اسلام اور سرمایہ داریت ؛ ایک مغالطہ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • اسلام اور سرمایہ داریت ؛ ایک مغالطہ

    اسلام ایک کامل اور مکمل نظامِ زندگی ہے، جس کا اپنا سیاسی، معاشی نظام اور سماجی تشکیل کا فکری و فلسفیانہ خاکہ موجود ہے۔ ...

    By Noor Wahab Published on Aug 11, 2025 Views 619

    اسلام اور سرمایہ داریت ؛ ایک مغالطہ

    تحریر ؛ نور وہاب، ہنگو 


    عہدحاضر میں مغربی طاقتوں کے عالمی غلبہ کے زیراَثر عوام اور مذہبی طبقے میں خصوصاً یہ پروپیگنڈا عام ہے کہ سرمایہ داریت اور اسلام کا معاشی نظام ایک ہی چیز ہے۔ ذیل میں اس مغالطے کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ 

    اسلام مکمل نظام حیات 

    اسلام کامل نظامِ زندگی ہے، اس کا اپنا سیاسی و معاشی نظام ہے جو دنیا میں تیرہ سو سال قائم رہا ہے۔ اس نظام میں انسانوں کے تمام بنیادی حقوق بلاتفریق رنگ، نسل اور مذہب محفوظ ہیں۔ اس کے برعکس سرمایہ دارانہ نظام کا اپنا سیاسی ومعاشی ڈھانچہ اور لادین فکری بنیاد موجود ہے، جس کی اساس صرف اور صرف سرمائے کے حصول پر قائم ہے۔ اس نظام کی سیاست، معیشت اور فلسفہ تمام تر سرمائے کے گرد گھومتا ہے، جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے—کیپیٹل اِزم یعنی سرمائے کی مرکزیت اور سرمایہ دارانہ نظام یعنی سرمائے کی بالادستی۔

    سرمایہ دارانہ نظام کو قبول کرنا، اسلامی نظامِ حیات سے انحراف کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کے لیے دینِ اسلام کو پسند فرمایا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اکثریتی مذہبی طبقہ، خاص طور پر معاشی معاملات میں، اسلام کی بجائے سرمایہ داریت کو ترجیح دیتا ہے۔

    سرمایہ داریت کی قبولیت ؛ بے شعوری کا نتیجہ 

    یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ آیا اس اکثریتی مذہبی طبقے نے شعوری طور پر سرمایہ داریت کو اپنایا ہے یا یہ ان کی سیاسی و معاشی بے شعوری کا نتیجہ ہے، جس کے باعث وہ آج تک اسلام کا سیاسی و معاشی نظام قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

    اسلام کے معاشی نظام کے اوصاف 

    1۔ اسلامی معاشی نظام پاکیزہ، صاف حلال معیشت پر مبنی ہے۔

    2۔ اسلام معیشت کی پاکیزگی کو عبادات کی قبولیت کی شرط قرار دے کر، روحانی ترقی سے جوڑتا ہے۔ 

    3۔ اسلام کا معاشی نظام  لامتناہی دولت جمع کرنے سے منع کرتا ہے۔ 

    4۔ اسلام انسانیت پر خرچ کرنے کا حکم اور اِس پر عام انسانیت کو ترغیب بھی دیتا ہے۔

    5۔ اسلام معیشت میں آسانیاں پیدا کرنے پر زور دیتا ہے۔

    6۔ مال ودولت میں ضرورت مندوں کا حصہ مقرر کرتا ہے۔ 

    7۔ اسلام دوسروں کا حق کھانے سے روکتا ہے اور اپنے وسائل سے ضرورت مندوں پر خرچ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ 

    8۔ وہ ہر اس تجارت اور کاروبار سے منع کرتا ہے جس سے عوام الناس کے حقوق متاثر ہوں نیز انھیں جسمانی، روحانی یا نفسیاتی نقصان پہنچے۔

    9۔ اسلام مال و دولت اور وسائلِ رزق کو جمع کر کے عوام الناس کو ان سے محروم کرنے کو کبیرہ گناہ قرار دیتا ہے۔

    10۔اسلام تمام زمین اور اس میں موجود وسائلِ رزق کو تمام انسانیت کے لیے عام کرنے کا حکم دیتا ہے۔

    11۔ وسائلِ رزق کو اجتماعی ملکیت قرار دیتا ہے اور کسی بھی فرد کو وسائلِ رزق سے محروم نہ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔

    الحاصل! اسلام سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کو انسانی حقوق کے قیام اور تحفظ میں ناجائز قرار دیتا ہے۔ انھیں اختیار کرنے اور قائم کرنے سے اجتناب کا حکم دیتا ہے۔

    اسلامی نظام معیشت میں محنت کو سرمائے پر فوقیت 

    اسلامی نظام معیشت میں سرمائے کی برتری کے بجائے، محنت کی اہمیت کو فوقیت حاصل ہے۔ اس نظام معیشت میں انسانی ضروریات اور احتیاجات کو پورا کرنے پر زور دیا جاتا ہے، جب کہ سرمائے کو ثانوی اور معاون کی حیثیت دی جاتی ہے۔ 

    اسلام اجتماعی طور پر معیشت کی ترقی کے لیے ہر اس کاروبار سے منع کرتا ہے، جس میں دولت اکثریتی عوام کی بجائے مخصوص اقلیت یعنی اشرافیہ کی طرف منتقل ہوتی ہو اور محنت کا اس میں کوئی دخل نہ ہو—جیسے سودی کاروبار، جوا، سٹا، کرپشن، کمیشن، اجارہ داری، بھتہ وغیرہ۔

    اسی طرح چوری، ڈاکا، لوٹ مار، ناجائز منافع خوری، استحصال، ذخیرہ اندوزی، زبردستی کسی کے حق پر قبضہ، منڈیوں اور زمینوں پر قبضہ، معدنیات پر ناجائز تسلط، مصنوعی بحران پیدا کر کے اشیاکی قلت اور مہنگائی، جنگیں مسلط کرنا، اکثریت کے حقوق ہڑپ کر کے انھیں اقلیت کا حق قرار دینا، کمزور اور غریب ممالک کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے پراکسی جنگیں لڑوانا—یہ سب سرمایہ دارانہ نظام کی نمایاں علامتیں ہیں، جنھیں انسان اس نظام کے وجود میں آنے کے وقت سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔

    اہم سوال ! 

    جو لوگ سرمایہ داریت کو اسلام کی بگڑی ہوئی شکل قرار دیتے ہیں یا اسے اسلام کے قریب سمجھتے ہیں، ان سے سوال ہے کہ: 

     اس نظام میں کون سی چیز اسلام سے مطابقت رکھتی ہے؟ اور کون سی چیز اسلام سے انحراف پر مبنی ہے؟ 

    اگر اس نظام میں صرف چند جزوی خامیاں ہوتیں، تو ان کی اِصلاح ممکن تھی، لیکن جب پورا نظام ہی بگڑا ہوا ہو تو پھر اسے ختم کرنا ہی ناگزیر ہوتا ہے۔ اس کا متبادل ایسا سیاسی و معاشی نظام لانا ضروری ہوتا ہے جس میں مذکورہ بالا خوبیوں کا احاطہ ہو اور بیان کردہ خرابیوں کا مکمل سدباب کیا گیا ہو—

    نوجوانوں کی ذمہ داری 

    ایسا نظام جو انسانیت کے معاشی حقوق کا محافظ ہو، استحصال سے پاک ہو، جس سے اکثریتی طبقہ معاشی مسائل سے نجات حاصل کر سکے، اس کا قیام عہد حاضر میں نوجوانوں کی شعوری ذمہ داری ہے۔

    Share via Whatsapp