توہم پرست معاشرے میں حسنِ ظن کی ترویج
غلامی کے دور میں قوموں کی ترجیحات اور تشریحات بدل جاتی ہیں۔ جب درست علم و فکر کا غلبہ سوسائٹی میں نہیں ہو گا تو سوسائٹی توہمات کا شکار ہو جاتی ہے۔
توہم پرست معاشرے میں حسنِ ظن کی ترویج
تحریر : محمد ابراہیم خان ، مانسہرہ
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں اپنا نائب بنایا ۔ دنیا کی معلوم تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ انسان اپنے ماحول و معاشرہ اور فلسفہ و مذہب کی خصوصیات سے متاثر ہوتا ہے۔ آپس کے میل جول سے کئی سماجی رویے جنم لیتے ہیں۔ انسانی معاشرہ بےشمار سماجی رویوں کی خصوصیات سے مرکب ہوتا ہے۔ ان میں سے کچھ رویے مثبت پہلو رکھتے ہیں اور کچھ منفی - منفی سماجی رویوں میں سے ایک توہم پرستی اور مثبت سماجی رویوں میں سے ایک حسنِ ظن بھی ہیں۔
علم ، عقل اور فن کی صلاحیت کے غلط استعمال کی طرح، انسان نے غیب پر ایمان کی صلاحیت کا بھی غلط استعمال کیا۔ لہٰذا مظاہرپرستی کی طرف مائل ہوتے ہوئے اپنے لیے توہمات کا دروازہ کھول لیا۔ انسانی سماج کی ترقی کے ہر موڑ پر دین کو انسانی ہدایت میں مرکزی کردار کی حیثیت رہی ہے۔ قرآنِ مجید کو کتابِ ہدایت اسی لیے کہا جاتا ہے کہ انسانی معاشرے کی اِصلاح اور اس کی تنظیم سازی میں سیرتِ انبیاعلیہم السلام اور اقوام کے حالات سے مثبت اور منفی سماجی رویوں کو سمجھا جا سکتا ہے۔
دین کی درست تفہیم انسان کو توہمات اور اخلاقی بگاڑ سے نجات دِلانے میں معاون ہوتی ہے۔ توہم پرستی کے علاج میں کردار سازی اور اخلاقیات کی اہمیت مسلمہ ہے۔علم الاخلاق کی اصطلاح میں ہر عملِ ارادی کو "سلوک" کہتے ہیں، جس میں تمام اخلاقی و باطنی امراض کی اِصلاح شامل ہے۔
مولانا حفظ الرحمٰن سیوہارویؒ لکھتے ہیں:
"انسان کے کردار کے لیے کچھ نفسیاتی مبادیات ہیں، جس کا مصدر و منبع نفس ہے،جیسے ملکہ اور عادت ، مگر یہ مبادیات ہمیں محسوس نہیں ہوتیں، بلکہ ان کے آثار کا احساس ہوتا ہے اور انھی کا نام سلوک ( کردار ) ہے"۔ (اخلاق اور فلسفہ اخلاق : ص : 15)
طبقاتی معاشرے مجموعی طور پر توہمات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ طبقاتیت پر مبنی سماج میں انسانوں کے عقل و شعور اور اخلاق و کردار توہمات کی نظر ہوجاتے ہیں، یعنی انسان حسد، حرص، بدگمانی ، جھوٹ اور خواہشات کی پیروی کرتا ہے۔ جب کہ دینی اصولوں پر قائم معاشرے میں کسی قسم کی بدگمانی ، حسد اور جھوٹ کی گنجائش نہیں ہوتی۔
ذہنی تردد کے نتیجے میں توہمات اور انتہاپسندی سے محفوظ رہنے کا بڑا ذریعہ حسنِ ظن رکھنا ہوتا ہے۔ لہٰذا دوسرے کے بارے میں ہمیشہ نیک گمان رکھیے اور کسی کے لیے خود سے ایسی آرا اختیار نہیں کرلینی چاہییں، جن کی وَجہ سے وہ اپنے آپ اندر ہی اندر کڑھتا رہے اور بے چینی کا شکار ہوجائے۔ حسنِ ظن نہ رکھنا انسان کے اندر منفی رویے جنم لینے کا باعث بنتا ہے اور یہی رویے دراصل انتہاپسندی اور توہمات کا پیش خیمہ ہیں۔ لوگوں کے بارے میں حسنِ ظن رکھنے کا مفہوم یہ نہیں کہ جان بوجھ کر کسی سے دھوکہ کھا لیا جائے اور کسی کی بدنیتی اور چالاکی پر بھی خاموش رہتے ہوئے اس کے بارے میں اچھے خیالات دل میں پالے جائیں۔ حسنِ ظن کا مقصد یہ ہے کہ بلا وَجہ کسی کے متعلق بدگمانی نہ رکھی جائے، جب تک پختہ ثبوت اور شواہد موجود نہ ہوں۔ اگر کسی شخص کے متعلق شواہد اور آزمائش کے بعد کامل یقین ہوجائے ، وہ دل کا صاف نہیں۔ پس! ایسے افراد سے دور رہنا ضروری ہے۔
حضرت عمرؓ کا فرمان ہے:
ترجمہ : "نہ میں مکار ہوں اور نہ کوئی مکار مجھے دھوکہ دے سکتا ہے"۔( اعلام الموقعین عن رب العالمین / ابن قیم الجوزیہ )
بدگمانی کا رویہ توہم پرست ذہنیت کا عکاس ہے۔ شریعت و معقولیت ہرگز اس کو پسند نہیں کرتے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
"تم بدگمانی سے بچو اس لیے کہ بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے، لوگوں کے عیوب کی جستجو نہ کرو، آپس میں جلن نہ کرو ، غیبت نہ کرو ، بغض نہ رکھو، بلکہ سب اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی ہو جاؤ"۔ (صحیح بخاری ، کتاب الآداب )
امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ بدگمانی اور وسوسہ کے متعلق بیان کرتے ہیں:
بدگمانی اور وسوسہ سے متعلق احادیث کا مقصد اللہ سے التجا کرنا ، یادِالٰہی میں مشغول ہوجانا ، وسوسہ کے قبح کو پیش نظر کر لینا اور شیاطین کو بہ نظر ذِلت دیکھنا ، انسان کی توجہ کو خدائے پاک کی جانب پھیر دیتے ہیں اور وسوسہ کا اثر رُک جاتا ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں: وسوسہ اور بدگمانی کا پہلا درجہ انسان کافر ہوجائے ۔دوسرا درجہ مختلف اقوام اور طبقات کے درمیان انتشار پیدا ہوجائے۔تیسرا درجہ خیال اور سوچ کا درجہ ہوتا ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی تقسیم کے مطابق توہم پرستی یا وسوسہ پیدا ہونے کی وَجہ یہی تیسری قسم ہے جو انسان کے دل میں شر کا باعث بنتی ہے۔
آج المیہ یہ بھی ہے کہ عصرحاضر کے معاشرے میں لوگوں کے اندر سے حسنِ ظن جیسی اخلاقیات ناپید ہوتی جارہی ہیں۔ لوگوں کا روزمرہ کا تعامل بھی اس کی وَجہ ہے۔ تقریباً ہر ایک فرد دھوکے کا سامنا کرتا ہے۔ انتہائی کم لوگ جو قابلِ اعتماد ہیں، یعنی اعتماد کے لیے ہمیں دلیل اور آزمائش کی حاجت ہوتی ہے ۔ جب کہ معاملہ اس کے برعکس ہونا چاہیے تھا کہ زندگی کا نارمل اور غالب پہلو اعتماد ہوتاہے، مگر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ بےاعتمادی ، فریب اور جھوٹ اس معاشرے کا غالب پہلو بن چکے ہیں ۔ عموماً لوگوں کے ہاں تصور ہے کہ کامیابی کے لیے لازم ہے کہ کسی پر اعتماد نہ کیا جائے اور جھوٹ بولا جائے، اگر اعتماد اور سچائی کا خُلق آج کے دور میں اپنایا جائے تو ناکامی مقدر بنے گی۔
اس توہم پرست ، بےاعتمادی اور جھوٹ کے معاشرے میں ہمیں شیطانی بدگمانیوں ، وسوسوں اور توہمات سے دور رہنا اور حسنِ ظن کی فکر کو عام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ معاشرہ درست سمت میں سفر کر سکے اور لوگوں کی زندگی سے توہمانہ افکار کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکے۔ اگر کوئی شیطانی سوچ ذہن میں آئے تو اللہ کی پناہ طلب کرنا، جس کا حکم قرآن میں آیا ہے۔
"اگر آپ کو کوئی شیطانی وسوسہ دل میں آنے لگے تو اللہ کی پناہ لیجئے ، بےشک وہ سمیع و علیم ہے"۔ (سورۃ فصلت )