سورما کا انتظار
معاشرے میں موجود شخصیت پرستی اور ہیروازم کا انکار
سورما کا انتظار
تحریر: محمد رضوان غنی آزاد ۔ میرپور آزاد کشمیر
کہانی یا داستان انسان کے ساتھ ساتھ وجود میں آئے۔ کہانی کہنے کی باتیں اور داستان خیالی کرداروں کا مجموعہ ہے۔ یہ سب ایک زمانہ وقت گزاری ، اخلاق و اقدار کی ترویج و اشاعت اور اپنے بزرگوں کی باتیں اگلی نسل تک منتقل کرنے کے کام آتی رہیں اور یوں یہ بزرگ ہر اس نسل کے لیے سرمایہ افتخار بنتے چلے گئے جو ان کی اندھی عقیدت میں مبتلا عمل سے عاری اور محنت سے فرار کی عادی تھی ۔سیاسی عدم استحکام اور معاشی بربادی کے باعث عام عوام اور ہنرمند طبقے نئے آنے والے سے اُمیدیں باندھتے چلے آئے ہیں۔ وہ اس حکمراں یا نظام کی بنیادی حرکیات یا بناوٹ سے واقف نہیں ہوتے تھے،اسی لیے وہ کسی فرد میں اپنی نجات تلاش کرتے اور اس کے انتظار میں اپنی اُمیدیں باندھتے چلے آئے ہیں ۔ جب کہ کسی معاشرے کی بنیاد کا پتھر اس معاشرے کے محنت کش ہوتے ہیں ۔لیکن وہ دو وقت کی روٹی کے علاوہ کسی بات سے دلچسپی رکھنا، غیرضروری سمجھتے ہیں اور حکمراں نظام بھی یہی چاہتا ہے ۔اَب اگر ہم موجودہ عہد کا جائزہ لیں تو یہ سوچ عوامی انقلابات کے اس زمانے میں بھی موجود ہے ۔یہ زمانہ نشریات یعنی میڈیا کا عہد ہے جو اخبار ریڈیو، ٹی وی سے لے کر سوشل میڈیا تک سورما یا نئے نئے ہیروز کی تیاری اور مقبولیت کا زمانہ کہلاتا ہے ۔ہر زمانے میں دولت کمانا، ہنر قرار پایا تو اس کے لیے لازم تھا کہ شہرت و دولت کے لیے شاعر شاعری کریں اور خوشامد کے ہنر سے واقف ہوں، قصیدے لکھیں یا کم ازکم حکمرانوں کے عمل اور کردار سے لاتعلق رہیں ۔ برعظیم ہند و پاک میں جب سیاسی اور معاشی زوال کا آغاز ہو ا، اچھے دور کے نشانات اور اس کی یادیں عوام کے ذہنوں میں سے کھرچنے کے لیے اور ان کے ذہن میں انگریز کی طاقت شان اور مرعوبیت کو ہمہ جہت انداز سے تعلیم،پروپیگنڈا اور دیگر ذرائع سے فروغ دیا گیا ۔ نظم و نثر میں لکھنے والوں نے ماضی کے واقعات اور کارناموں کو بیان کیا اور کچھ نے شخصیات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا، یعنی فرد کو اجتماعیت کے مقابلے پر پیش کیا۔ عوام کی کیفیت یہ ہوگئی کہ دو طبقے بن گئے، ایک وہ کہ اپنی ہر چیز بری اور دوسروں کی ہرچیز اچھی لگنے لگی اور ان کے غورو فکر کی صلاحیتیں قومی سوچ سے عاری ہوگئیں۔ دوسری جانب اس کے مقابلے پر ہر نئی چیز کے منفی اور تاریک پہلو دیکھنے کی روش چل پڑتی ہے ۔یہ پروپیگنڈا کا طریقہ ہوتا ہے کہ کسی قوم کو قومی سوچ سے دور کیسے رکھا جائے اور اس کے لیےنئے نئے ہیرو یا سورما تراشے جائیں اور وقتی واقعات کی بنیاد پر ان کے حامی اور مخالفین شدت کے سبب مایوس کن پروپیگنڈا کرنے والے چاہتے ہیں، عوام ایک نئے ہیرو کی تلاش میں یا انتظار میں مبتلا رہے ۔جب کہ تاریخ یہ بنیادی اُصول بیان کرتی ہے کہ ہر بڑے سورما کے پیچھے ایک نظریہ لائحہ عمل اور پروگرام ہوتا ہے اور عظمت آزاد ی کی مرہون منت ہوتی ہے اسی لیے قومیں سورما تراشنے کے بجائے آزادی کی حفاظت کا کام اپنی نسلوں کی تربیت کرکے اور ان میں اپنی تاریخ کا شعور پیدا کرکے لیتی ہیں ان میں آزادی سے سوچنے اور غورو فکر کی عادت پختہ کرتی اور یوں سورما یا ہیروز وجود پاتے ہیں ۔اسی لیے عہد موجود میں لازم ہے کہ ہم یہ یقین پیدا کریں کہ اپنے حصے کا کام کرنا، محنت کے نتیجے پر یقین رکھنا، مایوسی سے بچنا اور اپنے خاندان اور قوم قبیلے کی ہمت جتانا ہی آزادی کی جانب پہلا قدم ہے ۔انسانوں سے محبت کرنا، بڑوں کا ادب کرنا، عام انسانی اقدار کو فروغ دینا، خودغرضی اور لالچ سے پرہیز معمولی اور عام آدمی میں یہ ملکہ پیدا کرتا ہےکہ اس کے اردگرد کے لوگ زندگی سے پیار کرنے لگتے ہیں۔ ان میں حوصلہ اور ہمت پیدا ہوجاتی ہے،علم و ہنر والے بھی اپنی قوم اور ملک کے لیے سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔انبیا علیہم السلام کی جدوجہد ہمیں یہی سکھاتی ہے ۔انھی کے فیض سے اَب تک ایسے ہزاروں لاکھوں سورماؤں کی بدولت کہ وہ اپنے حصے کا کام کرجاتے ہیں اور جنھیں کوئی نہیں جانتا، پوری قوم دنیا کی نظروں میں سورما بن جاتی ہے اور قدرت والے کے ہاں دیر ضرور ہے اندھیر نہیں!