بستی بسنا کھیل نہیں! - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • بستی بسنا کھیل نہیں!

    بستی بسنا کھیل نہیں!

    By Adil Badshah Published on Jan 09, 2024 Views 815
    بستی بسنا کھیل نہیں! 
    تحریر : عادل بادشاہ- مانسہرہ

    اللہ نے کائنات کا نظام اس اصول پہ رکھا ہے کہ اسےتبدیل نہیں کیا جاسکتا، یعنی کائنات اللہ کی سنت universal laws کے مطابق چل رہی ہے۔ اللہ نے ہر کام کرنے کے لیے طبعی قوانین رکھے ہیں، کائنات میں کسی کام کے مکمل ہونے کے لیے ایک ماحول اور ٹائم درکار ہوتا ہے اور زمین بھی کائنات کا ایک حصہ ہے۔ اس کے ارتقا میں ایک متعین وقت لگا ہے، مثلاً اگر بیج کا دانہ زمین میں بوتے ہیں تو اس کے لیے ایک مناسب ٹمپریچر، ماحول اور ٹائم کی ضرورت ہوتی ہے، تب جاکر وہ پروان چڑھتا ہے اور پھل دیتا ہے،اگر اسے مناسب ماحول اور وقت نہ ملے تو وہ مرجھا جاتا ہے اور اس سے پھل حاصل نہیں ہوسکتا ۔ اسی طرح انسان کی پیدائش اور اس کی بڑھوتری کا عمل ہے.ایک بچہ بھی پہلے مادرِرحم ، پھر ماں کی گود ، پھر گھر کا ماحول ، پھر گھر سے باہر کے ماحول سے جوانی کی طرف بڑھتا ہے، یعنی انسان کی نشوونما کے لیے بھی ایک مناسب ماحول اور ٹائم کی ضرورت ہوتی ہے، اگر اسے مناسب خوراک نہ ملے تو وہ stunting کا شکار رہتا ہے یعنی اس کی بڑھوتری رک جاتی ہے۔ ہم قدرتی آفات کے حوالے سے بھی اس کے نظام کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر زلزلہ کو دیکھ لیں، لگتا ہے کہ اچانک آ گیا، لیکن وہ بھی ایک پورے عمل سے گزرتا ہےtectonic plats کے درمیان رگڑ اور پھرenergy کا پیدا ہونا اور پھر اس energy کا کسی خاص جگہ سے نکلنا، زلزلے کا باعث بنتا ہے۔ اَب یہ ایک عمل پورا ہوتا ہے، جس کے لیے اس کا ایک ٹائم ہے تو زلزلہ آتا ہے۔ سمندری طوفان کا مشاہدہ کرلیں اس کی پیدائش وہاں ہوتی ہے، جہاں low pressure area بنتا ہے، یعنی سمندر کی وہ جگہ جہاں ہوا کا دباؤ کم ہوتا ہے تو وہ پھر مختلف مراحل depression , deep depression , Tropical Cyclone سے گزر کر category 5 تک پہنچتا ہے۔ جیسے جیسے وہ خشکی کے قریب آتا ہے تو اس کی شدت کم ہوتی جاتی ہے، کیوں کہ اس کی خوراک نمی ہے جو وہ سمندر سے لے رہا ہوتا ہے اور خشکی سے اس کو نمی نہیں مل رہی ہوتی، اس لیے خشکی کے قریب کمزور ہونا شروع ہوجاتا ہے،لیکن اسے جہاں ماحول ملتا ہے، اس کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔ 
    کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر چیز کے لیے کائنات میں process and procedures define طریقہ کار واضح ہے۔ جب وہ سارا عمل کسی واقعہ کے رونما ہونے اور بنانے کا پورا ہو جاتا ہے تو خود بہ خود وہاں نتیجہ پیدا ہوتا ہے ہم پانی کی ہی مثال لے لیتے ہیں، جب دو ایٹم ہائیڈروجن اور ایک ایٹم آکسیجن ہوتی ہے تو پانی بن جاتا ہے۔ 
    اسی تناظر میں ہم سماجی تبدیلی کا بھی تجزیہ کرسکتے ہیں، اس کے لیے بھی اللہ کی سنت یعنی universal law ہے۔ایک آیت مبارکہ کی روشنی میں خدا اس قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک وہ اپنی حالت کو خود نہیں بدلتی ۔  اللہ کایہ طریقہ جو خود اس نے طے کردیا وہ تبدیل نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ شعوری سماجی تبدیلی کا فارمولا کیا ہے، مولانا عبیداللہ سندھیؒ کہتے ہیں وہ بھی کائناتی اصول universal procedure ہے ۔ موجودہ سوسائٹی کسی نہ کسی نظریہ پر نظام قائم ہے تو چل رہی ہے، چاہے وہ نظام استحصال کی بنیاد پر ہی کیوں نہ کھڑا ہو۔ اور اس کو ایک مفادپرست جماعت چلا رہی ہوتی ہے اور ان کے اس نظام کو چلانے کے لیے ایک پروگرام بھی ہوتا ہے، جس کے ذریعے سے عوام کا استحصال ہورہا ہوتا ہے۔ اَب سوسائٹی میں تبدیلی لانی ہے تو متبادل نظریہ کا ہونا ضروری ہے، جس پر متبادل نظام قائم کرسکیں پھر اس پر ایک تربیت یافتہ جماعت کا ہونا ضروری ہے جو موجودہ نظام کو بھی سمجھتی ہو اور جو نظام قائم کرنا ہے، اس کا بھی شعور رکھتی ہو، اور تیسری چیز فرسودہ نظام کو تبدیل کرنے کے لیے ایک پروگرام کا ہونا بھی ضروری ہے۔ دنیا میں جہاں بھی تبدیلی آئی ہے، چاہے وہ انبیاعلیہم السلام کے ذریعے سے آئی ہو یا آج کے جدید دور میں لائی گئی ہو، اسی universal formula کے تحت آئی ہے، کیوں کہ یہ ایک عالمگیر قانون ہے، جس طرح اوپر بات کی گئی کہ کسی واقعہ کے رونما ہونے کے لیے ٹائم اور ماحول کا سازگار ہونا ضروری ہے۔ نئے نظریہ پر ایک جماعت کھڑی کرنے کے لیے بہت زیادہ ٹائم درکار ہوتا ہے کیوں کہ سوسائٹی میں رفتہ رفتہ غلط اصول، طرز حیات dogmas بن جاتے ہیں اور ان کو بدلنا خود اس قوم کے لیے مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ آپﷺنے 23 سال صرف کیے، حال آں کہ آپ ﷺ کائنات کی سب سے اعلیٰ اور بڑی شخصیت ہیں ۔ آپﷺ پر قرآن بتدریج اُترتا رہا، کیوں کہ وہاں ماحول بنتا رہا اور اس ماحول کے مطابق planning ہوتی رہی، اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام نے  900  سو سال تک لوگوں کے فرسودہ رویے کو تبدیل کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کی قوم اس تبدیلی کے لیے آمادہ نہ ہوئی۔ ان کے دلوں میں پست ہمتی آہستہ آہستہ جگہ بنا چکی تھی ۔اس لیے حضرت سندھیؒ فرماتے ہیں کہ شکست خوردہ سوسائٹی میں سب سے مشکل مرحلہ اس سوسائٹی سے باصلاحیت افراد منتخب کرنا اور جماعت سازی کا ہوتا ہے۔ شعوری سماجی تبدیلی یا انقلاب کے لیے وقت کا تعین Calculate نہیں کیا جاسکتا وہ حالات اور ماحول پر منحصر ہوتا ہے، جس طرح دانے کو اچھا اور favorable ماحول مل جائے تو وہ جلدی جوان ہو جاتا ہے یا سائیکلون کو moisture سمندر سے ملتا رہے تو grow کرتا جاتا ہے۔ اسی طرح جماعت سازی کا بھی عمل ہوتا ہے، با صلاحیت لوگ ملتے جائیں تو تنظیم ترقی grow کرتی جاتی ہے اور جب ان کی صلاحیت جو فرسودہ نظام چلانے والے ہیں، کی صلاحیت کو exceed کرجاتی ہے یا ان کے equalہوجاتی ہے تو سماجی تبدیلی کے لیےسماجی ماحول Social environment بننا شروع ہو جاتا ہے۔ جب آپ ﷺ کی جماعت اس قابل ہو گئی کہ وہ ایک نظام بنا کے چلا سکے توان کی اس محنت کے نتیجے میں مدینہ میں ان کے لیے ماحول ہموار ہوگیا۔اسی طرح جدید دور میں دیکھیں مارکس نے نظریہ جرمنی میں بیٹھ کے لکھا، لیکن جماعت اور اس کو ماحول روس میں ملا۔ خدا کا قانون جماعت کی صلاحیت اور استعداد کو دیکھتا ہے۔ آج چند سرمایہ دار پوری دنیا کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں اور جھوٹ پر مبنی  پوری دنیا کا نظام چلا رہے ہیں،چوں کہ وہ نظام چلانے کی استعداد رکھتے ہیں اور ان کو وہی چیلنج کرسکے گا، جو ان کے متبادل نظام بنانے اور چلانے کی استعداد رکھتا ہوگا۔یہ بات بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت  ہے کہ کوئی بھی جماعت یک دم بین الااقوامی نظام نہیں بنا سکتی، آج بہت سی جماعتیں مذہب اسلام کے نام پر بین الااقوامی خلافت کا دعوی کررہی ہیں جو سماجی تبدیلی کے process and procedures کے برعکس ہے، کسی بھی جماعت کو پہلے قومی نظام بنانا ہو گا۔ آپﷺ کی جماعت کو دیکھ لیں۔ پہلے قومی سطح پر تبدیلی لا کر ایک قومی ریاست قائم کی۔ اس کے بعد بین الااقوامی نظام قائم کیا۔کسی بھی حادثہ، واقعہ یا انقلاب کے لیے کائنات اپنا طریقہ کار Process and Procedures پورا کرتی ہے، تب جا کر نتیجہ اخذ ہوتا ہے۔ کسی شاعر نے کہا تھا کہ 
    بستی بسنا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے
    Share via Whatsapp