نیو لبرل ازم اور صحت کی نجکاری
پاکستان میں ہیلتھ پرائیو یٹائزیشن کا پس منظر ، اور نیو لبر ل ازم کے معاشی تصور سے اس کا لنک
نیو لبرل ازم اور صحت کی نجکاری
تحریر : ڈاکٹر فرحان علی ۔ لاہور
ریاست اپنے شہریوں کو زندگی کی تمام بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے ۔ صحت اس حوالے سے بنیادی اہمیت کا حامل شعبہ ہے ۔ اقوام متحدہ اور تمام ریاستوں کے قوانین حکومتوں کو پابند بناتے ہیں کہ بغیر کسی تفریق کے تمام انسانوں کو صحت کی بنیادی سہولتیں مہیا کرنے کی ضمانت دے ۔ اس حوالے سے وسائل کی فراہمی، پالیسیز کو بنانے اور نفاذ کا ختیار ریاست کے پاس ہوتا ہے ۔
لیکن گزشتہ کچھ دہائیوں سے ر یاستیں اپنی ذمہ داری سے پیچھے ہٹتی ہوئی نظر آ رہی ہیں ۔ اور سوشل سیکٹر میں نجی شعبے کا کردار تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سماجی سہولیات کے لیے بھی آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ نجی شعبے پر انحصار کر رہا ہے ۔
پرائیوییٹائزیشن کے اس رحجان میں اضافہ کب شروع ہوا اور اس کی وجوہات کے لیے ہمیں عالمی سرمایہ داری نظام کی تاریخ کا جائزہ لینا ہو گا ۔
انیسویں صدی میں فری مارکیٹ کا تصور دیا کہا گیا کہ تجارت اور معیشت اسی صورت میں تیز رفتار ترقی کر سکتی ہے اگر مارکیٹ کی قوتوں کو آزد رکھا جائے اور حکومتی مداخلت کم سے کم ہو ۔ مگر اس تجارتی آزادی کا نتیجہ 1929 میں عظیم عالمی کساد بازاری (Great Depression ) کی صورت میں نکلا ۔ سرمایہ داری نظام کے اس بحران اور جنگ عظیم دوم کے بعد کنیزین ماڈل Keynesian Economics سامنے آیا جس میں کنٹرولڈ مارکیٹ کا تصور پیش کیا گیا اور تجارتی پالیسیز پر حکومت اور سٹیٹ بنک کا کنٹرول ضروری قرار دیا گیا ۔
یہ درحقیقت کلاسیکل لبر ل ازم اور سوشلسٹ منصوبہ بندی کا درمیانی راستہ تھا ۔ اس ماڈل کے اثرات 1945 سے 1975 تک رہے ۔ 1945 سے 1980 تک سرمایہ دار ریاستوں نے سوشل ویلفیر سٹیٹس کے تصور پر کام کیا، جو بظاہر سوشلسٹ انقلاب کے خوف کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے ، اور سماجی شعبوں جیسے صحت و تعلیم میں خود ریاست کا کردار بنیادی تھا ۔ مگر 1975 کے بعد یہ لبادہ بھی اترنا شروع ہوا اور انیسویں صدی کا لیسس فیئر مارکیٹ کا تصور ، نیو لبرل ازم کے نام پر لانچ کیا گیا
1980s میں یہ paradigm shift آیا ۔ اب کارپوریٹ سیکٹر کے کردار میں اضافہ شروع ہوا ۔ نہ صرف تجارت اور معیشت بلکہ سوشل سیکٹر میں بھی نیو لبرل اصولوں کا اطلاق شروع ہوا۔
نیو لبر ل ازم کا ماڈل بڑے سرمایہ دار ممالک نے از خود اپنا لیا مگر ترقی پذیر مملک میں یہ ماڈل ورلڈ بنک اور یو ایس ایڈ جیسے اداروں کے ذریعے برآمد کیا گیا ۔ حکومتوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ ریاستی وسائل کے سوشل سیکٹر پر خرچ میں کمی کریں ۔
پاکستان کی مثال لی جائے تو یہاں 1990 میں Hospital Autonomy Reforms متعارف کرائی گئیں۔ پہلے مرحلے میں صحت کے بجٹ میں کمی کی گئی اور آبادی میں اضافے کے تناسب سے نئے ہسپتال قائم نہیں کیے گئے۔ سرکاری ہسپتالوں کے بتدریج گرتے ہوئے معیار کے نتیجہ میں عوام کا اعتماد کم ہونا شروع ہوا ۔ یہیں سے پرائیویٹ پریکٹس کا رحجان شروع ہوا ۔ اور ایسے کلینک اور عطائی بھی مارکیٹ میں آگئے جو کسی قسم کے قانون اور نگرانی سے آزاد تھے ، ان حالات نے سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری اور کارپوریٹ سیکٹر کے لیے جواز فراہم کر دیا ۔
پنجاب کی گزشتہ صوبائی حکومت کے دور میں مینیجمنٹ کو بہتر کرنے کی بجائے سرکاری ہسپتالوں کی بہت سی سروسز آوٹ سورس کر دی گئیں ، اور عطائیت کے خاتمے اور نجی ہسپتالوں کی ریگولرائزیشن کے لیے ہیلتھ کیئر کمیشن قائم۔کیا گیا ، اسی طرح فارمیسیز کے لیے قوانین پر سختی سے عملدرآمد شروع کیا گیا ۔ صوبہ خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں انشو رنس سسٹم اور ہیلتھ کارڈ بھی متعارف کرائے گئے۔ ۔ یعنی حکومت وہ بجٹ سرکاری ادروں کی بہتری پر خرچ کر نے کی بجائے انشورنس کارڈ کے نام پر نجی شعبے کی جیب میں پہنچا دے گی ۔ ان اقدامات کے نتیجے میں کارپوریٹ سیکٹر کی آمد کے لیے ماحول سازگار بنا دیا گیا ۔
نیو لبرل ازم کی حمایت میں کہا جاتا ہے کہ حکومتوں کا کام محض ریگولیٹری اتھارٹی کا ہونا چاہئیے جبکہ مینیجمنٹ نجی شعبے کے حوالے کر دی جائے ۔ مگر سوال یہ ہے کہ محض منافع کے اصول پر کام کرنے والا کارپوریٹ سیکٹر کیا 40% سے زیادہ آبادی، جو خط غربت کی لکیر سے نیچے ہے ، کو صحت کی یکساں معیاری سہولیتیں فراہم کر سکے گا ۔
اور ریاست اسی نجی شعبے پر کس حد تک اپنے قوانین کا نفاذ کر پائے گی ۔
نیو لبرل ازم کا یہ درآمد شدہ ماڈل جو خود برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک میں ایک بڑی آبادی تک صحت کی سہولیات پہنچانے سے قاصر ہے اور وہاں کے الیکشن میں صحت کا ایشو ایک بڑا ایجنڈ ا پوانئٹ ہوتا ہے ، وہ ماڈل پاکستان جیسی کمزور ریاستوں میں کیا اثرات مرتب کرے گا یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ اور وہ ذمہ داری جو ریاست خود اٹھانے پر تیار نہیں اس کی توقع کارپو ریٹ سیکٹر سے کیسے کی جا سکتی ہے ۔