خوش رہنا سیکھئے !مصنوعی اور قدرتی ڈوپامین کے تناظرمیں
فطری خوشی کیا چیز ہے؟ کیا خوشی مصنوعی بھی ہو سکتی ہے ؟ اور یہ ڈوپامین کیا چیز ہے۔؟
خوش رھنا سیکھئے !مصنوعی اور قدرتی ڈوپامین کے تناظرمیں
تحریر: محمد اصغرخان سورانی بنوں
نفیس اپنےگھر سے کچھ فاصلے پرنہر کے کنارے بیٹھا تھا اور مظاہرقدرت کا بہ غور مطالعہ کر رہا تھا ، دیکھنے پر پُرسکون لگ رہا تھا ، لیکن ذہن کے اندر بےچینی کا ایک طوفان تھامے بیٹھا تھا۔ جیسا نام ویسا ہی نفاست پسند بھی تھا ، تنہائی میں بیٹھ کر سوچنا اس کے روز کا معمول تھا ۔ اس کے سارے تجسس اور غور وفکر کو وہاں سے گزرنے والے چند آوارہ لڑکوں نے پارہ پارہ کر دیا ۔ پہلے وہ پریشانی کے عالم میں تھا، لیکن اَب اس کے چہرے پر طمانیت ظاہر ہونے لگی ۔ کچھ دیر بعد وہاں پر اس کا جگری دوست طیب بھی آگیا ۔ طیب نے سلام کیا اور دونوں آپس میں محو گفتگو ہوئے۔ طیب نے نفیس سے کہا کہ بھئی سناوُ !!! آج تو بہت خوش لگ رہے ہو۔
نفیس نے طیب سے کہا کہ بھائی انسان کو ہرحال میں خوش رہنا چاہیے اور خوب سے خوب تر کی تلاش جاری رکھنی چاہیے۔ خوشی کو کسی خاص واقعے یا کسی چیز کے حصول سے منسلک نہ کیا جائے،بلکہ حال میں جو کچھ بھی پاس ہے، اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور اللہ تعالیٰ سے مزید بہتری کی امید رکھیں اور جدوجہد جاری رکھیں۔ ابھی کچھ لمحے پہلے یہاں سے کچھ لڑکے گزرے جو اپنی لاٹھی سے اپنے ٹائروں کو مار رہے تھے اور خوشی اور ہنسی کے ساتھ کھیل رہے تھے، گویا ان کے ہاں بے چینی نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ ان لڑکوں نے مجھے زندگی کا ایک سبق سکھایا، جیسے ٹائر ہوا کی مزاحمت، راستے میں پڑی مٹی، کنکر وغیرہ کی رکاوٹوں کی وَجہ سے رُک جاتا ہے، ویسے ہی جب زندگی میں پریشانیوں، منفی سوچ، ماحول کی تھکن اور دیگر وجوہات سے جمود آنا شروع ہوجائے تو یوں لگتا ہے کہ زندگی رُک گئی ہے۔ لیکن جب آپ ان چیزوں سے جان چھڑاتے ہیں تو زندگی دوبارہ شروع ہوتی ہے۔ تو ان لڑکوں کی طرح ہمیں بھی ایک لاٹھی کی ضرورت ہے، تاکہ ہم بھی اپنی زندگی کو رواں رکھنےکے لیے ٹائر کی طرح اسے مار سکیں اور اس لاٹھی سے منفی سوچ، پریشانیوں اور بےچینی کو دور کر سکیں۔
طیب ،نفیس کی بات کو بڑے غور سے سن رہا تھا اور اثبات میں سر ہلا رہاتھا۔ نفیس نے مزید بات آگے بڑھائی اور کہا کہ خوشی اور تجسس کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ انسان کو چاہیے کہ خوش رہنے کے لیےنئے طریقے تلاش کرتے رہیں اور اپنے اندر قناعت کا وصف پیدا کریں ۔اگر آپ اپنی زندگی میں دیکھیں تو وقت کے ساتھ ساتھ آپ کی فطری خوشی کی ترجیحات بھی تبدیل ہوتی رہتی ہیں، جیسا کہ بچپن، جوانی اور بڑھاپے میں خوشی کے ماخذ اور اہداف اور ہوتے ہیں۔ کم عمری میں تو آئس کریم یا برف کا گولا بھی آپ کے لیے محدود دورانیے کے لیے لامحدود خوشی کا سبب بن جاتا ہے ۔ لیکن وہی آئس کریم یا برف کا گولا بعد میں نہ تو آپ کو خوشی دیتی ہے اور نہ آپ عمر کے ایک سٹیج پر اسے کھانا پسند کریں گے اور نہ آپ کا دماغ اس کے لیے ڈوپامین خارج کرتا ہے۔
طیب نے کہا کہ نفیس بھائی! ایک بات سمجھ میں نہیں آئی یہ فطری خوشی کیا چیز ہے؟ کیا خوشی مصنوعی بھی ہو سکتی ہے ؟ اور یہ ڈوپامین کیا چیز ہے؟
نفیس نے کہا کہ بھئی! ڈوپامین ایک کیمیکل مادہ ہے جو دماغ میں خوشی اور انعام کے احساسات کو کنٹرول کرتا ہے۔ جب آپ کوئی خوشی کا لمحہ محسوس کرتے ہیں تو دراصل آپ کے دماغ میں ڈوپامین کی مقدار بڑھ جاتی ہے، جو آپ کو خوشی کا احساس دیتا ہے۔ جب آپ کسی چیز کو خوشی کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں، تو ڈوپامین اس خوشی کے احساس کو بڑھا دیتا ہے۔ اَب اگر خوشی کا ماخذ مصنوعی ہو، تو ڈوپامین کی تحریک بھی عارضی ہوتی ہے اور جیسے ہی یہ کیمیکل کم ہوتا ہے، خوشی کا احساس بھی مدھم ہو جاتا ہے۔ اور اگر یہ فطری ہو تو یہ انسان کے لیے مفید ہوتا ہے۔
انسان قدرتی طریقوں جیسا کہ ورزش، صحت مند غذا، مناسب نیند، بہتر سماجی تعلقات اور سماجی رویے ، ذکر الہی اور دیگر مالی و بدنی عبادات کے ذریعے ڈوپامین کی سطح کو بڑھا سکتا ہے ۔جسمانی سرگرمی ڈوپامین کی سطح کو بڑھاتی ہے، جس سے مزاج اور ذہنی صحت میں بہتری آتی ہے۔ اسی طرح ایسی غذائیں جو ٹائروسین سے بھرپور ہوں، جیسے کہ ہلکا گوشت، گری دار میوے اور کیلے، ڈوپامین کی پیداوار کو فروغ دیتی ہیں۔ ٹائروسین ڈوپامین کا پیش خیمہ ہے۔ مناسب نیند ڈوپامین کی سطح کو متوازن رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ اسی طرح مثبت سماجی رویے اور تعلقات بھی ڈوپامین کی سطح کو بڑھا سکتی ہیں۔ ذکر الہی اور مالی و دیگر بدنی عبادات جب خشوع و حضوع کے ساتھ کی جائے تو اس سے بھی انسان کو اطمینان قلب حاصل ہوتی ہے۔ معتدل دھوپ کی روشنی بھی ڈوپامین کی سطح کو بڑھا سکتی ہے۔ کیوں کہ اس کا اثر جسمانی گھڑیوں اور مزاج پر ہوتا ہے۔
اب کچھ لوگ مصنوعی طریقوں سے جیسا کہ منشیات، جیسے کہ کوکین، امفیٹامینز اور کچھ تفریحی منشیات، ڈوپامین کی سطح میں اضافہ کرسکتی ہیں، مگر ان کے منفی اثرات صحت پر پڑتے ہیں۔ سگریٹ نوشی یا نیکوٹین کے استعمال سے ڈوپامین کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے، جو کہ افراد پر اس کی لت(عادت) لگنے والی نوعیت میں کردار ادا کرتا ہے اور کچھ لمحات کے لیے انسان اپنے آپ کو خوش محسوس کرتا ہے اور نیکوٹین کا اثر ختم ہونے کے بعد پھر بے چین ہوتے ہیں اور اس لت سے چھٹکارا مشکل ہوتا ہے۔ کچھ لوگ کیفین یا دیگر محرکات کا استعمال کرتے ہیں، تاکہ ڈوپامین کو عارضی طور پر بڑھا سکیں اور چستی یا مزاج میں بہتری لا سکیں۔ کیفین معتدل مقدار میں عموماً محفوظ ہے، مگر زیادہ استعمال سے منفی اثرات ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح زیادہ شکر یا پروسیسڈ فوڈز ڈوپامین کی سطح کو عارضی طور پر بڑھا سکتی ہیں، جوکہ بعد میں انسانی صحت کے لیے خطرناک ہوسکتی ہے۔
نفیس نے طیب کو سمجھایا کہ بھائی جان ہم سب کے پاس زندگی کے کچھ سہولیات یا آسائشیں موجود ہوتی ہیں اور کئی ایک کی ہم تمنا اور آرزو کرتے ہیں ۔ اَب اگر ہم توجہ اس چیز پر مرکوز کریں کہ جو ہمارے پاس نہیں اور اس کے حصول کے ساتھ ہم اپنی خوشی کو منسلک کریں تو وہ چیز اگرحاصل نہیں ہوئی تو پھر خوشی حاصل کرنا بہ ظاہر بڑی مشکل ہوگی۔تو کیا یہ بہتر نہیں؟ کہ ہم اُن تمام چیزوں پر توجہ مرکوز رکھیں جو ہمارے پاس ہیں۔ تو لا محالہ ہم ہر لمحے کو انجوائے کرسکتے ہیں۔ کسی نے کوئی اچھا کام کیا تو اس کی تعریف کریں۔ وہ آپ کی تعریف کرنے سےخوش ہو جائے گا۔ اور نتیجتاً آپ کو بھی خوشی ملے گی۔بچے اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ ان کےساتھ کچھ وقت گزاریں۔ ان سے پیار کریں، بچوں کو بھی خوشی ملے گی اور آپ بھی خوش ہوجائیں گے۔بزرگوں اور خاندان کے بڑوں کے ساتھ ادب و احترام سے ملیں۔ان کی باتوں پر غور و فکر کریں۔ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ نرم رویہ رکھیں۔ ان کے غمی خوشی میں شرکت کریں۔ اس سے آپ کو بھی ذہنی سکون ملے گااور ان کو بھی خوشی ملے گی۔
طیب ، نفیس کے باتوں سے کافی متاثر ہوا اور کہنے لگا کہ یہ تو ہمارے اردگرد خوش رہنے کے کافی ذرائع ہیں۔ اور ہم قدرتی طریقوں سے اپنے ڈوپامین کو بڑھا سکتے ہیں، لیکن افسوس! ہر بندہ مصنوعی طریقوں سے خود کو خوش رکھنے کی کوشش کررہا ہے، لیکن وہ مزید اس کی بےچینی کا سبب بن جاتا ہے۔طیب نے نفیس سے سوال کیا کہ یہ سب کچھ تو ٹھیک ہے۔ لیکن میں نے سنا ہے کہ اصل خوشی انسان کو تب ملتی ہے۔ جب وہ معاشی لحاظ سے پریشان نہ ہو، اگر اس کو معاشی لحاظ سے مختلف مسائل درپیش ہو تو پھر وہ کیسے اپنے آپ کو خوش رکھیں؟ اور انھی مسائل سے وقتی چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے وہ کیفین یا نیکوٹین لے رہے ہیں ۔
نفیس نے اس کو سمجھایا کہ آپ کی بات بالکل ٹھیک ہے ۔ یہ جو میں نے سمجھایا ہے یہ عام لوگوں کے لیے ہے۔باشعور افراد پر تو یہ فرض ہے کہ وہ اپنی سوسائٹی کا جائزہ لیں۔اگر سماج میں سب کو آزادی ،امن، عدل اور معاشی خوش حالی میسر ہو تو ٹھیک ہے۔ اگراس کے برخلاف یہ چیزیں سماج میں مفقود ہیں تو اپنے سماج میں عادلانہ نظام قائم کرنے کے لیے جدوجہد کریں۔ جب نظام عدل پر مبنی ہوجائےگا تو سوسائٹی کے ہر فرد کو روزگار کے مواقع ملیں گے اور ان کی یہ پریشانی بھی حل ہو جائے گی۔