مخلص دوست زندگی کا سرمایہ
دوست وہ ہے جن میں یہ چار صفات موجود ہو, دیانتدار ہو, وفادارہو, سچ گو, اور حق بات میں آپ کا تابعدارہو۔
مخلص دوست زندگی کا سرمایہ
اصغر خان سورانی بنوں
پچھلے دنوں ایک نہایت ہی معزز شخصیت کے ساتھ بیٹھا تھا جو اپنے بچوں کو سمجھا رہا تھا کہ دیکھو دوستوں کے چناؤ میں بہت زیادہ احتیاط سے کام لو ، کیوں کہ یہی دوست آپ کی پہچان کا ذریعہ بنیں گے اور یہی لوگ آپ کے غم و تکلیف میں ساتھ دیں گے۔ وہ جو صرف کھانے پینے میں حاضر ہوں اور آپ کے غم اور دکھوں میں غائب ہوں۔وہ بھلا آپ کے سچے دوست کیسے ہوسکتے ہیں؟ دوست وہ ہے، جس میں یہ چار صفات موجود ہوں، دیانت دار ہو، وفادارہو، سچ گو اور حق بات میں آپ کا تابعدارہو۔انھی صفات سے لفظ( د.و.س.ت) دوست بنتا ہے۔
قرآن کریم نے بھی سورۃالفرقان میں اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ قیامت میں جو لوگ خسارے میں ہوں گے وہ یہی افسوس کریں گے کہ اے کاش! میں فلاں بندے کو دوست نہ بناتا، کیوں کہ اس کی دوستی کی وَجہ سے مجھے آج یہ نقصان اُٹھانا پڑا ۔ارشاد باری تعالٰی ہے:
ترجمہ:اے میری بربادی ، کاش کہ نہ پکڑا ہوتا میں نے فلاں کو دوست۔(سورۃ الفرقان-28)
اس سماجی شخصیت کی باتیں سن کر میں واقعی سوچ میں پڑ گیا کہ واقعی وہ صحیح کہہ رہے ہیں ۔ اور یہی دیکھنے کو ملا ہے کہ جب خاندان میں کوئی خوشی ہوتی ہے تو مدعوین کی فہرست اوسطًا 500سے 700 کے لگ بھگ بن جاتی ہے۔تقریب کے بعد احساس ہوتا ہے کہ فلاں فلاں بلاوے سے رہ گئے تھے۔ کچھ لوگ شکوہ کرتے ہیں کہ ہمیں نہیں بلایا گیا۔لیکن شاید ہم نے یہ بات نہ سوچی ہوکہ جب اسی خاندان میں کسی مریض کے لیے خون یا مالی مدد کی ضرورت پڑتی ہے توکیا اتنے ہی لوگ دستیاب ہوتے ہیں؟ پھر یہ لسٹ سکڑتی نظر آتی ہے۔ کسی سیانے نے کیا خوب کہا ہےکہ "دوست وہ ہے جو مصیبت میں کام آئے"۔
جب پریشانی ہوتی ہےتو بندہ نہ دارد۔میں سوچ رہا تھا کہ جب پریشانی ہے ، تکلیف ہےتو وہ لوگ کدھر چلے جاتے ہیں جو کہتے تھے کہ دعوت میں ہمیں بھلا دیا؟
اکثر اوقات جب کسی مشورے کی ضرورت پڑتی ہے تو اچھے اور مخلص دوستوں سے ملتے ہیں۔ ان سے مشورہ لیتےہیں اور اس کے بعد عملی قدم اُٹھاتے ہیں۔اچھے دوست آپ کو وقت پر صحیح مشورہ دے سکتے ہیں۔ جو آج کےاس پُرفتن دور میں سب سے قیمتی اثاثہ ہیں ۔ اسی طرح اگر آپ دونوں جہانوں میں کامیابی حاصل کرنے کے مشن پر ہیں تو بھی سچے دوست ہی آپ کے معاون بن سکتے ہیں۔یہاں پر اگر گہرائی سے غور کرلیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ دوستوں کے انتخاب میں ٹھوکر کھائی ہے۔لہٰذامخلص اور سچے دوست ہی آپ کے سچے مدعوئین ہیں۔ انھی کو آپ دعوت دے سکتے ہیں، اپنے مشن میں شریک کرسکتے ہیں، اپنی ہر خوشی و غمی پر ، اگر آپ کا انتخاب صحیح ہو جائے تو آپ روزِقیامت افسوس نہیں کریں گے۔ہر انسان کو باعزت زندگی گزارنے اور دنیا و آخرت میں کامیابی کی جدوجہد کرنے کا پورا حق ہے۔اور اس میں لا محالہ طور پر اسے سچے دوستوں کی معیت اور ساتھ چاہیے۔
آپ ﷺ کی حیات مبارکہ سے روشن مثال ہمارے سامنے ہےکہ آپ ﷺ نے جب اپنے دور کے سماج کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا تو آپ نے سب سے پہلے اس کام میں معاونت کے لیے اپنی رفیقہ حیات حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو دعوت دی۔اپنے سچے دوستوں میں سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنے مشن میں شریک کار کیا ۔ان سچے رفقا کے تعاون سے آپ نے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا، جنھوں نے نہ صرف اپنے مال سے تعاون کیا، بلکہ مصیبتیں بھی آپ کے ساتھ جھیلیں ۔ صدیق کا لقب پانے والے ابوبکررضی اللہ عنہ ہر مشکل گھڑی اور سفر میں آپ کے ساتھ کھڑے رہے۔ صحابہؓ جیسے عظیم لوگ مشکل وقت میں ہی آپ کے ساتھ شریک سفر ہوئے۔ پھر کبھی آپ ﷺ کو تنہا نہیں چھوڑا۔ آپ کے دنیا سے پردہ کرنے کے بعد آپ کےعظیم مشن کو آگے بڑھایا۔ ایسی دوستی جو سماج کی ترقی کا سبب بن جائے کیا ہی عظیم دوستی ہے،جس کی طرف قرآن نے اشارہ کیا کہ یہ لوگ نیکی، تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔اگر سماج بگڑ جائے اور جھوٹ پر کھڑا ہو، تو وہاں دوستی گناہ، سرکشی اور بے کار کے کاموں پر ہوتی ہے۔ ایسے سماج میں دوستی ،برائی میں تعاون کے لیے تو ہوتی ہے، لیکن اعلیٰ انسانی کاموں پر نہیں۔ ایسے میں کسی دوست کو اخلاق کی دعوت دینا، انسانیت دوستی کا پیغام دینا، انسان دوست لوگوں کو ڈھونڈنا، انسا ن دوست اجتماعیت میں رہنا ہی سب سے بڑا مشن ہے۔ ایسے دوستوں کی اجتماعیت ہی زندگی کا سرمایہ ہوتی ہے۔