کا سب سے بڑا صنعتی یونٹ تھا، آج زنگ آلود کھنڈر میں تبدیل ہوچکا ہے۔  سالوں سے بند پڑی سٹیل مل وطن عزیز کے لیے ہر سال اربوں روپے نقصان کا باعث بن رہی ہے۔

    اس کے برعکس، چین کی باؤ اسٹیل گروپ (Baowu Steel Group) دنیا کی سب سے بڑی اسٹیل کمپنی ہے، جس کا گزشتہ سال کا ریونیو 344 ارب یوآن سے تجاوز کر گیا۔ چین کی قیادت نے اسٹیل سیکٹر میں نئی مشینری، تحقیق اور مؤثر منصوبہ بندی کے ذریعے ایک انقلاب برپا کیا ہے، جب کہ پاکستان اسٹیل مل بدعنوانی اور سیاسی مداخلت کے سبب بے بسی کی تصویر بن چکی ہے۔

     

    نجکاری؛ ایک عالمی سازش:

    پاکستان کی نجکاری کی کہانی درحقیقت ایک بڑی عالمی سازش کا حصہ ہے، جسے سرمایہ دارانہ نظام کے عالمی محافظین (آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک وغیرہ) بڑی مہارت سے آگے بڑھاتے ہیں۔ یہ ادارے ترقی پذیر ممالک کو معاشی بحرانوں سے نکالنے کے نام پر ان کے وسائل پر قابض ہونے کا منصوبہ بناتے ہیں۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان ممالک کے قیمتی اثاثے عالمی سرمایہ دار کے روپ میں بڑے شکاریوں کے  ہاتھوں شکار ہو جائیں۔

     

    آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا طاغوتی کردار:

    1۔ مشروط قرضے:

    یہ پاکستان جیسے ممالک کو پہلے اپنے کمال فنِ مہارت سے کمزور کرکے قرض لینے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ پھر قرض دیتے وقت من چاہی شرائط عائد کرتے ہیں۔ پی آئی اے اور دیگر اداروں کی نجکاری ان ہی شرائط کا شاخسانہ ہے۔ ان اداروں کو دیوالیہ قرار دے کر ان کی اصل قدر سے کہیں کم پر فروخت کیا جاتا ہے۔

    2۔ فری  مارکیٹ پالیسی:

    یہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے مالی امداد فراہم کرتے ہیں، لیکن اس کے بدلے مارکیٹ کی آزادی کے نام پر ریاستی کنٹرول چھین لیتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو اثاثے قوم کی فلاح و بہبود کے لیے ہوتے ہیں، وہ منافع خور اداروں کے ہاتھ چلے جاتے ہیں۔

    3۔ بیوروکریٹک سازشیں:

    آئی ایم ایف اور ورلڈبینک کی نگرانی میں قومی اداروں کو جان بوجھ کر ناکامی کی طرف دھکیلا جاتا ہے۔ ان اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے بجائے ان پر ایسے فیصلے مسلط کیے جاتے ہیں جو انھیں کمزور کر دیتے ہیں، جیسے مالی وسائل کی کمی، ناقص حکمت عملی، نااہل مینجمنٹ اور غیر ضروری سیاسی مداخلت۔ یہ سب اس لیے کیا جاتا ہے، تاکہ ان اداروں کی حالت اتنی خراب ہو جائے کہ ان کی نجکاری کو ہی واحد حل کے طور پر پیش کیا جا سکے۔

     

    قومی اداروں کی نجکاری کے نقصانات:

    1۔ نجکاری کے بعد قومی اثاثے چند مفادپرست اور بااثر افراد کے قبضے میں چلے جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں عام عوام کو اپنے ہی وسائل اور خدمات مہنگے داموں خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

    2۔ روزگار کے مواقع تیزی سے کم ہو جاتے ہیں، کیوں کہ سرمایہ دار کا مقصد صرف اپنے منافع میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسے یہ پرواہ نہیں ہوتی کہ ملازمتوں کے خاتمے سے لوگ کس قدر مشکلات اور فاقہ کشی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ زیادہ منافع کے لالچ میں ملازمین کی چھانٹی کی جاتی ہے اور معمولی بہانوں پر لوگوں کو ملازمت سے نکال دیا جاتا ہے۔

    3۔ قومی خودمختاری ختم ہو جاتی ہے، کیوں کہ طاقت اور اختیار ان کے ہاتھ میں چلے جاتے ہیں جو سیاسی اور معاشی لحاظ سے مضبوط ہوتے ہیں۔قرضوں اور امداد پر انحصار کا سب سے بڑا نقصان یہی ہے کہ آزادی اور فیصلے کرنے کا اختیار چھن جاتا ہے جو خیرات دیتے ہیں، وہ اپنی مرضی کے احکامات منوانے کا فن بھی خوب جانتے ہیں۔

     

    پاکستان کو بچانے کا واحد حل:

    پاکستان کے تمام سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل کا اگر شعوری نظر سے معائنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں بہ حیثیت مجموعی دو بڑے امراض لاحق ہیں۔ ایک ہے امریکا کی غلامی اور دوسرا ہے نظامِ سرمایہ داری۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے ہتھیار ہیں، جس کے ذریعے وہ دنیا میں غلامانہ سرمایہ دارای نظام کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ سیاسی مداخلت اور رجیم چینجز کے ذریعے پہلے قومی اداروں کا بیڑہ غرق کرکے عوام کا اداروں پر سے اعتماد ختم کیا جاتا ہے، پھر لنڈے کے ریٹ پر قومی اداروں کو سرمایہ داروں کے حوالے کیا جاتا ہے۔ آج ہمیں پاکستان کو امریکا کی غلامی سے نجات دلانے اور اپنے لیے قومی بنیادوں پر ایک صالح نظام تشکیل دینے کے لیے شعوری جدوجہد کی اشد ضرورت ہے۔


    Share via Whatsapp