قحط اور قحط الرجال کا تعارف اور اس سے نمٹنے کی حکمت عملی - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • قحط اور قحط الرجال کا تعارف اور اس سے نمٹنے کی حکمت عملی

    قحط الرجال ایک سنگین مسئلہ ہے جو قوم کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ قوم کے حقیقی ہیروز کو پہچانا جائے، جو مخلص، قابل ہو۔

    By Asghar Surani Published on Sep 20, 2024 Views 370
    قحط اور قحط الرجال کا تعارف اور اس سے نمٹنے کی حکمت عملی 
    تحریر: محمد اصغر خان سورانی 

    قحط غذائی قلت پر محیط ایسی صورتِ حال کو کہتے ہے، جس میں انسانوں کو خوردنی اشیا دستیاب نہ ہوں۔ یا خوردنی اشیا کی شدید قلت پڑ جائے جو عموماً زمینی خرابی، خشک سالی اور وَبائی امراض کی بدولت ہوسکتی ہے۔ ایسی صورتِ حال میں بڑے پیمانے پر اموات کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔ کچھ قحط ایسے بھی گزرے ہیں، جن میں ظالم حکمرانوں کے بے جا ٹیکسز اور وہاں سے خوردنی اشیا کی منتقلی بھی غذائی قلت کا سبب بھی بنے ہیں۔ماضی میں ہندوستان پر فرنگی قبضے کے دوران کروڑوں لوگوں کی اموات اس کی سیاہ ترین تاریخی مثال ہے ۔ 
    اس طرح اگر ہم قحط الرجال کو دیکھیں تو یہ بھی غذائی قحط جیسی صورتِ حال کا نام ہے ۔ قحط الرجال ایک ایسی اصطلاح ہے جو اس حالت کو بیان کرتی ہے، جب کسی قوم یا ملک میں مخلص، قابل اور باصلاحیت افراد کی شدید کمی ہو، جس کے نتیجے میں عوامی امور کی بہتر طور پر نگرانی یا راہ نمائی نہ ہوسکے ۔ 
    دونوں طرح کے قحط کی صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہوئے مشہور نثرنگار مختارمسعود کی کتاب "آواز دوست" سے ایک پیراگراف نقل کرتا ہوں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ "قحط میں موت اَرزاں ہوتی ہے اور قحط الرجال میں زندگی۔ مرگ انبوہ کا جشن ہو تو غذائی قحط، حیات بے مصرف کا ماتم ہو تو قحط الرجال۔ ایک عالم موت کی ناحق زحمت کا دوسرا زندگی کی ناحق تہمت کا۔ ایک نوع انسانی کی موت کا دوسرا سمائےحشر کا ۔ زندگی کے تعاقب میں رہنے والے غذائی قحط سے زیادہ قحط الرجال کا غم کھاتے ہیں"۔
    1۔  مخلص اور قابل افراد کی کمی
    قحط الرجال کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ قوم یا ملک میں مخلص اور باصلاحیت افراد کی کمی ہو تی ہے ۔ ایسے افراد جو عوامی مسائل کا حل تلاش کرسکیں، جن کی صلاحیتیں اور علم قوم کی ترقی میں کردار ادا کرسکیں، ان کی عدم موجودگی ملکی مسائل کو پیچیدہ بنا دیتی ہے۔ 
    بنیادی طور پر ان کی دو ہی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ہمارے نظامِ تعلیم میں یہ سکت ہی نہ ہو کہ وہ ایسے با صلاحیت افراد تیا ر کرے ، جو ملک کو چلانے کے قابل ہوں یا ہم ان افراد کو جو کسی نہ کسی طریقے سے کچھ لکھنا پڑھنا جانتے ہوں ،انھیں ملک میں پنپنے کا موقع ہی نہ دیں اور ایسا سارا برین کسی دوسرے ملک منتقل ہوجائے ۔ 
    2۔ عوامی امور سرانجام دینے میں ناکامی
    جب قابل راہ نما یا ماہرین کی کمی ہو، تو عوامی امور صحیح طریقے سے نہیں چلائے جاسکتے۔ یہ مسائل مختلف شعبوں میں نمودار ہوتے ہیں، جیسے کہ زراعت، صنعت، صحت، معیشت اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی۔ہمارے غلبے کے زمانے میں ہم اپنے سارے محکموں کو خود ہی چلایا کرتے تھےاور ہمیں کبھی بیرونی امداد کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی ۔ہمارے پاس وہ محکمے اور ادارے جن کی حساس نوعیت کو ہم نے تبدیل کردیا ، ہمارے ہاتھ سے نکلتے جارہے ہیں۔ جیسا کہ پاکستان اسٹیل مل، پی آئی اے، واپڈا، پاکستان پوسٹ اور اسی طرح کے بہت سارے ادارے تباہی و بربادی کا شکار ہوتے جارہے ہیں ۔ 
    3۔ قومی ہیروز کی غلط تعریف
    جب ملک میں ایسے افراد کو ہیرو کے طور پر پیش کیا جا ئے جو محض لوگوں کی تفریح طبع کا کام کریں، جیسے کہ مشہور گلوکار، ادا کار، فراڈیے، میراثی وغیرہ  تو وہ متعلقہ شعبے کے ہیرو تو ہوسکتے ہیں۔ ایسے افراد کے کام کی تعریف اور ان کو سراہنا بھی ایک مثبت پہلو ہے، لیکن اہم ترین پہلو یہ ہے کہ قوم کا بنیاد مسئلہ کیا ہے ؟اور اگر اس کے حل کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوتی ۔محض قوم کی توجہ اس سے ہٹانا مقصود ہے، مثلاً اصل مسائل، جیسے تعلیم، صحت، اور اقتصادی ترقی وغیرہ۔ان پر توجہ مرکوز نہیں کی جاتی ۔ قوم کو محض کھیل تماشے میں اُلجھائے رکھا جاتا ہے اور اسی سے متعلقہ افراد کو قوم کے ہیروز بنا کر پیش کیا جا تا ہے ۔ جو درحقیقت ہیرو نہیں ہوتے ۔ ان کے کردار سے قوم کی توجہ بنیادی مسائل سے ہٹائی جاتی ہے۔ ان کے باعث قوم کی ترقی اور خوش حالی کا نظریہ ہی تبدیل ہوجاتا  ہے۔کیوں کہ ہیروز وہ ہوتے ہیں جو قوم کی ڈوبتی ہوئی، ناؤ کو بھنور سے نکالنے کی استعداد اور صلاحیت رکھتے ہوں۔
    قحط الرجال کے حوالے سے سوسائٹی کے سوالات۔۔۔۔۔۔۔
    کیا ہمارے صدارتی تمغے اور ایوارڈ یافتگان میں کوئی ایسا سائنس دان ہے، جس نے اجناس یا سبزیوں کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کا کوئی مؤثر طریقہ دریافت کیا ہو؟ زراعت میں جدید ٹیکنیکس اور طریقوں سے ملک کی خوراک کو خودکفالت کا ذریعہ بنایا ہو؟ اگر جواب نفی میں ہے تو ہم کہہ سکتے ہے کہ ہم نے اس شعبے کو اگنور کیا ہے یا ہم صرف دوسروں کے سہارے زندہ ہیں کہ کوئی اور ہمارے لیے نئے بیج اور طریقہ کار بتائے گا تو ہم زرعی انقلاب لائیں گے، ہم نے قسم کھائی ہے کہ ہم کچھ نہیں کریں گے۔ 
    کیا کوئی آبی ماہر موجود ہے، جس نے بارش اور سیلاب کے پانی کے استعمال کا کوئی نیا طریقہ متعارف کرایا ہو؟ پانی کے انتظام کی بہتر حکمت عملی نہ ہونے کی صورت میں سیلاب اور پانی کی کمی جیسے مسائل حل نہیں ہوپاتے۔ چھ مہینے ہم یہ رونا روتے ہیں کہ بارشیں نہیں ہورہیں،لیکن جب بارشیں شروع ہوجا ئیں ، تو اس کا پانی ضائع کردیتے ہیں۔ بہتر حکمت عملی نہ ہونے کے باعث اس کو اسٹور نہیں کرتے ۔حا ل آں کہ چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا کر نہ صرف اسے محفوظ کرسکتے ہیں، بلکہ اسے سستی بجلی بنانے کا ذریعہ بھی بنایا جاسکتا ہے ۔ 
    کیا کوئی ڈاکٹر ہے ؟جس نے زرعی یا انسانی و حیوانی بیماریوں کے علاج کے لیے نئی دوا ایجاد کی ہو؟ طبی تحقیق اور ترقی کی کمی صحت کے مسائل کو حل کرنے میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ جب بھی ہمارے کسی لیڈر کو کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے یا اس کی تشخیص ہوجاتی ہے تو ملک خدادا دمیں ان کو کوئی ڈاکٹر نظر نہیں آتا ، فوراً علاج معالجہ کے لیے بیرونِ ملک کا رخ کرتے ہیں ، نہ کسی حکومت نے صحت کے شعبےمیں ترقی کے حوالے سے جدوجہد کی اور نہ اپنے پیدا کردہ ڈاکٹروں کو یہاں پر روزگار مہیا کیا ہے، بلکہ قابل ڈاکٹرز ملک سے باہر جارہے ہیں اور ان سے کوئی اور ملک فائدہ اُٹھا رہا ہے۔ 
    کیا کوئی انجینئر ہے ؟جس نے تعمیراتی، طبی، یا کیمیائی شعبے میں کوئی نئی ایجاد کی ہو؟ یا ہم اپنے تیار کردہ انجینئرز کو ہی روزگار نہیں دے سکتے اور وہ ملک سے باہر جاکر روزگار تلاش کررہے ہیں ۔ کیوں یہاں پر ان کو سہولیات مہیا نہیں کرسکتے ؟ ہم نے توجب بھی دیکھا ہے کہ فلاں ٹنل پر کون سے لوگ کام کررہے ہیں؟ تو سننے کو ملتا ہے کہ چینی لوگ ہیں  یا جاپان کے انجینئرز ہیں ۔  ہماری ترجیحات ہی کچھ الگ ہیں۔ حال آں کہ جدید اختراعات ملک کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور صنعتی پیش رفت کے لیے اہم ہوتی ہیں۔
    کیا کوئی معیشت دان ہے؟ جس نے قرضوں کی معیشت سے نکلنے کا کوئی مؤثر طریقہ بتایا ہو؟ قرضوں کا بوجھ اور معیشت کی مضبوطی کے لیے مؤثر حکمت عملی کی کمی ،معیشت کے بحران کو مزید بڑھا سکتی ہے۔ یہاں پر تو قرض کے قسط لینے کو ہی کامیابی قرار دی جاتی ہے ۔ جب معیشت چلانے والے بھی ان کے ہوں، جن سے قرض لیا ہوتا ہے تو ملک قرض سے نجات کیسے حاصل کریں گے؟ ملکی اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی ہی حکمت عملی کے نتیجے میں ہم قرضوں کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ 
    قحط الرجال ایک سنگین مسئلہ ہےجو قوم کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ یہ ضروری ہے کہ قوم کے حقیقی ہیروز کو پہچانا جائے، جو مخلص، قابل اور باصلاحیت ہوں، تاکہ عوامی مسائل کا مؤثر حل تلاش کیا جا سکے اور ملک کی ترقی کی راہ ہموار کی جا سکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم، تحقیق اور جدید اختراعات پر توجہ دی جائے اور قوم کے حقیقی مسائل پر توجہ مرکوز کی جائے۔
    Share via Whatsapp