بے روزگاری، آن لائن روزگار کے دھوکے اور ریاست کی ذمہ داریاں
ملک میں روزگار کے مناسب مواقع نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان ہر جگہ امید لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ جب تعلیم اور صلاحیتوں کے باوجود بھی انہیں مناسب روزگار حاصل۔۔

بے روزگاری، آن لائن روزگار کے دھوکے اور ریاست کی ذمہ داریاں
تحریر: محمد اصغر خان سورانی۔ بنوں
ریاست کی ایک اہم ذمہ داری یہ ہے کہ اس کے شہری تعلیم یافتہ ہوں۔ وطنِ عزیز کے تعلیمی شعبے سے وابستہ ماہرین بھی یہ کوشش کر رہے ہیں کہ ہر بچہ سکول جائے۔ لیکن اس کے باوجود بھی ایک بڑا طبقہ تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہے۔ تاہم جو طبقہ رائج تعلیمی نظام سے کوئی ڈگری حاصل کر لیتا ہے تو وہ بھی بے روزگاری اور مایوسی کی حالت میں رہتا ہے۔ ہر سال ہزاروں طلبا مختلف شعبوں میں ڈگریاں حاصل کر کے تعلیمی زندگی سے عملی زندگی میں داخل ہوتے ہیں، لیکن ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج روزگار کے مواقع کی کمی ہے۔ ایک طرف حکومت نے تعلیمی پالیسی میں تبدیلی لا کر ہر کالج اور یونیورسٹی میں بی ایس پروگرام شروع کر دیے ہیں۔ جنرل بی اے، بی ایس سی کی جگہ مختلف شعبوں میں بی ایس کی ڈگری (سپیشلائزڈ ڈگریاں) دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس مقصد کے پیچھے یہ خیال تھا کہ نوجوان ایف اے، ایف ایس سی کے فوراً بعد عملی شعبوں میں مہارت حاصل کر کے برسرِ روزگار بنیں گے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہت سے ایسے شعبے ہیں، جن کا پاکستانی سوسائٹی میں عملی وجود نہ ہونے کے برابر ہے اور موجودہ مارکیٹ سے کوئی تعلق نہیں۔ نہ ان کو سرکاری سطح پر کوئی نوکری مل سکتی ہے اور نہ ہی نجی شعبے میں ان کی مانگ ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ پرائیویٹ سطح پر یا ذاتی کاروبار کا رجحان بہت کم ہے، کیوں کہ ان کی ڈگریوں کے مطابق روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ضروریاتِ زندگی کا زیادہ تر سامان ہم چین کا تیار کردہ استعمال کرتےہیں اور ہماری ریاست ایک کنزیومر سٹیٹ بنی ہوئی ہے۔ پیداواری صلاحیت ہونے کے باوجود ہم کچھ پیدا نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ سرکاری ملازمتوں کے لیے بھی جب ہزاروں امیدوار چند آسامیوں کے لیے مقابلہ کرتے ہیں تو اس سے مایوسی، بے چینی اور ذہنی دَباؤ پیدا ہوتا ہے۔
ہر سال ہزاروں طلبا ان شعبوں سے گریجوایشن کر کے فارغ التحصیل ہوجاتے ہیں، جن کے لیے روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ وہ اپنی ڈگریاں لے کر گھومتے ہیں، لیکن عملاً کسی میدان میں کام کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ نتیجتاً وہ عام شعبوں، جیسے آفس اسسٹنٹ، کلرک، یا سیکورٹی گارڈ جیسی معمولی اسامیوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ سرکاری سطح پر صرف اساتذہ اور کلرکس کی بھرتیوں کے مواقع زیادہ نظر آتے ہیں۔ دیگر شعبوں میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مایوس اور بے چین نوجوان آسانی سے دھوکے کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اَب دیکھتے ہیں کہ بے روزگار نوجوان فراڈ کا شکار کیوں ہو جاتے ہیں؟
ملک میں روزگار کے مناسب مواقع نہ ہونے کی وَجہ سے نوجوان ہر جگہ اُمید لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ جب تعلیم اور صلاحیتوں کے باوجود بھی انھیں مناسب روزگار حاصل نہیں ہوتا، تو وہ شارٹ کٹ کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ان کی بے روزگاری اور مجبوری کسی اور کے لیے موقعِ غنیمت بن چکی ہے۔چالاک اور فریبی عناصر نوجوانوں کی اس کمزوری سے فائدہ اُٹھاتے ہیں اور ان کو استحصال کا نشانہ بنا لیتے ہیں۔ وہ آن لائن روزگار کے نام پر انھیں دھوکا دیتے ہیں، رقم وصول کرتے ہیں اور پھر غائب ہو جاتے ہیں۔
آج کے دور میں آن لائن فراڈ ایک منظم صنعت کا روپ اختیار کر چکا ہے۔ یہ فریبی تنظیمیں مختلف ناموں سے سامنے آتی ہیں — کبھی اسائنمنٹ ورک کے نام پر، کبھی آن لائن ایڈز چلانے کے نام پر، کبھی ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے نام پر اور کبھی موٹیویشنل سپیکنگ کے نام پر۔ وہ خود کو مختلف حکومتی اداروں سے منسلک ظاہر کرتی ہیں اور پیشہ ورانہ انداز میں خدمات کا جال بچھاتی ہیں۔ ان تنظیموں کا طریقہ کار نہایت منظم اور نفسیاتی ہوتا ہے۔ وہ سوشل میڈیا پر دلکش اشتہارات دیتے ہیں، مفت سیمینارز کا انعقاد کرتے ہیں اور نوجوانوں کو کامیابی کی کہانیاں سناتے ہیں۔ یہ تمام عمل انھیں یہ یقین دلاتا ہے کہ وہ سونے کی کان کے قریب ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ رقم کھو کر واپس لوٹتے ہیں اور ذہنی دَباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔
حکومت کی ذمہ داری:
كسی بھی ریاست میں یہ حکومت کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو باعزت اور پائیدار روزگار کے مواقع فراہم کرے۔ یہ ذمہ داری صرف سرکاری ملازمتوں تک محدود نہیں ہونی چاہیے، بلکہ اس کے لیے ایک جامع اور متوازن اقتصادی پالیسی کی ضرورت ہے۔ صنعتی شعبے میں انقلابی اصلاحات اور وسعت لانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ایسے تمام شعبے، جن میں ہم صرف صارف (Consumer) بن کر رہ گئے ہیں — جیسے کہ ٹیکسٹائل، فوڈ پروسیسنگ، فارماسیوٹیکل، سولر پینلز، مائنز اینڈ منرلز اور دیگر شعبے — جہاں خام مال وافر مقدار میں دستیاب ہے، ان کو فعال اور پیداواری شعبوں میں بدلنا ہوگا۔ ان شعبہ جات میں سرمایہ کاری سے نہ صرف مقامی پیداوار بڑھے گی بلکہ نوجوانوں کو وسیع پیمانے پر روزگار بھی فراہم ہوگا۔
اسی طرح تخلیقی معیشت ( Creative Economy ) یعنی فلم، ٹیلی ویژن، ادب، فنون، دستکاری، گرافکس اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ جیسے شعبوں کی سرکاری سرپرستی اور مالی معاونت نہایت اہم ہے، جہاں ہزاروں نوجوان اپنی صلاحیتوں سے کمائی کر سکتے ہیں۔
تکنیکی تعلیم کا فروغ بھی کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ پولی ٹیکنک کالجوں، ووکیشنل ٹریننگ سینٹروں اور ٹیکنیکل یونیورسٹیوں کی تعداد میں اضافہ اور ان کے معیار میں بہتری لانا ہوگی، تاکہ نوجوان محض ڈگری یافتہ نہیں، بلکہ ہنرمند اور خودکفیل بنیں۔ عوام کو صرف مالی امداد یا راشن دینے کے بجائے انھیں بااختیار بنایا جائے، تاکہ وہ خود اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔
جس طرح بنگلا دیش نے خواتین کو گھریلو سطح اور چھوٹی صنعتوں میں روزگار کے مواقع فراہم کیے، وہ ماڈل ہمارے لیے بھی قابلِ تقلید ہے۔ سوال یہ ہے: کیا ہم صرف "احساس راشن" اور "احساس فنڈ" کی قطاروں میں کھڑا ہونا سیکھیں گے، یا خودکفالت کی طرف بڑھیں گے؟
آن لائن فراڈ کے خلاف اقدامات:
آن لائن روزگار کے نام پر بڑھتے ہوئے فراڈ کے پیش نظر حکومت کو فوری اور مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے۔ سائبرکرائم یونٹ کو مضبوط بنایا جائے اور ہر ضلع میں تربیت یافتہ عملہ اور جدید ٹیکنالوجی فراہم کی جائے، تاکہ شکایات پر فوری کارروائی ممکن ہو سکے۔ ایک ایسا نظام وضع کیا جائے، جس میں شکایت موصول ہونے کے 24 گھنٹوں کے اندر ابتدائی تحقیقات شروع ہو جائیں۔ بینکنگ نظام کو بھی شامل کیا جائے اور مشکوک ٹرانزیکشنز کی فوری اطلاع لازمی قرار دی جائے۔
مزید برآں، آن لائن فراڈ کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔ موجودہ قوانین میں جو سستی اور نرمی ہے، اس کا فائدہ اُٹھا کر مجرم بچ نکلتے ہیں۔ ایسے مقدمات سالہا سال عدالتوں میں التوا کا شکار رہتے ہیں۔ اس روش کو بدلنے کے لیے قانونی اصلاحات اور تیز انصاف ناگزیر ہیں۔
تعلیمی نظام میں اصلاحات کی ضرورت:
تعلیمی نظام میں بنیادی اصلاحات ناگزیر ہو چکی ہیں۔ طلبا کو رٹہ سسٹم کے بجائے تنقیدی اور تخلیقی سوچ سکھانا چاہیے۔ گریڈنگ کے روایتی نظام کو تبدیل کرکے عملی تعلیم اور مہارتوں پر توجہ دی جائے۔ نصاب کو جدید تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ بنایا جائے اور تعلیمی اداروں میں مباحثہ (ڈیبیٹ) اور مکالمہ (ڈسکشن) کو فروغ دیا جائے۔ انٹرن شپ اور عملی تربیت (پریکٹیکل ٹریننگ) کو لازمی قرار دیا جائے۔
یونیورسٹیوں اور کالجوں کو انڈسٹری سے ویسے ہی منسلک کیا جائے، جیسے ایم بی بی ایس کے طلبا کو ہسپتالوں سے منسلک کیا جاتا ہے۔ ہر ٹیکنیکل کالج کے ساتھ مقامی صنعت کا ربط ضروری ہے۔ اگر کسی علاقے میں صنعت موجود ہی نہیں تو وہاں ٹیکنیکل تعلیم کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایسے طلبا فارغ التحصیل ہو کر کہاں جائیں گے؟ اس لیے حکومت کو پائیدار اور زمینی حقائق پر مبنی منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔
خاندانی، سماجی اور دینی کردار:
خاندان اور معاشرہ بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو شارٹ کٹ کے بجائے محنت، صبر، اور دیانت کی اقدار سکھائیں۔ حقیقت پسندی اور عملی زندگی کی تیاری پر زور دیں۔ دینی تعلیمات سے روحانی رہنمائی حاصل کی جائے۔ اسلام میں صبر، حلال کمائی اور حرام سے اجتناب کی واضح تعلیمات موجود ہیں۔ بچوں کو توکل اور تدبیر کا توازن سکھایا جائے۔ قران کریم میں محنت کا جو اصول ہے وہ سمجھا نا چاہیےاللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ انسان کووہی ملے گا، جس کے لیے اس نے محنت کی ہو۔
میڈیا اور شعور کی بیداری
میڈیا کو چاہیے کہ آن لائن فراڈ کے خلاف بھرپور آگہی مہم چلائے۔ ٹیلی ویژن پروگرامز، سوشل میڈیا مہمات اور تعلیمی اداروں میں لیکچرز کے ذریعے نوجوانوں کو حساس بنایا جائے۔ محنت، استقامت اور ایمانداری سے کامیابی حاصل کرنے والوں کی مثبت سوچ پیش کی جائے، تاکہ نوجوانوں کے سامنے قابلِ تقلید مثالیں آئیں۔
نظامِ عدل کی ناگزیر اہمیت:
یہ تمام اصلاحات اور اقدامات صرف اسی صورت میں کامیاب ہو سکتے ہیں، جب ملک میں ایک منصفانہ اور عادلانہ نظام موجود ہو۔ اگر نظام ظلم پر مبنی ہو، اور اس کے منتظمین خود بدعنوان ہوں، تو شہریوں کی بہتری کے لیے کوئی مثبت قدم ممکن نہیں ہوگا۔ بدقسمتی سے آج وطنِ عزیز میں عدل کا فقدان اور ظلم کا غلبہ ہے۔ اس لیے سب سے پہلی ضرورت ایک مخلص، دیانت دار اور منظم جماعت کی ہے جو فاسد نظام کی جگہ عدل پر مبنی نظام نافذ کرے۔ جب ایسا نظام قائم ہوگا، تب ہی آن لائن فراڈ جیسی برائیوں كا قلع قمع ممكن ہے اور قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہو سكتی ہے۔