ہمارا فرسودہ عدالتی ڈھانچہ اور اس سے گلو خلاصی کا طریقہ کار
جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے والا طبقہ جو خوشنما نماؤں جیسے عدلیہ یا عدالتی نظام نے غریب عوام کو دلدل میں دھکیل دیا ہے۔
ہمارا فرسودہ عدالتی ڈھانچہ اور اس سے گلو خلاصی کا طریقہ کار
تحریر: خالد محمد ایمان۔ بنوں
موجودہ عدالتی نظام اور اس کی کارگردگی کو سمجھنے کے لیے ایک حکایت کافی ہے، جس کے مطابق ایک وکیل صاحب نے ساری عمر وکالت کرتے گزاری۔ جب بڑی عمر کے پیش نظر وکالت سے دست برداری اختیار کی تو اپنے سارے مقدمات اپنے بیٹے کو دیے جو کہ اَب خود بھی ایک نامور وکیل بن چکا تھا۔ چند ماہ بعد بیٹے نے ایک مقدمے کی فائل والد کے سامنے پیش کی اور کہا کہ آپ ساری عمر یہ مقدمہ لڑتے رہے، مگر مقدمہ نہ جیت سکے اور میں نے چھ ماہ میں ہی یہ مقدمہ جیت لیا۔ والد نے ایک اچٹتی ہوئی نظر فائل پر ڈالی اور دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگئے۔
بیٹے کو بہت غصہ آیا تو اس نے کہا اگر آپ اپنی ناکامی کا اعتراف نہیں کر سکتے تو کم از کم مجھے میری کامیابی پر مبارک باد تو دے ہی سکتے ہیں۔ والد نے سر اٹھا کر بیٹے کی طرف دیکھا اور کہا "تم بیوقوف ہو"۔ تم سب بھائی بہنوں کو میں نے اس مقدمے سے پڑھایا لکھایا اور میں نے یہ مقدمہ تمھیں تمھارے بچوں کے لیے دیا تھا اور تم نے خود ہی اپنی آمدنی کا ذریعہ بند کردیا تو بتاؤ میں تمھیں بیوقوف نہ کہوں تو پھر کیا کہوں!
یہ واقعہ ہمارے معاشرے میں افراد کا انصاف کی حصول کے لیے در بدر ٹھوکریں کھانے والے عدالتی فرسودہ ڈھانچے پر 100 فی صد فٹ نظر آتا ہے۔ جب کوئی سائل انصاف کے حصول کے لیے وکیل کے ذریعے عدالت کا رخ کرتے ہیں تو وہی وکیل مخالف وکیل کے ساتھ سازباز کرتا ہے، تاکہ سائل کو انصاف تو درکنار اس کو لٹکائے رکھنے کے نت نئے طریقے ڈھونڈے جاتے ہیں۔ چوں کہ آج کل ٹیکنالوجی کے ذریعے رابطے کرنے کے آسان و محفوظ طریقے موجود ہیں۔ لہذا کوئی بھی وکیل کو یہ کہہ کر بلیم نہیں کرسکتا کہ آپ میرے مخالف وکیل کے ساتھ رابطے یا خفیہ رابطے میں کیوں ہو؟ اس لیے چھوٹے سے چھوٹا مقدمہ سالوں سال تک زیر سماعت رہتا ہے،جس سے سائل کو بے تحاشا مالی و ذہنی کوفت اُٹھانا پڑتی ہے اور اس کے بعد وہی فیصلہ زیرسماعت عدالت سے اوپر درجے کے عدالتی دفتر میں چلا جاتا ہے۔ جہاں اکثر نیچے عدالت کے فیصلوں کے خلاف فیصلے آجاتے ہیں۔ پھر اس سے اوپر عدالت اور یہ سلسلہ تقریباً ساری عمر چلتا رہتا ہے۔
ایک انگریزی محاورے کا ترجمہ ہے: دیر سے حاصل ہوا انصاف، انصاف نہیں ہوتا، بلکہ انصاف کے خلاف ہوتا ہے۔
اس لیے ہمارے معاشرے میں اس فرسودہ عدالتی ڈھانچے سے انصاف کا حصول ایک ناسور بن چکا ہے، جس سے معاشرے میں سماجی،جسمانی، ذہنی اور اخلاقی پستی سرائیت کرگئی ہے اور خوش حال معاشرے کی چہرے کو بدصورت کرنے کی ایک بنیادی وَجہ انصاف کے حصول کے بجائے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے والے بد ترین دھندے نے لے رکھی ہے،جسے ہم وکالت یا عدالتی نظام کے خوش نما نام سے جانتے ہیں۔ معاشرے کے غریب طبقے سے براہِ راست منسلک، اس جھوٹے اور فرسودہ عدالتی نظام کی جگہ ایک سستا اور فوری عدل و انصاف کی فراہمی والے سسٹم کے قیام کے لیے جدوجہد کی ضرورت ہے۔
موجودہ نظام کی اس اجتماعی خرابی کو اِنفرادی طور پر تو ٹھیک کرنا محال ہے،لیکن اجتماعی مرض کو ٹھیک کرنے کے لیے جماعت سازی کے ذریعے ایک بنیادی ذہنی، فکری و اخلاقی اور روحانی اقدار سے لیس اور مفادات سے بالاتر صرف رضائے الٰہی کے لیے جماعت تیار کرنا فرض ہے، جس کے اندر "الخلق عیال اللہ"پوری خلقت اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے۔ کی سوچ پر مبنی انسانیت کی فلاح کے لیے اللہ تعالیٰ کا نائب بن کر خوفِ خدا کی بنیاد پر تیاری ہو۔ تاکہ وہ مجموعی طور پر ایک صالح قومی معاشرے کی بنیاد رکھنے کے لیے اپنا ٹھوس کردار ادا کرسکیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ معاشرے میں باشعور نوجوانوں تک رسائی ممکن بنا کر انھیں موجودہ نظام کی نالائقی،فرسودگی اور عیاری و مکاری سمجھائی جائے اور ساتھ ساتھ با شعور نوجوانوں کو خدمت خلق کی اساس پر جمع کرکے ایک مربوط نظام کے تحت تربیت دی جائے۔ تاکہ وہ سیرت نبوی ﷺ کے کردار پر موجودہ معاشرے کی جملہ امراض سمیت مقننہ، انتظامیہ اور عدالتی نظام کا بھی مکمل علاج کر سکیں،جس سے قومی صالح سماجی تبدیلی کے ذریعے ایک صالح و دیرپا عدل و انصاف فراہم کرنے والا مربوط نظام رائج کرنے کا خواب پورا ہو جائے گا۔ کیوں کہ غلط نظام برے نتائج پیدا کرتا ہے۔
اس لیے آج ضرورت اس امر کی ہے کہ باشعور نوجوانوں کی بہترین تربیت ہو، جس کے نتیجے میں مکمل قربانی کے ساتھ اس نظریے پر جماعت کی قیام اورصالح نظریات کی اساس پر ایک عادلانہ نظام کے قیام کی ضروت کو پورا کریں۔