عورت کی صحت کےمسائل اور ان کا حل
ہمارے معاشرے میں عورت وقت سے پہلے کیوں بوڑھی ہو جاتی ہے؟اس صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟ …ہمارا معاشرہ، رائج نظام؟ مرد؟ یا عورت کی جسمانی ساخت؟
عورت کی صحت کےمسائل اور ان کا حل
تحریر؛ اصغر خان سورانی- بنوں
اگر ہمارے معاشرے میں عورتوں کی ظاہری ، جسمانی اور نفسیاتی حالت کامطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ شادی کے چند سال بعد خاص طور پر بچوں کی ماں بننے کے بعد عورت کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوناشروع ہوجاتے ہیں۔کمزوری اور نقاہت سے طبیعت مستقل مضمحل رہنےلگتی ہے۔ اس صورتِ حال کے اسباب کیا ہیں ؟ …ہمارا معاشرہ؟ مرد یا عورت کی جسمانی ساخت؟
اس صورت حال کے کئی عوامل ہو سکتے ہیں، جن میں سے کچھ حیاتیاتی، سماجی اور نفسیاتی ہیں۔
حیاتیاتی عوامل
حیاتیاتی عوامل تقریباً پوری دنیا میں یکساں نوعیت کے ہوتے ہیں مثلاً ہارمونز، جینیات اورعورتوں میں تولید کا عمل شامل ہیں۔ خواتین میں ایسے ہارمونز ہوتے ہیں جو انڈوں کی پیداوار کو کنٹرول کرتے ہیں۔ جیسے جیسے عورت کی عمر بڑھتی ہے، اس کے جسم میں ان ہارمون کی مقدار کم ہوتی جاتی ہے، جس سے انڈوں کی پیداوار بھی کم ہوجاتی ہے۔ اس سے عورت کا ماہواری کا چکر بےترتیب ہوسکتا ہے اور آخر کار ختم ہونے کا باعث بن سکتا ہے۔اس دور کےآنےکے بعد خواتین کو موڈ میں تبدیلیوں اور نیند کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ وہ علامات ہیں،جس سے خواتین خود کو تھکی ہوئی اور بوڑھی محسوس کرتی ہیں۔
خواتین کو گھریلو امور اور بچوں کی دیکھ بھال پر توجہ مرکوز رکھنی ہوتی ہے ۔اس کے ساتھ سرمایہ دارانہ اور استحصالی نظام کی وَجہ سے ہر خاندان معاشی دباؤ کا شکار ہےتو معاشی آسودگی کےلیےاکثر مرد اور عورت دونوں کو عموما گھرسےباہر کام کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے صورت حال مزید تھکا دینے والی اور تناؤ سے بھرپور ہوگئی ہے۔
مرد اور عورت دونوں کا دائرہ کار مختلف ہے۔ گھر کا نظام عورت کے ذمہ ہے، کیوں کہ اس کی ذہنی ساخت چیزوں کو باریک بینی سے دیکھنے کی ہے اور مرد کے ذمے مشکل، بڑے اور باہر کے کام ہوتے ہیں۔ اس کا ذہن وسیع ہوتا ہے، لیکن اکثر اوقات اس کی نظر چھوٹی چھوٹی نزاکتوں پر نہیں جاتی۔ہمارے خطے میں صدیوں سے مشترکہ خاندانی نظام رائج ہے،جس میں ہر فرد کا اپنا دائرہ کار اور اپنی اہمیت ہے۔ ہم اگر تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو ہر فرد چاہے وہ مرد ہو یا عورت ان سے ہر معاملے میں مشاورت کی جاتی تھی۔ جس سے ان میں فیصلہ کرنے کی بہتر صلاحیت پیدا ہوتی تھی۔ اور بچے گھر کے بڑوں کو دیکھ کر تربیت حاصل کرتے تھے۔ ہر طرح کے معاملات خواہ وہ مالی ہوں۔ گھریلو ہوں یا رشتہ اور شادی بیاہ کے معاملات ہوں ان کو باہمی رضامندی اور افہام و تفہیم سے حل کیا جاتا تھا۔ لیکن جیسے سرمایہ داری نظام نے ہماری سیاست اور معیشت کو تباہ و برباد کیا، اسی طرح میڈیا اور ٹی وی چینلز کے ڈراموں کے ذریعے ہمارے خاندانی نظام کو بھی برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ بہو کو ساس، ساس کو بہو سے لڑایا گیا، بیٹی کو باپ اور باپ کو بیٹی کے خلاف کیا گیا۔ بھائی بہن کے رشتے میں دراڑ پیدا کی گئی اور شوہر اور بیوی میں اعتماد کے رشتے کو شکوک و شبہات کی آمیزش سے گدلا کیا جارہا ہے ،جس کی وَجہ سے عورت میں تعیش پسندی کے ساتھ ساتھ خاندانی نظام کے خلاف بغاوت کے جذبات ابھرنے شروع ہوگئے۔ جو کہ شدید ذہنی تناؤ اور نفسیاتی دباؤ کا باعث ہے اور اس کا منفی اثر جسمانی اور ذہنی صحت کے ساتھ ساتھ شخصیت پر بھی پڑتا ہے۔
سماجی اور گھریلو زندگی اگر موزوں نہ ہو تو خواتین میں کئی ایک نفسیاتی مسائل جنم لیتے ہیں۔ یہ نفسیاتی عوامل بھی عورتوں کی عمر بڑھنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ صنفی امتیازی سلوک اور تعصب کا سامنا کرنے سے خواتین میں تناؤ، اضطراب اور افسردگی کا تناسب بڑھ جاتا ہے۔ یہ منفی جذبات خواتین کی صحت اور ظاہری شکل و صورت پر اثر ڈال دیتے ہیں۔ سماج کے لامتناہی اَلمیوں میں سے ایک اَلمیہ یہ بھی ہے کہ عورتوں کو صرف صنفی مسائل تک ہی محدود سمجھا جاتا ہے۔لیکن ایک عورت کے جذبات کیا ہیں؟ وہ کیا محسوس کرتی ہے۔ اس کی نفسیات کیا ہیں ؟ وغیرہ اور ان چیزوں سے وابستہ مسائل و ضروریات کو ان کے مسائل میں شامل نہیں کیاجاتا۔ اسی کے ساتھ آج کل میڈیا تعیشات کو ضروریات بنا کر پیش کرتا ہے تاکہ کمپنیوں کا مال بیچا جاسکے۔ اس کی وَجہ سے ترجیحات کا بدلنا، توقعات کا بڑھنا ایک فطری عمل ہے، لیکن جب وہ پوری نہ ہوسکیں تو اس کا بھی نفسیات پر گہرا اثر پڑتا ہے۔
یہ وہ حیاتیاتی ، سماجی اور نفسیاتی عوامل ہیں، جن کی وَجہ سے اکثر خواتین عمر کے پہلے حصے میں بوڑھی ہوجاتی ہیں یا بوڑھی نظر آنے لگتی ہیں۔
آئیے! اَب دیکھتے ہیں کہ ان مسائل کا تدارک کیسے کیا جاسکتا ہے۔ مندرجہ ذیل کچھ امور ہیں جو خواتین اپنی عمر بڑھنے کے ساتھ اپنی شخصیت اور عمدہ اخلاق کو قائم رکھنے کے لیے اختیار کرسکتی ہیں:
* صحت کا خیال رکھیں اور جہاں تک ممکن ہو، متوازن غذا کھائیں اور باقاعدگی سے ورزش کریں۔
* نیند پوری کرنے کی کوشش کریں۔
* ذہنی تناؤ کو ختم کرنے کے لیے اپنے آپ کو مثبت سرگرمیوں میں مشغول رکھیں۔
*عبادات کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے قربت بڑھائیں اور مخلوق خدا کی بے لوث خدمت کریں۔
* باقاعدگی سے صحت کا معائنہ کرائیں۔
* اپنے آپ سے پیار کریں اور اپنے آپ کی قدر کریں۔یہ صحت اور مال و دولت امانت کے اصول پر آپ کے حوالے ہیں، غلبہ دین کے کاموں میں اسے خرچ کریں۔
* گھریلو امور کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر کریں، بوجھ نہ سمجھیں۔
سماج میں اور گھر میں مردوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ مختلف امور میں خواتین کی مدد کریں، تاکہ وہ صحت مند اور تندرست رہیں۔ مردوں کو چاہیے کہ وہ:
* گھریلو کاموں اور بچوں کی دیکھ بھال میں خواتین کی مدد کریں۔
* خواتین کی حوصلہ افزائی کریں اوران کی جائز خواہشات کو پورا کریں۔
* خواتین کے احترام اور عزت کاخیال رکھں۔
* صنفی حقوق کی فراہمی کی حمایت کریں۔
اس سے بھی اہم ذمہ داری ملک میں رائج نظام پر عائد ہوتی ہے کہ وہ خواتین کے حقوق کے لیے ، ان کے جسمانی، نفسیاتی اور عائلی زندگی کے لیے اقدامات کرے ۔ اور ایسے قوانین کو نافذ کریں، جن سے عورت ذات کو حقیقی فائدہ ملے اور ان کو باشعور بنانے کے لیے سکول، کالج اور یونیورسٹی لیول پر نصاب میں ایسا مواد شامل کیا جائےجن کو پڑھ کر وہ زندگی کے ہر شعبہ میں اپنے جائز حقوق کی پہچان کرسکیں اور ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے ازالے کے راستہ کا تعین موجود ہو۔اس کے لیے ایک ایسے معاشرےکی تشکیل کی ضرورت ہے جہاں خواتین کو صحت مند، خوش اور پُر اعتماد زندگی گزارنے کے مواقع میسر ہوں-
دانا عورت ، مرد سے "آزادی" نہیں، بلکہ اس کے ساتھ "جینا" چاہتی ہے۔ تو مردوں کو چاہیے ہے کہ وہ خواتین کی "جائز" ضروریات کی فراہمی کا خیال رکھیں تاکہ عورت کو صحت مند زندگی گزارنے کےاسباب میسر آسکیں- اس کے لیے ضروری ہے کہ مرد، معاشرہ ، اور نظام خواتین کےصنفی حقوق کاخیال رکھیں۔