پاکستان میں غربت کی لکیر: مفہوم، مغالطے اور حقیقت - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • پاکستان میں غربت کی لکیر: مفہوم، مغالطے اور حقیقت

    پاکستان میں غربت کی لکیر: مفہوم، مغالطے اور حقیقت

    By Kashif Hassan Published on Jul 11, 2025 Views 703

     پاکستان میں غربت کی لکیر: مفہوم، مغالطے اور حقیقت

    تحریر:کاشف حسن، پشاور


    پاکستان میں جب بھی غربت کی بات ہوتی ہے تو عموماً جذباتی جملے، عددی مغالطے اور غیرواضح پیمانے گردش میں آجاتے ہیں۔ "لوگ دو وقت کی روٹی کھا لیتے ہیں، تو کیا غریب ہیں؟" جیسے جملے سننے کو ملتے ہیں، یا یہ کہ "جو بیس ہزار ماہانہ کما رہا ہے وہ تو درمیانے طبقے سے ہے"۔ لیکن ان باتوں کا حقیقت سے کتنا تعلق ہے؟ کیا ہم واقعی جانتے ہیں کہ غربت کی لکیر کیا ہوتی ہےاور ہم میں سے کتنے اس کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں؟ آئیے! اس مضمون میں ان بنیادی سوالات کا جائزہ لیتے ہیں۔

    غربت کی لکیر

    غربت کی لکیر دراصل ایک کم از کم معیارِ زندگی کی حد ہے، جس سے نیچے موجود فرد یا خاندان اپنی بنیادی ضروریات — خوراک، رہائش، صحت، تعلیم — پوری کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ یہ حد ہر ملک میں اس کی معاشی حالت اور قیمتوں کی سطح کے مطابق مختلف ہوسکتی ہے۔ بین الاقوامی ادارے خصوصاً ورلڈبینک اس کے لیے مختلف اشاریے استعمال کرتے ہیں:

      $2.15 فی کس یومیہ: انتہائی غربت (Extreme Poverty)

      $3.65 فی کس یومیہ: کم آمدنی والے ممالک میں عمومی غربت

      $6.85 سے $8.30 فی کس یومیہ: درمیانے آمدنی والے ممالک میں بلند معیار کی غربت لکیر

    یہ سب اعداد و شمار PPP$ (Purchasing Power Parity Dollar) کی بنیاد پر ہوتے ہیں، نہ کہ مارکیٹ ایکسچینج ریٹ پر۔

    PPP$: قوتِ خرید کی اصل بنیاد

    اکثر افراد یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ایک ڈالر 280 روپے کا ہے تو غربت کی لکیر بھی اسی کے حساب سے لگائی جائے گی۔ حال آں کہ حقیقت یہ ہے کہ غربت کی بین الاقوامی پیمائش میں PPP یعنی "قوتِ خرید کا موازنہ" استعمال ہوتا ہے۔ 2023ء کے اعداد و شمار کے مطابق PPP,1$ ≈ 69 روپے تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں 69 روپے وہی قوتِ خرید رکھتے ہیں جو امریکا میں ایک ڈالر کے برابر ہے۔

    6 افراد پر مشتمل خاندان کے لیے معیار

    اگر ہم ورلڈ بینک کے $8.30 PPP یومیہ معیار کو لیں تو:

      573 روپے فی کس یومیہ × 6 افراد = 3,438 روپے یومیہ

      3438 × 30 دن = 103,140 روپے ماہانہ

    اسی طرح، انتہائی غربت کے $2.15 یومیہ معیار کے مطابق:

      149 روپے × 6 افراد = 894 روپے یومیہ

      894 × 30 = 26,820 روپے ماہانہ

    یعنی اگر ایک چھ رکنی خاندان کی ماہانہ آمدن 27 ہزار سے کم ہے تو وہ "انتہائی غریب" ہے اور اگر ایک لاکھ روپے سے کم ہے تو وہ "نسبتاً بہتر معیار کی غربت لکیر" کے نیچے ہے۔

    پاکستان میں غربت کا تخمینی دائرہ

    پاکستان کے بیش تر شہری اس وقت ان ہی حدوں کے اندر آتے ہیں۔ غیرسرکاری ماہرین جیسے ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق اگر $3.65 یا $6.85 کے معیار کو مدنظر رکھا جائے تو پاکستان میں غربت کی شرح 60% سے 85% تک ہوسکتی ہے۔ اس کے باوجود ریاستی ادارے 2018–19 کے بعد سے کوئی جامع غربت سروے شائع نہیں کر رہے۔

    غربت کا ڈیٹا کیوں غائب ہے؟

    پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس (PBS) نے 2018–19 میں HIES سروے کیا، مگر اس کے بعد سے سرکاری سطح پر غربت سے متعلق خاموشی چھا گئی ہے۔ نہ نیا سروے، نہ اپ ڈیٹ، نہ کوئی واضح پالیسی۔ اس کا ایک سبب یہ ہوسکتا ہے کہ حقیقی اعداد و شمار سامنے آ جانے سے ریاستی کارکردگی پر سوال اٹھنے لگتے ہیں۔

    نظامِ ٹیکس اور غربت: الٹی گنتی

    بدترین صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں غریب سے بھی بالواسطہ ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔ سیلز ٹیکس، پیٹرولیم لیوی، بجلی کے بل اور موبائل چارجنگ پر لگا ہوا ٹیکس — یہ سب غریب اور امیر پر یکساں لاگو ہوتا ہے۔ ریاست کی یہ پالیسی ریگریسیو (regressive) کہلاتی ہے، یعنی جو کم کماتا ہے، وہ بھی تناسب سے زیادہ بوجھ اُٹھاتا ہے۔

    مغالطے اور غلط بیانی

    ہمارے ہاں عمومی مغالطہ پایا جاتا ہے کہ "ہم غریب نہیں، ہم تو گزارہ کر لیتے ہیں"۔ مگر سوال یہ ہے کہ گزارہ کس قیمت پر؟ کیا بچوں کی تعلیم چھوٹ جائے، یا دوا نہ خریدی جا سکے، یا رہائش ناقص ہو — تو یہ کون سا گزارہ ہے؟ غربت صرف بھوک کا نام نہیں، وقار سے محرومی کا بھی نام ہے۔

    غربت کا خاتمہ: ایک دینی و اجتماعی ذمہ داری

    بدقسمتی سے بعض مذہبی حلقے غربت کو "اللہ کی طرف سے آزمائش" کہہ کر سماجی اور ریاستی ذمہ داری سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ قرآن اس رویے کو کفر سے تعبیر کرتا ہے:

    "وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللهُ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنُطْعِمُ مَنْ لَّوْ يَشَاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ"         (یٰس: 47) 

    "اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس میں سے خرچ کرو جو اللہ نے تمھیں دیا ہے، تو یہ کافر ایمان والوں سے کہتے ہیں: کیا ہم انھیں کھلائیں جنھیں اگر اللہ چاہتا تو خود کھلا دیتا؟ تم تو کھلی گمراہی میں ہو!"

    اسی طرح نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

    "کاد الفقرُ أن یکونَ کُفراً"

    "قریب ہے کہ فقر (غربت) انسان کو کفر تک پہنچا دے’’۔(بیہقی، شعب الایمان) 

    یہ دلائل واضح کرتے ہیں کہ غربت کو ختم کرنا نہ صرف پالیسی، بلکہ ایک دینی فریضہ بھی ہے اور اسلامی ریاست کو اس پر خاموشی کا اختیار نہیں۔

    خلاصہ کلام: سچائی کو قبول کرنا ناگزیر ہے

    اَب وقت آچکا ہے کہ ہم غربت کو چھپانے، گول مول اعداد و شمار گھڑنے اور عوام کو فریب دینے کی روش ترک کریں۔ ہمیں چاہیے کہ دیانت داری کے ساتھ غربت کے اصل حجم کو تسلیم کریں، حقیقی اعداد و شمار کی بنیاد پر پالیسیاں تشکیل دیں اور غربت کے خاتمے کو صرف ایک ترقیاتی ہدف نہیں، بلکہ ایک قومی، دینی اور اخلاقی فریضہ سمجھ کر اس کی طرف عملی پیش قدمی کریں۔ یہی راستہ ایک منصفانہ، باوقار اور دینی فلاحی معاشرے کی تشکیل کا ضامن ہے۔

    Share via Whatsapp