قومی مستقبل اور چائلڈ لیبر کا بھیانک عفریت
استحصالی نظام میں بچے معاشی مجبوری، تعلیمی مواقع کی کمی اور بچوں کی مزدوری کے عام رواج کی وجہ سے استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔
قومی مستقبل اور چائلڈ لیبر کا بھیانک
عفریت
تحریر؛
حسنین خان۔ راولپنڈی
کسی بھی قوم کے بچے اس قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ لیکن جب انھیں
غربت، بھوک، ناانصافی اور مہنگائی کی بھینٹ چڑھا دیا جاۓ تو
یہ قیمتی اثاثہ ایک خطرناک شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس کی ایک بھیانک شکل چائلڈ لیبر
ہے۔ انٹرنیشنل لیبرآرگنائزیشن کی تعریف کے مطابق چائلڈ لیبر سے مراد "ہر وہ مشقت
ہے جو بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما کو نقصان پہنچاتی ہو اور انہیں ان کی فطری قابلیت
اور عظمت سے محروم رکھے"۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں
160 ملین بچے چائلڈ لیبر میں ملوث ہیں۔ جس میں سے 84 فیصد سے زائد چائلڈ لیبر
افریقہ اور ایشیاء میں پائی جاتی ہے۔ ادارہ شماریات پاکستان کی رپورٹ 2020-21 کے
مطابق پاکستان میں تقریباً 26 ملین بچے چائلڈ لیبر جیسی معاشی بیماری میں مبتلا
ہیں۔ لیکن حقیقی اعداد و شمار شاید اس سے بھی زیادہ ہیں۔ کیونکہ خیبر پختون خواہ
اور بلوچستان کے ایسے بہت سے علاقے ہیں جہاں تک رسائی میں دشواری کے باعث بچوں کی
مزدوری کو شامل نہیں کیا جاتا۔
قومی و بین الاقوامی سطح پر چائلڈ لیبر
کے خلاف قانون ہونے کے باوجود اس میں روز بروز اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جہاں یہ
نازک کلیاں اپنی تمام خواہشات اور حسرتوں کا گھلا گھونٹ کر چاۓ خانوں کے ڈھابوں سے لے کر کارخانوں، اینٹ کے بھٹوں، کھیتوں اور
بنگلوں کی زینت بن چکے ہیں۔ جہاں یہ ننھے پھول علم و فنون سیکھنے کی بجاۓ کبھی سگنلوں تو کبھی دوکانوں میں، کبھی گھروں میں تو کبھی
بھٹوں میں جی استاد، جی خالہ، جی میڈم کہتے ہوۓ ملیں
گے۔
کئی والدین وسائل کی عدم دستیابی کے باعث اپنے بچوں کو مختلف
ورکشاپس اور دوکانوں میں بٹھا دیتے ہیں۔ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کو افرادی
قوت میں شامل کرنے کے لیے مجبور کرنے والے عوامل میں کم آمدنی، والدین کی کم
تعلیم، زیادہ خاندانی افراد، خاندان کے سربراہ کی کم تنخواہ، بڑھتی ہوئی مہنگائی
اور سرمایہ دارانہ نظام کا ظالمانہ تسلط وغیرہ شامل ہے۔ ان میں بڑا عنصر سرمایہ
داری نظام ہے جس میں بڑی بڑی کمپنیوں کا مقصد زیادہ سے زیادہ منافع کا حصول ہوتا
ہے اور ہر ممکن طریقے سے اخراجات کم کرنے کی سعی ہوتی ہے۔ قطع نظر اس کے کہ اس سے
معیشت اور سماج پر کیا اثر نمودار ہو رہا۔ اَب چوں کہ ایک بالغ کے مقابلے میں بچوں
کو ملازم رکھنا قدرے سستا بھی ہے اور اپنے حقوق کے لیے مزاحمت بھی کم ہوتی ہے جس
کی وجہ سے ان کمپنیوں کے منافعوں میں واضح طور پر اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک تحقیق کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں چائلڈ
لیبر کے باعث 5.1 ٹریلین ڈالر کی لاگت میں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ یہی طریقہ سرمایہ
دار طبقہ افرادی قوت کی کمی سے نمٹنے کے لیے اختیار کرتا ہے۔ مارکیٹ کے تقاضوں کے
مطابق، فیکٹریوں میں کام کرنے کے لیے مزدوروں کو ترغیب دینے کے لیے اجرت میں اضافہ
کرنے کی بجائے، بہت سے سرمایہ دار سستی اور اب تک استعمال سے نا آشنا افرادی قوت
کے حصول کے لیے بچوں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ منافع کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے،
کاروباری سربراہان مزدوروں کی عمر کو ایک غیر اہم عنصر کے طور پر نظر انداز
کر کے ان کا استحصال کیا جاتا ہے.
بین الاقوامی سطح پر قانون اس طرح سے مرتب کیے گئے ہیں کہ یہ
چائلڈ لیبر کو مزید ابھار دے رہے ہیں۔ مثلا
(child labor deterrence act 1993) ایک
قانون سازی کا عمل تھا جس کی تجویز 13 مارچ 1993 میں کانگریسی ممبر جارج براؤن اور
سینیٹر ٹام ہارکن نے پیش کی تھی۔ اس قانون کا مقصد یہ تھا کہ امریکی منڈی میں ان
مصنوعات کی برآمد کو روکا جاۓ جو 15 سال سے کم عمر بچوں کی طرف سے تیار
کی گئی ہیں۔ درآمد کنندگان کے لیے لازم تھا کہ وہ ایک سرٹیفیکیٹ فراہم کریں جس میں
یہ تصدیق کی گئی ہو کہ درآمد شدہ شے بچوں کی مزدوری سے پاک ہے۔ تاہم تحقیق کرنے والوں
نے یہ مشاہدہ کیا کہ اس طرح کے قانون سے ترقی پذیر ممالک میں رہائش پذیر بچوں اور ان
کے خاندان کی فلاح و بہبود پر زیادہ خطرناک اثرات مرتب ہو رہے ہیں، یعنی ایک طرف
ان کی معیار زندگی کم کی گئی تو دوسری جانب بھیک مانگنے، مجرمانہ سرگرمیوں اور جسم
فروشی جیسے خطرناک کاموں میں دھکیل دیا گیا۔ مزید یہ کہ، صحیح معنوں میں ضروریات
زندگی نہ ملنے کے باعث زیادہ تر بچے کم خوراکی سرطان، خون کی کمی، تپ دق، اور سانس
کی بیماریوں میں مبتلا پاۓ جاتے ہیں۔ یہ صرف ایک سانحہ نہیں،
بلکہ دنیا کے سب سے کمزور بچوں کے خلاف کیا گیا ایک بھیانک جرم ہے۔ اس جرم کا اصل مجرم
سامراج اور سامراجى ممالک کا حکمران طبقہ ہے۔ اس کے علاوہ، مارکیٹ کا "غیر مرئی
ہاتھ" (Invisible
Hand) پورے ماحول میں تباہی مچا رہا ہے۔ یہ ان
کے روایتی طرز زندگی اور گزر بسر کرنے کے طریقے کو تباہ کر دیتا ہے۔ لوگ صرف
زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ 75 فیصد مزدور بچے اپنے
خاندانی کاروبار یا کھیت میں کام کرتے ہیں۔ اکثر معاملات میں، ان بچوں اور ان کے
خاندانوں کے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہوتا۔ انتہائی غربت کی وجہ سے، گھر کا ہر
دستیاب فرد گزر بسر کے لیے کام کرنے پر مجبور ہے، ورنہ پورا خاندان بھوکا مر جائے
گا۔ بدقسمتی سے سرمایہ دار طبقے کی دنیا بھر میں اربوں مزدوروں تک رسائی ہے جن کے
پاس اپنی محنت فروخت کرنے کی صلاحیت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ کروڑوں بچے،
جو کہ افرادی قوت کے سب سے سستے اور کمزور طبقے میں آتے ہیں، بھی اس میں شامل ہیں۔
عموماً یہ بات بہت عام پائی جاتی ہے کہ تعلیم کے ذریعے سے اس
بیماری کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے، مگر شاید اس استحصالی نظام میں یہ ہماری خام
خیالی ہے کیونکہ غربت میں انسان کو نہ شعور کی سوجھتی ہے یہ اخلاق کی، اور دوسری
طرف تعلیم یافتہ افراد کے لیے بھی یہ بہت عام سی بات ہےکہ وہ کم عمر بچوں کو اپنے
گھروں میں ملازم، باورچی، یا بچوں کی نگہداشت کے لیے رکھ لیتے ہیں۔ قومی سطح پر
قوانین کا محدود دائرہ کار، گھریلو لیبر کی مبہم نوعیت، قوانین سے متعلق متعلقہ
افسران کی لاعلمی اور رشوت خوری کی وجہ سے یہ ہمارے معاشرے کے لیے ایک ناسور بن
چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کل دنیا میں موجود دولت اتنی زیادہ ہے کہ اس سیارے پر
موجود 1.6 ارب بچوں میں سے ہر ایک کو ایک خوش حال بچپن دیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ
دولت بینکوں کے خزانوں میں، مالیاتی اداروں میں اور چند سرمایہ داروں کے ہاتھوں
میں جمع ہے۔ سرمایہ دار غربت اور مصیبت سے نمٹنے کی بجائے اپنی دولت کو فضائی سفر
کے اشتہاری سٹنٹ پر خرچ کرنا پسند کرتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ غربت کے خاتمے کے
لیے کچھ کام کریں ۔
آج کے نوجوانوں کے لیے ایک باعزت زندگی گزارنے کی واحد امید
یہ ہے کہ شعورسے اجاگر نوجوان سرمایہ داری کے انقلابی خاتمے اور معاشرے کی
تنظیم نو کے لیے لڑے- اب ہمیں ایک ایسی دنیا کی طرف جہدوجہد کرنی چائیے جہاں
انسان کو طبقاتی تقسیم نہ دیکھنے کو ملے، جہاں انسانیت کا راج ہو، جہاں ہر
بچے، مرد و عورت کو ترقی کے برابر مواقع میسر ہوں۔