منافع کی معیشت یا عوامی فلاح؟ چین و امریکا کے معاشی ماڈل - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • منافع کی معیشت یا عوامی فلاح؟ چین و امریکا کے معاشی ماڈل

    منافع کی معیشت یا عوامی فلاح؟ چین و امریکا کے معاشی ماڈل

    By Zahid Ansari Published on Jul 11, 2025 Views 519

    منافع کی معیشت یا عوامی فلاح؟ چین و امریکا کے معاشی ماڈل

    تحریر: زاہد انصاری، گوجرہ 


    گزشتہ مہینوں میں امریکا کی جانب سے مختلف ممالک اور خطوں پر ٹیرف کے استعمال اور چین-امریکا اقتصادی مذاکرات نے عالمی توجہ حاصل کی ہے۔ "چین کے خطرے" اور "چین-امریکا محاذ آرائی" جیسے سیاسی و میڈیا بیانیوں کے درمیان معروف امریکی ماہرِ معیشت رچرڈ وولف نے امریکی ماڈل کو منافع پر مبنی قرار دیتے ہوئے چین کی سوشلسٹ مارکیٹ اکانومی سے اس کا تقابل کیا ہے۔ وولف بارہا اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تجارتی جنگوں اور دیگر چیلنجز کے باوجود، چین کی غیرمتوقع مزاحمت اس کے منفرد ادارہ جاتی فوائد کا نتیجہ ہے۔

    امریکی معیشت آج جن بحرانوں سے دوچار ہے، ان کا تعلق محض وقتی پالیسی ناکامیوں یا خارجی دَباؤ سے نہیں، بلکہ ایک گہرے ساختی مسئلے سے ہے: سرمایہ دارانہ نظام میں منافع کو سب سے مقدم جاننے کا رویہ۔رچرڈ وولف کے مطابق، امریکی سرمایہ داری کا مرکزی محرک منافع ہے، جو تمام معاشی فیصلوں اور حکومتی ترجیحات کا تعین کرتا ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہی منافع کی حرص امریکی صنعتی زوال، اندرونِ ملک بے روزگاری اور عالمی سطح پر معاشی عدم مساوات کا سبب ہے۔ نیویارک جیسے بڑے صنعتی مراکز سے صنعتوں کا خاتمہ اور ان کا چین اور دیگر سستی لیبر مارکیٹس میں منتقل ہونا صرف اس بنیاد پر ہوا کہ وہاں مزدوروں سے کم اُجرت پر کام لیا جا سکتا تھا۔

    رچرڈ وولف نے متعدد مواقع پر اس بات پر تنقید کی ہے کہ امریکی حکومت نے نہ صرف اس رجحان کی مزاحمت نہیں کی، بلکہ دانستہ طور پر اسے فروغ دیا۔ ریاست نے صنعتوں کو منافع کی خاطر بیرونِ ملک منتقل کرنے کی اجازت دی اور خود کو اُن پالیسیوں سے الگ کرلیا جو عوامی مفاد کی نگہبانی کرسکتی تھیں۔ اس کے نتیجے میں متوسط اور محنت کش طبقے کی قوتِ خرید میں کمی آئی، بے روزگاری میں اضافہ ہوا اور سماجی تقسیم میں شدت پیدا ہوئی۔ وہ اس عمل کو "نیو لبرل گلوبلائزیشن" قرار دیتے ہیں، جس میں اشرافیہ کو فائدہ اور عوام کو بوجھ ملا۔ وولف کے بہ قول امریکی ریاست کی پالیسیاں ایسی اشرافیہ کے مفاد میں ہیں جو زوال پذیر سلطنت کا بوجھ خود اٹھانے کے بجائے اسے عام عوام پر منتقل کر رہی ہے۔

    اس تناظر میں چین کا معاشی ماڈل ایک متبادل نظیر کے طور پر سامنے آتا ہے۔ چین کی معیشت ایک سوشلسٹ مارکیٹ ماڈل ہے، جس میں ریاست اور نجی شعبہ دونوں فعال ہیں، مگر ریاست کا کردار محض ضابطہ کار کا نہیں، بلکہ راہ نما اور منظم کرنے والے ادارے کا ہے۔ چین میں حکومت وسائل، محنت اور سرمائے کو منظم کر کے قومی ترقی کے طے شدہ اہداف کے حصول کے لیے استعمال کرتی ہے۔ خواہ وہ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر ہو، غربت کے خاتمے کی مہم ہو یا جدید ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری، چینی ریاست ان تمام شعبوں میں براہِ راست مداخلت کر کے ترجیحات طے کرتی ہے۔ وولف کے مطابق، یہی ریاستی منصوبہ بندی اور وسائل کی مرکزیت چین کو وہ استحکام اور ترقی فراہم کر رہی ہے جس کی جھلک ہم اس کے تیز رفتار ریل نظام یا تکنیکی میدان میں دیکھ سکتے ہیں۔

    چین کے برعکس، امریکا میں اگر کسی منصوبے میں منافع کی توقع نہ ہو تو اسے ترک کر دیا جاتا ہے، چاہے وہ عوامی ضرورت ہی کیوں نہ ہو۔ ہائی اسپیڈ ریل اس کی ایک واضح مثال ہے۔ امریکا، تکنیکی اور مالی وسائل رکھنے کے باوجود، جدید ریلوے نظام قائم نہیں کر سکا کیوں کہ یہ نجی کمپنیوں کے لیے فوری طور پر منافع بخش نہیں۔ وولف اسے معیشت کے سرمایہ دارانہ فلسفے سے جوڑتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہاں سوال یہ نہیں ہوتا کہ کوئی کام ممکن ہے یا نہیں، بلکہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کام منافع بخش ہے یا نہیں۔ ان کے نزدیک یہی وہ بنیادی فرق ہے جو چین اور امریکا کی معیشتوں کے درمیان پایا جاتا ہے۔ چین میں معیشت عوام کی خدمت کے لیے ہے، جب کہ امریکا میں عوام کو معیشت کے لیے قربان کیا جاتا ہے۔

    وولف کا استدلال اس نکتے پر منتج ہوتا ہے کہ سرمایہ داری کا منافع پر مبنی ماڈل نہ صرف عوامی مفاد کو نظرانداز کرتا ہے، بلکہ اپنے اندر زوال کے بیج بھی رکھتا ہے۔ جب ریاست اپنی قوتِ فیصلہ نجی شعبے کو منتقل کردیتی ہے اور منڈی کو واحد معیار مان لیتی ہے، تو معیشت محض اشرافیہ کی دولت بڑھانے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اس کے برعکس، جب ریاست عوامی فلاح کو اولین ترجیح بناتی ہے اور نجی شعبے کو قومی اہداف کے تابع رکھتی ہے، تو معیشت ایک ہم آہنگ اور جامع ترقی کی سمت گامزن ہوسکتی ہے۔

    چین اور امریکا کے تجربات کے موازنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سرمایہ داری کا موجودہ ماڈل خصوصاً نیولبرل سرمایہ داری، نہ صرف عدمِ مساوات کو جنم دیتا ہے، بلکہ دیرپا ترقی کے امکانات کو بھی محدود کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک مربوط اور سماجی ترجیحات پر مبنی ماڈل، جیسا کہ چین میں نافذ ہے، نہ صرف قابلِ عمل ہے، بلکہ زیادہ انسانی اور پائیدار بھی ثابت ہوتا ہے۔ 

    اَب سوال یہ ہے کہ عالمی برادری، بالخصوص ترقی پذیر اقوام، امریکی ماڈل کی تقلید جاری رکھیں گی یا چینی طرزِ ترقی سے سیکھ کر ایک نئے راستے کی جانب بڑھیں گی؟

    https://johnmenadue.com/post/2025/05/the-american-dream

    Share via Whatsapp