کریپٹو کرنسی کی حقیقت اور پاکستان میں اس کا مستقبل
کریپٹو کرنسی کی حقیقت کیا ہے؟ پاکستان میں اس کا کیا مستقبل ہو گا ایک جامع تحریر

کریپٹو کرنسی کی حقیقت اور پاکستان میں اس کا مستقبل
تحریر: فہد محمد عدیل ۔ گوجرانولہ
اگر جدید معاشیات کے ماڈلز کا جائزہ لیا جائے تو "تبادلہ دولت" کے عنوان کے تحت زر یا کرنسی کو محض ایک آلۂ تبادلہ (Tool of Exchange) سمجھا جاتا ہے، جو اشیا اور خدمات کے تبادلے میں معاون کردار ادا کرتا ہے۔ زر کے ارتقا میں دھاتی کرنسی اور اس کے بعد کاغذی کرنسی کے مراحل خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ دھاتی کرنسی کی عالمی سطح پر قبولیت اور اس کی قدر کا تعین کاغذی کرنسی کی نسبت زیادہ معیاری، مستحکم اور قابل اعتماد تھا۔
تاہم سرمایہ دارانہ نظام کے غلبے نے جہاں سرمایہ کا تسلط قائم کیا، وہیں امریکی ڈالر کو بین الاقوامی مالیاتی نظام میں مرکزی حیثیت دے دی۔ ڈالر نہ صرف دیگر ممالک کی کرنسیوں پر حاوی ہوا، بلکہ ایک تجارتی جنس (commodity) کی حیثیت سے عالمی منڈیوں میں استعمال ہونے لگا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ زر صرف ایک تبادلہ کا ذریعہ رہتا، مگر اَب زر کے بدلے زر کی خرید و فروخت ہونے لگی، جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر ایک غیرحقیقی اور مصنوعی معیشت نے جنم لیا۔
اس پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے کریپٹو کرنسی جیسے جدید مالیاتی رجحان کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے اس کے تکنیکی پہلوؤں کا جائزہ لینا ناگزیر ہو جاتا ہے، تاکہ ہم اس مضمون کے اگلے مراحل میں درست تجزیہ اور نتائج اخذ کرسکیں۔
کرپٹو کرنسی کا تعارف
کرپٹو کرنسی مالیاتی نظام میں ایک ایسا جدید ڈیجیٹل اثاثہ (پیسہ) ہے جو صرف انٹرنیٹ پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ دراصل کمپیوٹر کوڈ کی شکل میں موجود ہوتا ہے اور کسی ریاست یا بینک کے بجائے ایک مخصوص کمپیوٹر نیٹ ورک، جسے بلاک چین (Blockchain) کہا جاتا ہے، کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بلاک چین ایک غیرمرکزی، شفاف اور ناقابل ترمیم ڈیجیٹل لیجر ہے جو تمام لین دین کو محفوظ انداز میں ریکارڈ کرتا ہے۔
کریپٹو کرنسی کا تصور سب سے پہلے 2008ء میں ایک فرضی شخصیت ساتوشی ناکاموتو (Satoshi Nakamoto) نے پیش کیا، جن کی اصل شناخت آج تک ظاہر نہیں ہوسکی۔ 2009ء میں انھوں نے پہلا ڈیجیٹل سکہ بٹ کوائن (Bitcoin) متعارف کروایا۔ اس تصور کا پس منظر ریاستی مالیاتی اداروں پر عوامی عدم اعتماد، مہنگے لین دین اور ریاستی کنٹرول کے خلاف ردِعمل میں دیکھا جاسکتا ہے۔
کریپٹو کرنسی بلاک چین ٹیکنالوجی پر مبنی ہوتی ہے۔ ہر لین دین ایک "بلاک" کی شکل میں ریکارڈ ہوتا ہے اور یہ بلاکس زنجیر کی صورت میں آپس میں جُڑ کر مکمل ریکارڈ تیار کرتے ہیں۔ اس نظام کا دعویٰ ہے کہ یہ جعلسازی اور دوہری ادائیگی (Double Spending) کے اِمکانات کو نہایت کم کر دیتا ہے۔ کرپٹوگرافی کے اصولوں کے ذریعے لین دین کو محفوظ بنایا جاتا ہے، جب کہ مائننگ (Mining) کے ذریعے نئے کوائنز تخلیق کیے جاتے ہیں۔
مائننگ کیا ہے؟
مائننگ سے مراد ایسے پیچیدہ ریاضیاتی مسائل کو کمپیوٹرز کی مدد سے حل کرنا ہے، جن کے نتیجے میں نئے بلاکس، بلاک چین میں شامل ہوتے ہیں اور مائننگ کرنے والے (مائنر) کو انعام کے طور پر نئی کرپٹو کرنسی (یعنی کوائنز یا ٹرانزیکشن فیس) دی جاتی ہے۔ یہ عمل بینک میں لین دین کی تصدیق کی طرح ہوتا ہے، لیکن یہاں سارا عمل غیرمرکزی (Decentralized) انداز میں سرانجام پاتا ہے۔
جیسے ہی کوئی کریپٹو ٹرانزیکشن ہوتی ہے، مثال کے طور پر اگر کسی نے بٹ کوائن بھیجا — تو وہ نیٹ ورک میں براڈکاسٹ ہو جاتی ہے۔ مائنرز اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ لین دین درست ہے اور اسے دوبارہ استعمال (Double Spending) نہیں کیا جا رہا۔ اس کے لیے ایک پیچیدہ ریاضیاتی مسئلہ حل کیا جاتا ہے جسے "پروف آف ورک" (Proof of Work) کہا جاتا ہے۔ جو مائنر سب سے پہلے اس مسئلے کو حل کرتا ہے، اسے بلاک کو چین میں شامل کرنے اور نئے کوائنز حاصل کرنے کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔
مائننگ کی اقسام:
1۔ سولو مائننگ (Solo Mining) – ایک شخص اپنے وسائل کے ساتھ مائننگ کرتا ہے۔
2۔ پول مائننگ (Pool Mining) – کئی افراد مل کر ایک گروپ کی صورت مائننگ کرتے ہیں اور انعام بانٹ لیتے ہیں۔
3۔ کلاؤڈ مایننگ (Cloud Mining) – کسی کمپنی سے پیسے دے کر مائننگ کروائی جاتی ہے، جس میں ذاتی کمپیوٹر خریدنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
مائننگ کے لیے درج ذیل وسائل درکار ہوتے ہیں:
ہائی پاور کمپیوٹرز یا جی پی یوز
بہت زیادہ بجلی اور ٹھنڈا ماحول
تیز رفتار انٹرنیٹ
مائننگ سافٹ ویئرز
مشہور کرپٹو کرنسیاں:
1۔ بٹ کوائن Bitcoin (BTC) – جس کی قیمت تقریباً 105,000 امریکی ڈالرز
2۔ ایتھیرم Ethereum (ETH) – جس کی قیمت تقریباً 2,450 امریکی ڈالرز
3۔ تیتھر Tether (USDT) – جس کی قیمت ایک امریکی ڈالر
کریپٹو کرنسی کی قانون سازی: ایک تجزیاتی جائزہ
دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک نے کریپٹو کرنسی کے حوالے سے باقاعدہ قانون سازی کی ہے، جن میں متحدہ عرب امارات، سوئٹزرلینڈ، سنگاپور، امریکا، یورپی یونین، برطانیہ، جاپان اور کینیڈا قابلِ ذکر ہیں۔ ان ممالک نے مالیاتی شفافیت، سرمایہ کاروں کے تحفظ اور ٹیکس وصولی کے مقاصد کے تحت قانونی فریم ورک ترتیب دیا، تاکہ اس نئی ڈیجیٹل معیشت کو مؤثر انداز میں منظم کیا جاسکے۔
اَب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کریپٹو کرنسی کو "آزاد" تصور کیا جاتا ہے تو پھر قانون سازی کی ضرورت کس پہلو سے محسوس کی جاتی ہے؟ دراصل، یہاں "آزادی" کا مطلب یہ ہے کہ یہ کرنسیاں غیرمرکزی ہوتی ہیں، یعنی ان پر کسی ریاستی ادارے جیسے اسٹیٹ بینک یا فیڈرل ریزرو کا کنٹرول نہیں ہوتا۔ لین دین "پیئر ٹو پیئر" (Peer-to-Peer) نیٹ ورک اور اوپن سورس ٹیکنالوجی بلاک چین کے ذریعے انجام پاتا ہے۔
تاہم، اسی آزادی کے ساتھ چند سنگین خطرات بھی جڑے ہوتے ہیں، جن پر قابو پانے کے لیے قانون سازی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ ان خطرات میں شامل ہیں:
• منی لانڈرنگ اور جرائم پیشہ نیٹ ورکس کی مالی معاونت
• صارفین کا تحفظ، خصوصاً فراڈ اور ہیکنگ سے بچاؤ
• ٹیکس کا نظام اور قومی سطح پر اثاثہ جات کی نگرانی
• غیر قانونی ٹرانزیکشنز اور ملکی سلامتی کو لاحق خطرات
لہٰذا، قانون سازی دراصل معاشی تحفظ، مالی نظم و ضبط اور عوامی مفاد کے دائرے میں کی جاتی ہے، نہ کہ کرپیٹو کی بنیادی ساخت کو قابو میں لانے کے لیے۔
مذکورہ وضاحت سے یہ بات واضح ہوتی ہے گو کہ کریپٹو کرنسی ایک جدید اور انقلابی مالیاتی ایجاد ہے، جس کا مقصد لین دین کو آسان، شفاف اور غیرمرکزی بنانا ہے۔ تاہم، اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت بالخصوص سرمایہ دارانہ ممالک میں—جیسے کہ امریکا—یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ شاید اسے ڈالر کی گرتی ہوئی عالمی ساکھ کے متبادل کے طور پر اپنانا چاہتے ہیں۔ اس کے برعکس، روس اور چین نے اس کرنسی کے حوالے سے محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے اس کی ٹرانزیکشنز پر کلی یا جزوی پابندی عائد کر رکھی ہے، تاکہ قومی مالیاتی خودمختاری کو برقرار رکھا جا سکے۔
پاکستان میں کریپٹو کرنسی: امکانات و تضادات
اپریل 2018ء میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP) نے ایک سرکاری سرکلر کے ذریعے تمام بینکوں اور مالیاتی اداروں کو ہدایت کی کہ وہ کریپٹو کرنسیوں— جیسے کہ بٹ کوائن، لائٹ کوائن اور دیگر— کے لین دین، تجارت، ہولڈنگ اور پروموشن سے گریز کریں۔ اس کے بعد جنوری 2022ء میں SBP کے نائب گورنر کی سربراہی میں قائم ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کریپٹو کرنسی پر "مکمل پابندی" کی سفارش کی، جس میں دلیل دی گئی کہ اس کے ذریعے غیرقانونی ذرائع سے غیر ملکی کرنسی کے انخلا میں اضافہ ممکن ہے۔
تاہم، اس صورتِ حال میں ایک غیرمتوقع موڑ اس وقت آیا، جب فروری 2025ء میں وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی نگرانی میں "پاکستان کریپٹو کونسل" (PCC) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس نئی کونسل کے چیف ایگزیکٹو کے طور پر بلال ثاقب کی تقرری کی گئی اور انھیں وزیراعظم کا معاون خصوصی برائے کریپٹو کرنسی و بلاک چین بھی نامزد کیا گیا۔ اسی تسلسل میں، حکومت نے PCC اور کرپٹو مائننگ کے لیے 2000 میگاواٹ بجلی مختص کرنے کا دعویٰ کیا، جو کہ کئی حلقوں میں حیرت اور تنقید کا باعث بنا۔
پاکستان میں ادارہ سازی کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اکثر پالیسیاں عوامی مفاد سے زیادہ اشرافیہ کے فائدے کو پیش نظر رکھ کر تشکیل دی جاتی ہیں۔ پالیسی ساز عموماً وہ لوگ مقرر کیے جاتے ہیں، جن کی تکنیکی اہلیت مشکوک ہوتی ہے یا جن کی ترجیحات مخصوص طبقات کے مفادات یا سامراجی طاقتوں کی خوش نودی سے جڑی ہوتی ہیں۔ ایسے میں ایک غیرواضح، متنازع اور مستقبل کے لحاظ سے غیریقینی پراجیکٹ پر 2000 میگاواٹ بجلی مختص کرنا ایک غیردانش مندانہ فیصلہ محسوس ہوتا ہے۔ ملک پہلے ہی گردشی قرضوں، توانائی بحران، زرعی زوال، برآمدی ناکامی اور مینوفیکچرنگ سیکٹر میں مہنگی پیداواری لاگت جیسے معاشی چیلنجز سے دوچار ہے۔ سستی بجلی کی عدم فراہمی نے زراعت کو مفلوج کیا ہوا ہے اور مہنگی صنعتی پیداوار نے عالمی منڈی میں مسابقت کو دشوار بنا دیا ہے۔
حالیہ دِنوں PCCمیں کے سی ای او کی طرف سے دیے گئے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو نے مزید ابہام پیدا کر دیا، جس میں انھوں نے یہ دعویٰ کیا کہ:"پاکستان بٹ کوائن ریزرو ضبط شدہ کریپٹو اثاثوں سے بنائے گا، نہ کہ عوامی فنڈز سے۔"
یہ بیان بین الاقوامی اثاثہ ضبطی قوانین کی واضح ناسمجھی کا عکاس ہے، کیوں کہ امریکا سمیت کئی ممالک میں ضبط شدہ کریپٹو اثاثے تب تک ملزم کی ملکیت تصور کیے جاتے ہیں، جب تک عدالت اس پر مکمل حکم نہ جاری کرے۔ اس قسم کے غیرواضح بیانات نہ صرف پالیسی سازی کی سطح پر عدم سنجیدگی کو ظاہر کرتے ہیں، بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو بھی مجروح کرتے ہیں۔
مزید برآں، کرپٹو کرنسی سے حاصل ہونے والے ممکنہ فوائد بھی طبقاتی عدم توازن کو گہرا کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ بٹ کوائن یا دیگر بڑی ڈیجیٹل کرنسیوں میں سرمایہ کاری صرف وہی طبقہ کرسکتا ہے، جس کے پاس پہلے سے وسائل اور سرمایہ کی کثرت ہو۔ یوں کریپٹو کے میدان میں پہلا اور سب سے بڑا فائدہ اُٹھانے والا طبقہ اشرافیہ ہی ہوگا، جب کہ غریب اور متوسط طبقہ اس نئی مالیاتی دنیا کے کنارے پر ہی رہ جائے گا۔
خلاصہ یہ کہ کریپٹو کرنسی جیسے سائنسی اور معاشی رجحانات ملکی مفاد میں صرف اسی وقت مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں، جب مضبوط، شفاف اور عوامی مفاد پر مبنی ادارہ جاتی ڈھانچے کے تحت انھیں منظم کیا جائے۔ بہ صورت دیگر یہ بھی سرمایہ داری کی ایک نئی شکل بن کر قومی معیشت میں عدمِ مساوات اور عدمِ استحکام کو مزید بڑھا دیں گے۔
حوالہ جات:
1- https://urdu.brecorder.com/news/40273548/
2-AI Research