آبادی: بوجھ یا نعمت؟ پالیسی سازی کا بنیادی سوال
یہ کہا جاتا ہے کہ زیادہ لوگ زیادہ پیداواری ہاتھ پیدا کرتے ہیں— یہ بات درست ہے، لیکن ان ہاتھوں کو واقعی پیداواری بننے کے لیے ایک خاص عمر اور مخصوص ۔۔۔۔

آبادی: بوجھ یا نعمت؟ پالیسی سازی کا بنیادی سوال
تحریر: محمد سعد —پشاور
یہ کہا جاتا ہے کہ زیادہ لوگ زیادہ پیداواری ہاتھ پیدا کرتے ہیں— یہ بات درست ہے، لیکن ان ہاتھوں کو واقعی پیداواری بننے کے لیے ایک خاص عمر اور مخصوص مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پیدائش سے اٹھارہ سال کی عمر تک زیادہ تر آبادی محض صارف ہوتی ہے، پیداوار میں براہِ راست حصہ نہیں ڈالتی۔ یہ اٹھارہ سالہ عرصہ دراصل سرمایہ کاری کا دور ہے جو بعدازاں عموماً ساٹھ سال تک معیشت میں پیداوار دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ معاشرتی سطح پر محنت کش قوت کو پروان چڑھاتا ہے اور اکثر اوقات ریٹائرمنٹ کے بعد بھی علم و تجربے کے ذریعے معاشرے کی خدمت کرتا رہتا ہے۔
آبادی میں اضافے کو محض اعداد و شمار کے حوالے سے دیکھنا غلط نظریہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آبادی تب ہی بوجھ بنتی ہے، جب قومیں پالیسی سازی کی باریکیوں پر توجہ نہیں دیتیں۔ جن ممالک میں واضح ترجیحات اور منظم حکمت عملی موجود ہے، وہاں یہی آبادی قومی طاقت کا باعث بنتی ہے۔
تاہم محض تعداد کافی نہیں— اصل ترقی کا راز کارکردگی میں بھی چھپا ہوا ہے۔ آج امریکا میں ایک کسان اوسطاً 155 افراد کا پیٹ بھرتا ہے، جو کہ جدید ٹیکنالوجی اور بہتر طریقہ کار کا واضح ثبوت ہے۔ چین کی تیزرفتار ترقی اس بات کی بہترین مثال ہے کہ آبادی اور کارکردگی مل کر کیسے کمال دِکھاتے ہیں۔ 1980ء سے 2015ء کے دوران چین میں محنت کش آبادی تقریباً تیس کروڑ بڑھی اور فی کس آمدنی دو سو ڈالر سے بڑھ کر آٹھ ہزار ڈالر ہوگئی۔ یہ اس وقت ممکن ہوا جب محنت کش قوت کو قومی ترقی کا مرکزی کردار دیا گیا اور اسے جدید تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا گیا۔
وطنِ عزیز کی ترقی کے لیے سب سے اہم ضرورت ایک متحرک، باصلاحیت اور ہنرمند محنت کش قوت کی تیاری ہے۔ موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان میں لیبرفورس کی شرکت محض 53 فی صد ہے، جب کہ ہم صرف آبادی کنٹرول کے نعرے لگانے میں مصروف ہیں۔ یہ رویہ اصل مسئلے سے نظریں چرانے کے مترادف ہے۔وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی ترجیحات کو یکسر بدل دیں۔ ہمیں ان فرسودہ نظریات اور کھوکھلے سیاسی بیانیوں سے نجات حاصل کرنی ہوگی جو آج بھی ہمیں 18ویں صدی کی قدامت پسندانہ سوچ میں جکڑے ہوئے ہے۔
اصل چیلنجز:
آج ہمارے سامنے جو بنیادی مسائل ہیں:
تعلیم میں ناکافی سرمایہ کاری - ہمارا تعلیمی بجٹ جی ڈی پی کا صرف 2.9 فی صد ہے، جو بین الاقوامی معیار سے کہیں کم ہے۔
روزگار کے مواقع کی شدید کمی - نئے فارغ التحصیل نوجوانوں کے لیے معیاری ملازمتوں کا فقدان۔
فنی تربیت کا کمزور نظام - جدید ٹیکنالوجی اور صنعتی مہارتوں میں پیچھے رہ جانا۔
پالیسیوں میں جمود - طویل مدتی منصوبہ بندی کی کمی اور نفاذ کی کمزوری۔
یہ وہ بنیادی مسائل ہیں، جن کا فوری حل ضروری ہے، ورنہ آبادی کا بڑھتا ہوا تناسب بجائے اثاثے کے بوجھ بن جائے گا۔
صارف سے پیداوار تک کا سفر:
انسانی زندگی کا سب سے اہم مرحلہ 1 سے 18 سال کی عمر کا دورانیہ ہے، کیوں کہ اسی عرصے میں شخصیت کی بنیادیں رکھی جاتی ہیں جو طے کرتی ہیں کہ آنے والی نسل قوم کے لیے اثاثہ بنے گی یا بوجھ۔ اس نازک اور فیصلہ کن مرحلے میں بچوں اور نوجوانوں کی درست تربیت اور راہ نمائی کے لیے مائیکرو اور میکرو دونوں سطحوں پر مربوط اقدامات کی ضرورت ہے۔ مائیکرو سطح پر، خاندانی تعاون، برادری کے درمیان باہمی ربط اور بنیادی اقدار کی منتقلی نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک مضبوط خاندانی نظام اور مثبت سماجی ماحول بچوں کی شخصیت سازی میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ دوسری جانب، میکرو سطح پر ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ منظم اور مؤثر پالیسیاں تشکیل دے، اداروں کو جواب دہ بنائے اور دستیاب وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال میں لائے، تاکہ نوجوانوں کو تعلیم، صحت اور تربیت کے بہترین مواقع میسر آئیں۔ ان دونوں سطحوں پر ہم آہنگی اور سنجیدہ کوششیں ہی ایک ایسی نسل کی تشکیل ممکن بناتی ہیں جو قوم کی ترقی میں فعال کردار ادا کر سکے۔
عملی مثالیں: کامیاب تجربات:
یونیورسل تعلیم، ہنرمندی کی تربیت اور چھوٹے و درمیانے کاروبار کی حمایت کسی بھی قوم کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک کی کامیاب مثالیں اس حقیقت کی گواہی دیتی ہیں۔ جنوبی کوریا کی مثال لی جائے تو وہاں 95 فی صد ثانوی تعلیم کی شرح نے محض تعلیمی کامیابی نہیں، بلکہ ایک بڑی آبادی کو ڈیموگرافک ڈویڈنڈ میں تبدیل کردیا۔ یہ کامیابی کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک منظم اور دوراندیش قومی تعلیمی پالیسی کا ثمر تھی۔ اسی طرح، جرمنی کا دوہرا تربیتی ماڈل، جس میں اسکول اور انڈسٹری مل کر نوجوانوں کو عملی مہارتیں سکھاتے ہیں، نے نوجوانوں کو روزگار کے قابل بنایا اور ملک میں بے روزگاری کی شرح کو کم ترین سطح پر رکھا۔ دوسری جانب، چین نے دیہی علاقوں میں ٹاؤن شپ انٹرپرائزز کے ذریعے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو فروغ دیا، جس سے نہ صرف لاکھوں افراد کو روزگار ملا، بلکہ شہروں کی طرف ہجرت کا دباؤ بھی کم ہوا۔ یہ تمام مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اگر تعلیم، ہنر اور کاروبار کے شعبوں میں دانش مندانہ اور مربوط پالیسیاں اپنائی جائیں تو ایک قوم اپنی آبادی کو بوجھ سے اثاثہ بنا سکتی ہے۔
وطن عزیز میں آبادی کے مسائل اور حل:
پاکستان کی موجودہ صورتِ حال ایک گہری تشویش کا باعث ہے، جہاں نہ تو نوجوانوں کی مضبوط بنیادیں رکھی گئیں، نہ ہی ان کے لیے خاطرخواہ مواقع پیدا کیے گئے۔ بدقسمتی سے ترقی کے نام پر محض علامتی اقدامات پر انحصار کیا جا رہا ہے، جو کسی بھی پائیدار تبدیلی کے لیے ناکافی ہیں۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشی خوش حالی کو محض ایک نعرے کے بجائے آئینی فرض کے طور پر تسلیم کیا جائے جو عناصر اس راہ میں رکاوٹ بنیں، ان کا سخت احتساب ہونا چاہیے، تاکہ معاشی اصلاحات کو سیاسی مفادات کی نذر ہونے سے بچایا جا سکے۔
اس وقت ہمیں چند بنیادی سوالات کا سامنا ہے: ہمارا انسانی سرمایہ عالمی سطح پر کہاں کھڑا ہے؟ کیا ہماری معیشت میں اتنی لچک اور طاقت ہے کہ وہ نوجوانوں کو پیداواری قوت میں تبدیل کر سکے؟ اور سب سے اہم، کیا ہماری معیشت میں اتنی Absorptive Capacity ہے کہ وہ ہر سال تیار ہونے والے لاکھوں نوجوانوں کو روزگار اور مواقع فراہم کر سکے؟ ان سوالات کے جوابات تلاش کیے بغیر ہم ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتے۔
اس کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے:
1. تعلیمی انقلاب جو محض ڈگریوں پر نہیں، بلکہ مہارت پر مبنی ہو۔
2. صنعتی تربیت جو نوجوانوں کو عملی میدان کے لیے تیار کرے۔
3. کاروباری ماحول جو چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو فروغ دے۔
4. انصاف کا نظام جو شفافیت اور احتساب کو یقینی بنائے۔
طویل المیعاد حکمت عملی کے طور پر ہمیں اس لاحاصل بحث سے نکلنا ہوگا کہ آبادی زیادہ ہونا فائدہ ہے یا نقصان۔ اصل سوال یہ ہے کہ موجودہ آبادی کو پیداواری قوت میں کیسے بدلا جائے؟ اس کے لیے صحت، مہارت اور سماجی تربیت میں قومی سطح پر سرمایہ کاری ناگزیر ہے۔ بنیادیں مضبوط کیے بغیر کوئی بھی ترقی ممکن نہیں۔ یہی وَجہ ہے کہ میکرو سطح پر اداروں کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے، جب کہ مائیکرو سطح پر خاندان اور برادری کا تعاون بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
حاصل یہ کہ ہمیں وہ بنیادیں درست کرنا ہوں گی، جن پر ایک مضبوط معیشت کھڑی ہوتی ہے۔ معیاری تعلیم، عملی مہارتیں، روزگار کے مواقع، اور انصاف کا مؤثر نظام۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہماری آبادی کو بوجھ سے نعمت میں تبدیل کر سکتا ہے۔
📚 حوالہ جات
• USDA (2024): کسان کی فیڈنگ کی استعداد
• World Bank (2023): چین کی محنت کش آبادی اور جی ڈی پی کے اعداد و شمار
• UNESCO (2022): جنوبی کوریا کی تعلیمی شرح
• Bloom & Williamson: Demographic Dividend
• Malthusian Theory: آبادی وسائل پر بوجھ بنتی ہے
• Lewis Model: اضافی محنت کش قوت کی معیشت میں شمولیت کا نظریہ