انسانی اختلافات اور قیام عدل کی جدوجہد - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • انسانی اختلافات اور قیام عدل کی جدوجہد

    انسانی اختلافات اور قیام عدل کی جدجہد

    By Muhammad Rizwan Ghani Published on Feb 19, 2024 Views 485
    انسانی اختلافات اور قیام عدل کی جدوجہد
    تحریر: رضوان آزاد (میرپور)

    تاریخ انسانی کے ہر دور میں انسان نے مختلف حدبندیاں قائم کی ہیں اور انسان کی اپنی بنائی ہوئی حد بندیوں کا جواب دہ بھی خود انسان ہی ہے۔ یہ تمام حدبندیاں ہماری زندگی کی ضرورت ہیں، جب تک یہ اپنے دائرے میں رہتی ہیں۔ اس سے چند افراد نہیں، بلکہ تمام انسان اس سے فائدہ حاصل کرتے ہیں، لیکن جب یہی حدبندیاں انسان خود پامال کرتا ہے تو پھر انسانیت کے لیے تباہی کا باعث بنتی ہیں، تب یہ مفید نتائج کسی بھی سماجی ڈھانچے کو منتشر کرتے ہیں، وہی مقاصد جو ان کے سہارے چمکتے تھے، وہ خاک میں مل جاتے ہیں۔ 
    حد بندیوں کی مختلف اشکال اور ان کے نتائج!
    ایک جغرافیائی حدبندی کا دائرہ ہے، جیسے یورپ، ایشیا، عرب اور ہندوستان وغیرہ، جغرافیہ کے مطابق ایک تقسیم رکھتے ہیں اور ان ممالک کی اپنی حدود و قیود ہیں۔ یہ ممالک دستورو قوانین کےحامل ہیں۔ کوئی ملک کسی دوسرے ملک کی حدود کو بغیر اجازت کے پار نہیں کرسکتا۔ ملکوں کے درمیان حدبندی (بارڈر لائن) کے اصولوں کے مطابق ہوتی ہیں۔ متنازع علاقوں میں بھی کوئی ملک دوسرے ملک پر حملہ آور نہیں ہوسکتا، لیکن افسوس کہ جو ممالک اس وقت پوری دنیا میں طاقت ور ہیں، وہ ان حدبندی کے اصولوں کو اپنے مفاد کے لیے توڑتے ہیں اور نتیجتاً بے دریغ انسانیت کا قتل عام ہوتا ہے۔
    مذہبی حد بندی سے مراد ہم یوں لیں گے کہ کوئی مسلمان ہے کوئی ہندو، عیسائی، سکھ یا دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے مذہبی حد بندی کے دائرہ میں آئیں گے۔ سب جانتے ہیں کہ مذہب دنیا میں لوگوں کی اِصلاح کے لیے آیا ہے۔صلح و آشتی، امن و انصاف کا مہیا کرنا، ہر مذہب کے بنیادی اصولوں میں موجود ہے۔دین اسلام اور مذاہب عالم کی بنیادی تعلیمات کا خلاصہ امام شاہ ولی اللہ ؒ نے چار انسانی خلق بتائے ہیں، جن کو تمام دنیا کے مذاہب قبول کرتے ہیں۔ ان میں طہارت، اخبات، سماحت اور عدالت شامل ہے۔
    ایسی تعلیمات کے باوجود کیا وَجہ ہے کہ دنیائے انسانیت موجودہ عہد میں خون ریز جنگوں کا سامنا کرتی ہے؟ مذہب اسلام تو تمام انسانیت کے لیے راہ نمائی کا باعث ہے، لیکن آج صورتِ حال یکسر مختلف ہے۔ ہماری ذہنی آبیاری ہی اس نہج پر نہیں ہوئی کہ ہم معاملات کو شعور کی آنکھ سے دیکھ سکیں۔ ہم بہت محدود تصور کو ہی کل مان لیتے ہیں، جس کی وَجہ سے نتائج مثبت نہیں آتے۔ 
    قومی حدبندی؛ قومی جمہوریتوں کے بننے کے بعد یہ سمجھنا اَور آسان ہوگیا ہے۔ اس سے مراد جیسے پاکستانی ایک قوم ہیں، ہندوستانی، ایرانی، افغانی، اٹالین، امریکن وغیرہ مختلف قومیں ہیں جو ایک جغرافیائی حدبندی میں خودمختاری کا درجہ رکھتی ہیں۔ اَب کسی جغرافیائی حدود میں رہنے والے ایک قوم کا درجہ رکھتے ہیں. قرآن مجید کی زبان میں اس کی ضرورت اس لیے تھی کہ "لتعارفو" (1) تاکہ تم میں باہم پہچان پیدا ہو۔ لیکن یہی حدبندی جب انسانوں کے اپنے بنائے اصولوں کو توڑنے کی شکل میں سامنے آتی ہے تو قوموں کی تباہی کا باعث بنتی ہیں۔دنیا کا منظرنامہ کچھ یوں ہے کہ طاقت ور استحصالی قومیں تیسری دنیا کی قوموں پر اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے معاشی استحصال کا پروگرام رکھتی ہیں اور کبھی سیاسی انتشار و سماجی تنزلی ان استحصال زدہ اقوام کی پہچان بن جاتا ہے ۔ سرمایہ داریت اور لاقانونینت امن و آشتی کی جگہ لے لیتی ہے۔ گویا پوری قوم اس کا شکار ہوکر ذہنی غلامی قبول کرلیتی ہے اور زوال آمادہ منظرنامے کو اپنی تقدیر مان کر چپ سادھ لیتی ہے۔ 
             لسانی حدبندی؛ جس میں مختلف زبانیں جیسے اردو،بنگالی ، ہندی،سندھی پشتو بولنے والے جو کہ صدیوں سے آپس میں اتحاد اور اتفاق سے رہتے آئے ہیں ۔ پھر رنگ و نسل کی بھی حدبندی وغیرہ جن کا مقصد آپسی پہچان کو قائم رکھنا ہے۔ ان تمام حدبندیوں کا مصداق بھی "لتعارفو" ہے ۔ غرض یہ کہ دنیا کی تمام حدبندیاں کسی سبب کے باعث ہیں اور آج یہ ہماری زندگی پر منفی طور پر حاوی ہوگئی ہیں۔ 
    جب کہ برعظیم ہندوپاک بنگلا دیش کی تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے اس خطے میں اس کثیرالجہتی صورت حال میں مثبت نتائج دینےوالا سماج قائم کیاہے، جس کا واحد سبب دین اسلام کی عالم گیر تعلیمات ہیں جو عالم انسانیت کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئیں۔ ان تعلیمات کا منبع حضور نبی کریمﷺ کی ذاتِ مبارکہ ہے، آپﷺنے خطبہ حجۃ الوداع میں ارشاد فرمایا کہ "تم میں سے کوئی انسان دوسرے انسان پر فوقیت نہیں رکھتا، چاہے وہ کسی بھی رنگ نسل یا ذات پات کا ہو، سوائے اس کے کہ وہ تقوی میں کتنا بہترین ہے"۔ 
    اس ضمن میں قرآن کاارشاد ہے"عدل کرو کہ یہ تقوی کے زیادہ قریب ہے"
    ہم دنیا کے کسی کونے میں بھی آباد ہیں، ہم پر لازم ہے کہ جہاں بھی ظلم ہورہا ہے تو ہمیں اُسوہ رسولﷺ کی روشنی میں عادلانہ نظام کے قیام کی جدوجہد کرنا ہے، تب ہی دنیا و آخرت میں سرخرو ہوسکیں گے۔ آخرت میں ہم سے اس بارے میں پوچھ ہو گی، کیا بغیر کوشش کے کسی بھی نتیجے کا حصول ممکن ہے؟
    حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: "عدل کرنے والے اللہ تعالیٰ کے پاس نور کے منبروں پر رحمن کے دائیں جانب بیٹھے ہوں گے اور رحمن کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں جو لوگ اپنے گھروں اور جن پر ان کو حاکم بنایا گیا ان میں عدل سے فیصلے کریں گے"۔ 
    عالم انسانیت پر ظلم روا رکھنا قابل قبول نہیں ہے 
    یہی وہ نظریہ ہے، جس سے ساری انسانیت روشنی حاصل کرتی ہے۔ آج بھی اس حکمت عملی کو سمجھنے اور دور کے تقاضوں کے مطابق اپنے ہونے کا ثبوت دینے کی ضرورت ہے ۔ تبدیلی تب ہی رونما ہوگی، جب مسلمان نوجوان یہ فیصلہ کر لے کہ اس کو اپنی حالت، عادات اور ہر چیز کو بدلنا ہے، لیکن یہ فیصلہ اسی صورت ممکن ہے، جب جامع دینی نظریے کی روشنی میں جدوجہد کرے،اور ایسی قیادت سامنے نہ لائے جو صرف خاص موقعوں پر برادری اور لسانی بنیاد پر جلسے جلوس کرکے عوامی حمایت حاصل نہ کرے اور محض نعروں کے ساتھ عوام کو اپنے ساتھ نہ ملائے، بلکہ سچے فکر پہ مبنی قیادت عوام سے ابھرنی چاہیے جو قومی مسائل کو سمجھ کر موجود انسانی وسائل کی تعمیر و ترقی کا مربوط لائحہ عمل پیش کرکے قوم کے راہ عمل کا تعین کرے۔
    Share via Whatsapp