ناگہانی حادثات
عمدہ حکمت عملی اور حفاظتی تدابیر کو اختیار کر کے حادثات کو کم سے کم کرنا ممکن ہے
ناگہانی حادثات
تحریر۔ عابد درانی ، بہاول پور
حضرت انسان نے جیسے جیسے ترقی کی منازل طے کی ہیں زندگی میں سہولیات اور آسانیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔مگر اس کےساتھ ساتھ بہت سے ایسے مسائل اور پیچیدگیاں بھی پیدا چکی ہیں کہ جو شاید آج سے چالیس پچاس برس پہلے کے انسان کےلیے یقیناً حیرت انگیز ہوں گی ایسے ہی چند پیچیدہ اور تکلیف دہ مصیبتوں میں سے ایک حادثات ہیں۔
اس وقت ہم سائنسی ترقی کے اس دور میں ہیں کہ جہاں ہمیں سڑک ، ریلوے، بحری ( کشتیوں وغیرہ) حتی ٰ کہ ہوائی سفر کی سہولیات تو دستیاب ہیں مگران میں سے کوئی بھی محفوظ ترنہیں ہے۔آۓ دن مختلف قسم کے حادثات اور ان میں انسانی جانوں کے بے پناہ نقصانات کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ اس امر کی شدت یوں بھی جانی جا سکتی ہے کہ محض سال 2018 میں پاکستان میں ٹریفک حادثات میں سرکاری اعدادوشمار کہ حساب سے 36000 انسان لقمہ اجل ہوئے۔
یہاں کچھ تجاویز عرض کرنا چاہتا ہوں، شاید کوئی سن کر اس پر کان دھرے اور اللہ کرے کسی ایک انسان کی بھی جان بچ پائے تو یہ بھی میرے لئےبڑی سعادت کی بات ہوگی۔
وطن عزیز میں عام سواری موٹرسائیکل ہے اور سب سے زیادہ جان لیوا بھی یہی ہے ایک اندازے کہ مطابق ٹریفک حادثات میں جان کی بازی ہارنے والوں کی اکثریت موٹرسائیکل سوار ہوتے ہیں اور ان موٹرسائیکل سواروں میں سے اکثریت سر پر لگنے والی چوٹ کا شکار ہوتے ہیں۔سر پر لگنے والی چوٹ عموماً فی الفور انسان کو موت کی منہ میں دھکیل دیتی ہے اور عموماً متاثرہ شخص کو ہسپتال لےجانے کا بھی موقع نہیں ملتا۔ اس مسئلہ کا سوائے ہیلمٹ کے کوئی حل نہیں ہے۔ تجربہ شاہد ہے کہ خواہ کتنا ہی ناقص ہیلمٹ کیوں نہ ہو حادثات کی صورت میں اس سے پہلے کہ انسانی سر زمین یا سڑک سے ٹکرانے سےہیلمٹ اس کو بچالیتا ہے اور جان بچ جاتی ہے اور خدانخواستہ سر کے علاوہ جسم کہ کسی بھی حصے پر چوٹ ہو جان کے بچ جانے کے امکانات بہرحال زیادہ ہوتے ہیں۔
اسی طرح گاڑی پر سفر کے دوران سیٹ بیلٹ کا استعمال اور رفتار کا کم ہونا بھی انسانی زندگی کو حادثات کی صورت میں بچانے میں مرکزی کردار ادا کر سکتا ہے۔اگر ہم پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کر رہے ہوں تو معاملات ہمارے ہاتھ میں تو نہیں ہوتے مگر کسی بے قاعدگی یا حد سے زیادہ رفتار کی صورت میں اس گاڑی کو چھوڑ دینا تو یقینا ہمارے اختیار میں ہوتا ہی ہے۔
پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی ریلوے یا ہوائی جہاز کے حادثات کی صورت میں تحقیقات کی جاتی ہیں مگر اس کٹھور(بے رحم) نظام کا باوا آدم اس معاملے میں بھی سب سے نرالا ہے۔یہاں آج تک تحقیقات خواہ کسی حادثہ کی ہوں یا کسی ملکی سانحہ کی، بالعموم ان کے نتائج اور آئندہ ایسی صورتحال سے بچنے کے حوالے سے کسی تجاویز کا عوام کو کبھی پتہ نہیں چلتا۔شاید یہ خبر حیرت انگیز ہو مگر یہ حقیقت ہے کہ اسی ملک میں ہماری مسلح افواج کا معیار اس حوالے سے قابل رشک ہے۔بالخصوص پاک فضائیہ کا کسی زمینی یا فضائی حادثہ کی صورت میں معاملات سے نمٹنا (Recovery) اور حادثہ کہ بعد اعلیٰ سطح پر تحقیقات کرنےکا ایک نہایت عمدہ نظام موجود ہے۔کسی بھی فضائی مستقر پر ہونے والے کسی بھی واقعے یا حادثہ کو سب سے پہلے رپورٹ کیا جاتا ہے۔فوری طور پر تحقیقات کے لیے کسی دوسرے مستقر سے ایک قابل آفیسر کو وہاں موقع پر بھجوایا جاتا ہے۔ان تحقیقات کہ دوران اس مخصوص جہاز کو الگ تھلگ کر دیا جاتا ہے اور اس کی تمام فائلز کو سربمہر اس آفیسر کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔
تحقیقات کی تکمیل پر وہ ٹیم حادثہ کی وجوہات کہ ساتھ ساتھ آئندہ ایسے حالات سے بچنے کی تجاویز بھی فراہم کرتی ہے۔ان وجوہات کی بنیاد پر ائرہیڈکوارٹر فیصلہ کرتا ہے کہ یہ حادثہ مشین کی خرابی کی وجہ سے ہے یا انسانی کوتاہی کا نتیجہ ہے۔اگر تو وجہ مشینی خرابی ہے تو اسی وقت باقی تمام جہازوں پر اسی حوالے سے انسپیکشن کروا کہ تسلی کر لی جاتی ہے کہ خدانخواستہ یہی مسئلہ بقیہ جہازوں میں تو نہیں۔ساتھ ہی جہاز بنانے والی کمپنی سے رابطہ کر کے متعلقہ خامی کے حوالے سے تکنیکی رہنمائی لی جاتی ہے۔
انسانی کوتاہی یا تو مجرمانہ ذہنیت پر مبنی ہوتی یا اس کارکن کے عدم تربیت یافتہ ہونے کی وجہ سے۔ اگر ذہنیت مجرمانہ ثابت ہو تو انضباطی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے اور دوسری صورت میں تمام کام کرنے والوں کو تربیتی پروگرام سے گزار کر کام کرنے کے لائق بنایا جاتا ہے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا عوامل میں ایسا کون سا عمل ہے جو ریلوے کی انتظامیہ نہیں کر سکتی۔
اپنی زندگی میں بلامبالغہ بیسیوں ایسے ریلوے کے حادثات دیکھنے کو ملے کہ جن میں کانٹا غلط بدلا گیا اور ٹرین دوسری ٹرین سے ٹکرا گئی، حادثات میں جان بحق ہونے والے بس مختلف نظر آتے ہیں مگر حادثات کی وجہ اور پیٹرن ہمیشہ ایک جیسا ہی رہا ہے۔
بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس نظام کو ایسے حادثات کی صورت میں پسماندگان کی تشفی کےلیے رقومات کا اعلان کرنے کے علاوہ اور کوئی طریقہ سجھائی نہیں دیتا۔
اللہ سےدعا ہے کہ یہ چند گزارشات کسی نہ کسی طور کسی متعلقہ ذمہ دار تک پہنچیں اور اس کا ان گزارشات پر عمل کرنے کا ارادہ بھی بن جائے تو شاید آئندہ ایسے سانحات سے پاکستانی عوام بچ سکیں۔