معاشرتی زوال سے نکلنے کے لیے جدوجہد کی اہمیت - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • معاشرتی زوال سے نکلنے کے لیے جدوجہد کی اہمیت

    معاشرے کو زوال نکالنے کیلئے دعاؤوں کے ساتھ ساتھ شعوری جدوجہد کی بھی ضرورت ہے

    By عمادالحق Published on Jan 24, 2024 Views 951
    معاشرتی زوال سے نکلنے کے لیے جدوجہد کی اہمیت
    تحریر؛ عمادالحق، نوشہرہ 

    بلاشبہ اللہ تعالیٰ صرف امر کن سے ناکام کو کامیاب اور کامیاب کو ناکام بناسکتا ہے، وہ ایک معمولی اشارے سے قوموں کی قسمتیں پلٹ سکتا ہے،مگر چوں کہ یہ مادی دنیا ہے۔ لہٰذا اس عالم اسباب میں ایسا نہیں کرتا، بلکہ اپنے فرمان کے مطابق: 
    "وہ قوموں کو آزماتا ہے، ان کی صلاحیتوں کا موازنہ کرتا ہے اور عمل اور صلاحیت کے مطابق نتائج سے بہرہ ور کرتا ہے"۔(سورۃ الانعام) 
    یہ دنیا چوں کہ دارلاسباب ہے تو یہاں پر ’اسباب اور نتائج‘کا قانون بھی رائج ہے، یعنی جس طرح کا عمل اپنایا جائےگا، نتیجہ بھی اسی طرح نکلے گا۔ انسان کا اپنا ہی عمل اس کی کامیابی اور ناکامی کا سبب ہوتا ہے۔ اَب انسان اپنے کسی بےاحتیاطی کے سبب بیمار پڑتا ہے تو اس کی شفایابی صرف اس صورت ممکن ہوسکتی ہے۔ جب ایک طرف وہ اس بےاحتیاطی کو ترک کردے اور دوسری طرف اس کا علاج کرے اور ساتھ میں اللہ تعالیٰ سے صحت یابی کی دعائیں بھی ما نگے۔ لیکن اگر وہ اُسی بےاحتیاطی کو جو اس کی بیماری کا بنیادی سبب بنی ، کو چھوڑے بغیر علاج کرتا ہے یا علاج بھی نہیں کرتا صرف شفایابی کے لیے دعائیں مانگتا ہے تو اس صورت میں اس کی صحت یابی نہیں ہوسکتی۔ بعینہٖ انسان کے اجتماعی اعمال معاشرے کی ترقی یا زوال کا سبب بنتے ہیں۔ اگر معاشرہ زوال کا شکار ہے یعنی بیمار ہے تو اس کا علاج بھی بالکل اسی طرح کیا جائے گا، جس طرح ایک بیمار انسان کا، یعنی مرض کی تشخیص، اس کے بنیادی اسباب اور پھر اس کا علاج اور اللہ تعالیٰ سے نصرت کی طلب۔ مطلب کہ بگاڑ کے بنیادی اسباب کو ختم کیے بغیر محض دعاؤں سے معاشرہ زوال سے نہیں نکلتا۔ 
    اس عمل کی بڑی مثال ہمارے سامنے حضور پاک ﷺ اور ان کی جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت مبارکہ ہے۔ ایک طرف معاشرے کے معاشی، سیاسی اور سماجی ڈھانچے کی زبوں حالی کے امراض کی تشخیص اور بنیادی اسباب کا تعین کیا جاتا ہے،اس کےساتھ ان امراض کو ختم کرنے، اورعلاج کے طور پر سماجی تبدیلی کے عملی اقدامات کیے جاتے ہیں تو دوسری طرف اللہ تعالیٰ سے نصرت اور مدد کی دعائیں بھی مانگی جاتیں ہیں۔ جنگ کی نوبت آتی ہے تو اس کے لیے میسر وسائل کو اختیار کر کے میدان میں آتے ہیں اور ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعاؤں اور اپنی عاجزی کے اِظہار کے ذریعے نصرت بھی طلب کرتے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرما کر ان کو کامیاب بھی فرماتے ہیں۔ حضور اقدس ﷺ اور ان کے صحابہؓ کی پوری تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ آپ ﷺ اور جماعت صحابہؓ نے کبھی کسی معاملے میں میسر وسائل کو استعمال کیے بغیر صرف اور صرف دعاؤں پر اکتفا نہیں کیا ہے۔
    آج ہمارا معاشرہ، جو زوال کی نچلی حدوں کو چھو رہا ہے،تو غور طلب بات یہ ہے کہ اس کو زوال سے نکالنے ، اس کی بہتری اور ترقی کے لیے ہم کیا کر رہے ہیں؟ اگر دیکھا جائے تو ایک طرف مروجہ سیاسی قوتیں قومی زوال کی مزید بڑھوتری کرنے میں اپنا سیاسی حصہ ڈال رہی ہیں، تو دوسری طرف اگر ایک نام نہاد مذہبی طبقہ سیاسی فرعونوں کے تابع فرمان ہوکر اپنے پیٹ کی حرص و آز کی بھوک مٹارہا ہے تو دوسرا طبقہ اصلاح کے نام پر سماجی زوال کی کش مکش سے دور بھولا بن کر اِنفرادی اصلاح کی سعی لاحاصل میں مگن ہے، اور عملی اقدامات سے قطع نظر صرف دعاؤں پر اکتفا کررہے ہیں۔ ہم اپنے معاشرے کے ساتھ کچھ اس طرح کر رہے ہیں، جس طرح ایک شخص کو زہر بھی دیا جا رہا ہو اور ساتھ بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت کرکے اس کی صحت کے لیے دعائیں بھی مانگی جا رہی ہوں۔ اس صورتِ حال میں محض دعا اپنا اثر کیسے دکھائے گی۔
    آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے معاشرے کے زوال کے اسباب اور وجوہات کو سمجھیں اور رسول اللہ ﷺاورصحابہؓ  کی سیرت کی روشنی میں ان کا حل تلاش کر کے اس کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں، تب ہی سماجی زوال اور پستی سے نکل سکتے ہیں۔
    Share via Whatsapp