معاشرے میں بھکاریوں کی بڑھتی تعداد
یہ مضمون پاکستان کے بھیک مانگنے کے نظام کو ظاہر کرتا ہے۔ بھکاری نظام کی بنیادی وجوہات کا تجزیہ کرنے کے لیے کہ یہ کیسے کام کرتا ہے اور کتنا کماتا ہے۔
معاشرے میں بھکاریوں کی بڑھتی تعداد
تحریر؛ اسداللہ مہیسر، خیرپور میرس
دی پرنٹ نیوز نے 2024ء میں رپورٹ کیا ہے کہ 4 لاکھ سے زیادہ بھکاری محض رمضان کے مقدس مہینے میں اندرونِ ملک سے کراچی منتقل ہوئے۔ بھکاری نظام، ملک کے اندر ایک ایسا رجحان ہے، جس کی سماجی اور ثقافتی طور پر جڑیں گہری ہیں۔یہ نہ صرف ملک کی معاشی عدم مساوات اور ناکارہ نظام ہی کی عکاسی نہیں کرتا، بلکہ سماجی بہبود اور شہری انتظامیہ کے لیے بھی اہم چیلنجز کا باعث ہے۔
جنوبی ایشیائی معاشروں میں بھیک مانگنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ایسے معاشرے جہاں پر متوازن معاشی نظام ناپید ہو،وہاں جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور لوگ معاشی محنت کے بجائےلوگوں سے بھیک مانگنے کا آسان طریقہ اختیار کرتے ہیں۔قبل از اسلام اور اسلامی ثقافتوں میں خیرات کو ایک نیک عمل کے طور پر دیکھا جاتا تھا اور امداد کرنے والے لوگ مخفی طور پر اور بغیر کسی کی عزتِ نفس مجروح کرنے کے خیرات دیتے اور لینے والے بھی اپنی کمزوری کی وَجہ سے اس کو لینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرتے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اور نظام غلامی کی وَجہ سےبھیک مانگنے کا یہ عمل اَب ایک وسیع سماجی اقتصادی مسئلہ بن گیا ہے۔ کئی دہائیوں کے دوران تیزی سے سرمایہ پرست معاشی نظام کی نحوست و جبر اور معاشی چیلنجز نے پاکستان میں بھیک کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔اَب یہ غربا کی ضرورت اور انسانی ہمدردی کے بجائے ایک پیشہ بن گیا ہے۔بڑے شہروں میں بھکاریوں کا باقاعدہ نظام اور ان کا ایک نیٹ ورک وجود میں آچکا ہے اور اس کے پیچھے رپورٹس کے مطابق ملک کی اشرافیہ کا مضبوط ہاتھ موجود ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق پاکستان کی 245 ملین آبادی میں سے ایک اندازے کے مطابق 38 ملین بھکاری ہیں۔ کراچی میں اوسطاً ایک بھکاری روزانہ تقریباً 2000 روپے اکٹھا کرتا ہے، جب کہ لاہور میں 1400 روپے اور اسلام آباد میں 950 روپے۔ قومی یومیہ اوسط 850 روپے فی بھکاری ہے۔ ایک اور حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ بھکاری عوام کی جیبوں سے خیراتی عطیات کے نام پر اجتماعی طور پر روزانہ 32 ارب روپے نکالتے ہیں۔ یہ چونکا دینے والی 117 ٹریلین روپے سالانہ ہے، جو تقریباً 42 بلین امریکی ڈالر بنتے ہیں۔ مزیدبرآں، پاکستان کی اوورسیز وزارت نے اطلاع دی ہے کہ بھکاریوں کی ایک بڑی تعداد بیرونِ ملک منتقل ہو رہی ہے۔ 2023ء میں بیرونِ ممالک سے گرفتار کیے گئے بھکاریوں میں سے 90 فی صد پاکستانی نژاد تھے۔
پاکستان کے اقتصادی سروے24- 2023ءنے رپورٹ کیا ہے کہ پاکستان میں 2024ء میں بے روزگاری کی شرح 6.3 فی صد ہے، جس میں بے روزگاری کی آبادی 4.51 ملین ہے جو کہ نمایاں طور پر زیادہ ہے۔ مزیدبرآں پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (پی بی سی) نے مئی 2024ء میں رپورٹ کیا کہ افراط زر کی شرح 11.8 فی صد سے زیادہ ہو گئی، تاہم یہ صرف دستاویزی ہے، لیکن حقیقی اعداد و شمار بہت زیادہ ہیں۔ اسی طرح یہ تناسب 2023ء میں سب سے زیادہ 29.18 فی صد ریکارڈ کیا گیا تھا، جس نے بہت سے گھرانوں کے لیے زندہ رہنا مشکل بنا دیا تھا۔ یہ معاشی حالات ملک میں بھکاری نظام کو بڑھانے کے لیے زرخیز بنیاد فراہم کرتے ہیں۔
2021ءمیں پنجاب حکومت کی طرف سے کرائے گئے ایک سروے کے مطابق صرف لاہور میں 10,000 سے زیادہ بھکاری موجود ہیں، اسی طرح کی تعداد دوسرے بڑے شہروں میں بھی ہے۔ یہ معلومات اس مسئلے کی وسیع رسائی کو نمایاں کرتا ہے، جس سے نہ صرف براہِ راست ملوث افراد، بلکہ وسیع تر شہری آبادی بھی متاثر ہوتی ہے۔
بھکاری نظام شہری انتظام اور منصوبہ بندی کو پیچیدہ بناتا ہے۔ عوامی مقامات جیسے پارکس، بازار، مساجد، مزارات، اور نقل و حمل کے مراکز اکثر بھکاریوں کے لیے کشیدہ جگہ بن جاتے ہیں، جو ان علاقوں کی افادیت اور کشش کو متاثر کرتے ہیں۔ بھیک مانگنا اَب ایک پیشہ بن چکا ہے، جس کے پیچھے دور تک ایک باقاعدہ نظام وجود میں آچکا ہے، جس کے نتیجے میں مستحق بھکاری مزید پس ماندہ ہو جاتے ہیں۔ اشرافیائی ہاتھوں کی موجودگی انھیں معاشرے میں ضم کرنے اور ان کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کی کوششوں میں رکاوٹ بنتی ہے، جب کہ بھکاری خود معیشت پر کوئی خاص دباؤ نہیں ڈالتے۔ مزیدبرآں منظم بھیک مانگنے والے گروہوں کی موجودگی انھیں ممکنہ اقتصادی شراکت اور پیداواری سرگرمیوں سے ہٹا دیتی ہے۔
حکومتی اور غیرسرکاری تنظیموں (این جی اوز) کی جانب سے بھکاریوں سے نمٹنے کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے ہیں۔ پاکستان بیت المال کا قیام 1992ء میں مختلف اقدامات کے ذریعے غربت کے خاتمے کے لیے کیا گیا تھا، جس میں بے سہارا، بیواؤں، یتیموں، معذور افراد اور معاشرے کے دیگر کمزور افراد کو مدد فراہم کرنا شامل ہے۔ پنجاب ویگرنسی آرڈیننس (1958ء) اور سندھ چلڈرن ایکٹ (1955ء) جیسے قوانین موجود ہیں، لیکن ان کا نفاذ ناپید ہے۔ بے ایمانی، بدعنوانی اور وسائل کی کمی اس طرح کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے موثر نفاذ میں رکاوٹ ہے۔ پنجاب میں، حکومت نے "چائلڈ پروٹیکشن بیورو" قائم کیا ہے، تاکہ بھکاری بچوں کو بچایا جا سکے اور انھیں تعلیم اور نفسیاتی مدد فراہم کی جا سکے۔ یہ ادارے بچوں کا استحصال کرنے والی بھیک مانگنے والی تنظیموں کو ختم کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں،لیکن نتیجہ یہ ہے کہ بھکاری بڑھتے ہی جا رہےہیں۔
اسی طرح حکومت نے بحالی مراکز اور پیشہ وارانہ تربیت کے پروگرام قائم کیے ہیں، جن کا مقصد بھکاریوں کو معاشرے میں دوبارہ شامل کرنا ہے۔ تاہم ناکافی وسائل، ناقص انتظامیہ اور طاقت ور مافیاز کی وَجہ سے یہ کوششیں اکثر ناکام ہوجاتی ہیں۔ مزیدبرآں متعدد این جی اوز بھکاریوں کو خوراک، رہائش، تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے کے لیے کام کرتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے معاشرے سے بھکاری نظام کی لعنت کو ختم کرنے میں ناکام ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ ریاست معاشرے سے ایسی لعنت کو ختم کرنے کا سنجیدہ نظر نہیں آتی-
ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ایک کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے، جیسے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیت اور سالمیت کو بڑھانا، تاکہ بھیک مانگنے کے منظم نیٹ ورکس کو ختم کیا جا سکے اور موجودہ قوانین کو نافذ کیا جا سکے۔ بے روزگاری اور افراط زر کو کم کرنے کے لیے پالیسیوں کو نافذ کرنا اور کمزور آبادی کی مدد کے لیے سماجی تحفظ کے فوائد کو بڑھانا۔ بحالی کے پروگراموں کے لیے مزید وسائل مختص کرنا اور ان کے مناسب انتظام اور جواب دہی کو یقینی بنانا،لیکن یہ سارے اقدامات اس وقت قابل عمل ہوتے ہیں۔ جب ریاستی نظام انسان دوست فکر پر تشکیل یافتہ ہو اور حکومتی ڈھانچہ خوددار، غیرت مند، اعلیٰ اخلاق سے متصف، بے غرض ومخلص، ذمہ دار اور خدا ترس افراد پر مشتمل ہو۔