فلاحی تنظیموں کا استحصالی کردار اور ایک مضبوط قومی نظام کی ضرورت
سرمایہ دارنہ یا سامراجی نظام کی چھتری تلے ہونے ہونے کسی بھی قسم کی سماجی یا معاشی سرگرمی مظلوم و محکوم لوگوں کے لیے استحصال کا باعث بنتی ہیے -
فلاحی تنظیموں کا استحصالی کردار اور ایک مضبوط قومی نظام کی ضرورت
ہارون الرشید۔ راولپنڈی
ایسی تنظیمیں جو معاشرے کے محروم کمزور اور پسے ہوئے طبقات کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتی ہیں فلاحی تنظیمیں کہلاتی ہیں۔ یہ بھوکوں کو کھانا کھلا نے ، بیماروں کے لیے دوا فراہم کرنے ،مالی معاونت کرنے ، غریب گھرانے کی بچیوں کی شادی کروانے اور کسی حد تک کچھ بے روز گار لوگوں کے روزی روٹی کے مسائل حل کرنے میں مدد کرتی ہیں۔یا باقاعدہ کوئی ہسپتال یا ڈسپنسری بنا دیں گی لنگر خانے کھول دیں گی کوئی ٹیکنیکل ایجوکیشن کا ادارہ قائم کر دیں گے۔ پاکستان میں ایدھی فاؤنڈیشن ، شوکت خانم میموریل ٹرسٹ ، کشف فاؤنڈیشن اور اخوت فاؤنڈیشن وغیرہ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔
اسی طرح عالمی تنظیموں جیسے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) یونیسیف (UNICEF) اور سیو دی چلڈرن (Save The Children) جیسی تنظیموں جن کا دنیا بھرمیں نیٹ ورک قائم ہیں، بھی پاکستان میں صحت، تعلیم انسانی حقوق خصوصا بچوں اور عورتوں کے حقوق کے شعبے میں کام کر رہی ہیں –
لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس طرح کی قومی اور بین الاقوامی تنظیموں کے کام کرنے اور اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی لوگوں کے مسائل حل ہونےکے بجائے اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جیسےہمارے ہاں ایدھی فاؤنڈیشن جیسی تنظیم کے ملک گیر نیٹ ورک کے باوجود بے گھر بچوں، بے سہارا عورتوں اور بے سہارا بزرگوں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آرہی۔ شوکت خانم کینسر ہسپتال کے ہوتے ہوئے بھی بے شمار مریض کیسنر کے علاج سے محروم رہ جاتے ہیں۔اسی طرح بین الاقوامی تنظیموں کے صحت، تعلیم اور انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے کے باوجود لاکھوں لوگ علاج معالجے اور روزگار سے محروم رہ جاتے ہیں-اگر ہم ماضی میں جھانکیں تو کہیں بھی کسی بھِی ملک یا معاشرے میں ہمیں یہ نظر نہیں آئے گا کہ فلاحی تنظیموں کے کام سے اس ملک کی حالت بدلی ہو اور وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوئے ہوں۔ان سے جزوی طور پر تو کچھ لوگوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے لیکن مجموعی طور پرعوام کی حالت زار پر کوئی حقیقی اثرات مرتب نہیں ہوتے -
بنیادی طور پر لوگوں کی فلاح و بہبود،تعلیم دلانا، روزگار مہیا کرنا اورصحت کی سہولیات دینا حکومت کی بنیادی ذمہ داریاں ہیں۔لیکن جب فلاحی یا غیر سرکاری تنظیمیں یہ کام کرتی ہیں تو لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے ان کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں اور حکومت عوام سے ٹیکس وصول کرنے کے باوجود اپنی ان بنیادی ذمہ داریوں سےاپنادامن بچانے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک طرف توعوام میں یہ شعور ہی پیدا نہیں ہونے دیا جاتا کہ ان بنیادی حقوق کو پورا کرناریاست کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے اور دوسری طرف حکومتی اشرافیہ ملکی وسائل کو بے دریغ اپنی عیاشیوں اور شاہ خرچیوں کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں اور بد عنوانی کا بازار گرم رہتا ہے –
اس کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ وہ نوجوان جو مخلص ہو کر ان تنظیموں کے لیے بلا معاوضہ یا کم تنخواہ پہ کام کرتا ہے اور اپنی ساری توانائیاں ان کے لیے صرف کر دیتا ہے جب اسے پتہ چلتا ہے کہ اس کی ان کوششوں سے ملک یا عوام کی حالت تو بہتر نہیں ہو رہی اور نہ کوئی اس کا متبادل سجھائی دیتا ہے تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے- اس کی وہ صلاحیتیں جو بحق قوم استعمال ہونا تھیں اجتماعی طور پر اس کا کو ئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہو پاتا-
اس کے ساتھ ساتھ وہ بڑی بڑی سرمایہ دار کمپنیاں جو کسی فاؤنڈیشن یا خیراتی ادارے سے تعاون کرتی ہیں یا CSR(Corporate Social Responsibility) کے نام پر اپنا کوئی فلاحی ادارہ چلا رہی ہوتی ہیں تو وہ اس تعاون کی مد میں کئی گنا زیادہ ریاست سے ٹیکس میں چھوٹ حاصل کر لیتی ہیں اور اس کے ساتھ ہی لوگوں کے سامنے نیک نامی بھی حاصل کر لیتی ہیں جیسا کہ
Bil n Linda Foundatio nby Bil Gates, Musk Foundation by Elon Musk of Tesla Company and Smile program for Charity by Amazon
دراصل سرمایہ دارانہ یا سامراجی نظام کی چھتری تلے ہونے والی کسی بھی قسم کی سماجی یا معاشی سرگرمی جو بظاہر لوگوں کی بھلائی کے لیے ہو مظلوم و محکوم لوگوں کے لیے استحصال کا باعث بنتی ہے -
یہی وجہ ہے کہ عالمی وفلاحی سرکاری تنظیموں کی طرف سے آنےوالا سامان حاجت مند افراد تک پہنچنے سے پہلے ہی ہماری اشرافیہ کی مہر بانی سے بازار میں فروخت کے لیے پہنچ جاتا ہے جیسا ۲۰۰۵ کے زلزلہ میں دوسرے ممالک سے آنےوالے کمبلوں اور گرم کپڑوں کی مارکیٹ میں رسائی اور کرونا کے ابتدائی دنوں میں چین سے امدا د کی مد میں آنےوالی حفاظتی کٹس فارمیسی و میڈیکل سٹوروں پر فروخت ہوئیں اور غریب بےچارہ ہاتھ ملتا رہ گیا -
لیکن اس کے مقابلے میں اگر ہم اسلام کے عادلانہ معاشی نظام کی بات کریں تو عوام کے بنیادی حقوق جیسے کہ صحت ،تعلیم ، روزگار اور یہ استطاعت کہ وہ شادی (جب وہ شادی کی عمر کو پہنچ جائے اور مالی مجبوری سے قاصر ہو) کر سکیں مہیا کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری اور فرائض میں سے ہے -حضرت عمر رض کا قول ہےکہ اگر دریا کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا پیاسا مرگیا تو روز قیامت عمرسے اس کاسوال ہوگا۔ اسی طرح اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک جو بڑا فیاض فاتح اور رفاہ عامہ کے کاموں میں بڑی دلچسپی لیتا تھا،دنیا کو اس وقت کھلا چیلنج کرتاہے جب اسلامی سلطنت تین براعظموں پر پھیل چکی تھی کہ میری ریاست میں کوئی ایسا شخص دکھا دو جو بیمار ہو اور کوئی اس کی دیکھ بھال کرنےوالا نہ ہو ،کوئی ایسا شخص جو بےروز گار یا بے گھر ہو اور ریاست نے اس کے روز گارو رہائش کا انتظام نہ کیا ہو یا کوئی ایسا انسان جو بالغ ہو شادی کی عمر کو پہنچ گیاہو لیکن معاشی تنگدستی کی وجہ سے شادی کی استطاعت نہ رکھتاہو اور ریاست نے اس کی مدد نہ کی ہو-یقینا یہ سب ایک مضبوط و عادلانہ معاشی و سماجی نظام کے بغیر ممکن نہیں –
آج ہمارے ملک میں سماجی طبقاتیت اور معاشی غارتگری کا یہ عالم ہے کہ ریاست مدینہ کا نعرہ لگانے والے وزیر ِاعظم کا دو لاکھ تنخواہ( دیگر مراعات علاوہ) میں گزاراہ نہیں ہوتا لیکن اس غریب کو بارہ سے چودہ گھنٹے کام کرکے بیس بائیس ہزار کماتا ہے جو اس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی ہیں الٹا اسی کو مزید محنت کرنے کی تلقین کرتا نظر آتا ہے- موجودہ وبائی معاشی بحران میں بھی بڑی سرمایہ دار کمپنیوں کو تو سینکڑوں ارب کے معاشی ریلیف پیکج دیے گئے جبکہ عام عوام کے لیے Prime Minister's COVID-19 Pandemic Relief Fund-2020قائم کردیا گیا اور صاحب ثروت و فلاحی تنظیموں اور خیراتی اداروں کو تعاون کرنے کی اپیل کی گئی -ابھی تک ہماری حکومت اس معاشی بحران سے نکلنے کے حوالے سے کوئی واضح منصوبہ بندی نہیں کر سکی ماسوئے اس کے کہ آئی ایم ایف سے مزید قرضہ حاصل کیا جائے جو کہ قوم و ملک کو مزید زوال اور پستی میں دھکیل دے گا- اداروں میں نا اہل افسران کی بھر مار ہے اور تقریبا ہر ادارہ ہی سیاستدانوں اور بیو رو کریسی کے تجربات و مفادات کا تختہ مشق بنا ہوا ہے۔ بد عنوانی کا بازار گرم ہے مہنگائی اور بے روز گاری منہ زور ہوتی جا رہی ہیں اور تعلیمی اداروں کی مسلسل بندش سے تعلیمی سر گرمیاں بھی سکڑ کر رہ گئی ہیں-
ایسے میں آج کے ذی شعور نوجوان کو یہ سمھجنے کی ضرورت ہے کہ وطن عزیز پہ مسلط سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کی تشکیل کن بنیادوں پر کی گئی ہے اور اس کا مقصد صرف یہاں کے جاگیر دار ، سرمایہ دار بیورو کریسی اور آلہ کار مذہبی طبقہ کے مفادات کا تحفظ ہے- آج ضرورت ہے ایک با شعور اجتماعیت کی جو انسان دوستی کے نظریے اور عدل و انصاف کے نصب العین پر جدو جہد کرتے ہوئے ایک مضبوط سیاسی و معاشی نظام تشکیل دے جس کے ادارے مضبوط اور آزاد ہوں جو رنگ نسل مذہب اور فرقہ پرستی کی سوچ سے بالاتر ہو کر کام کرے اور جس کا مطمع نظر صرف چند خاندانوں یا گروہوں کے مفادات کا تحفظ نہیں بلکہ تمام انسانیت کی فلاح و ترقی مقصود ہو-