معقول رویوں کی ضرورت
معاشرے میں عدم برداشت اور جذباتیت کی وجوہات پر مبنی تحریر
معقول رویوں کی ضرورت
تحریر :محمد رضوان غنی ۔ (میرپور آزاد کشمیر)
انسان کے قدرتی خواص میں سے ایک اہم خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے اپنا تعلق استوار کرنا پسند کرتا ہے جو اچھے اخلاق کے مالک ہوں،اچھے اخلاق کی وَجہ سے معاشرہ بھی اعلیٰ بن جاتا ہے اور تمام معاملات میں ایک متوازن اعتدال پیدا ہوتا ہے۔لیکن جب اپنے معاشرے پر نگاہ ڈالتے ہیں تو دکھائی یہ دیتا ہے کہ ہمارا معاشرہ جذبات سے بھرپور معاشرہ ہے، جہاں صبر اور برداشت جیسے اعلیٰ اوصاف کہیں گم ہو کر رہ گئے ہیں۔ ہمیں اپنے لیے تو دوسروں کے بہتر رویے درکار ہوتے ہیں، لیکن ہماری نیت اور رویے دوسروں کے بارے میں کیا ہوتے ہیں؟ کیا ہم بغیر مفاد کے دوسرے افراد سے معقول انداز میں بات کرتے ہیں یا ایک مصنوعی انداز اختیار کرتے ہیں اور کیا یہ ہماری فطرت کا حصہ ہے؟ اس کا جواب ایک صحت مندذہن ہی دے سکتا ہے۔
ہمیں اپنی زندگی میں بچپن سے لے کر بڑھاپے تک ایسے ہی مخلص اور معقول رویوں کی ضرورت ہوتی ہے جو انسان کو گمراہی اور بے راہ روی سے بچا سکتے ہیں۔ ہماری زندگی کے مثبت پہلوؤں سے صرف ہماری ذات نہیں، بلکہ پورا اجتماع، جو ہم سے منسلک ہے، وہ فائدہ اُٹھاتا ہے۔ انسان کی تعریف بھی یہی ہے کہ اس کے شر سے باقی انسان محفوظ ہوں، وہ اپنی انانیت اور انفرادیت سے نکل کر اجتماعی ترقی کی سوچ کا حامل ہو۔ معاشرے میں درج ذیل وجوہات کی بنا پر عدم توازن اور نامعقولیت پیدا ہوتی ہے۔
1۔ ہمارے تعلیمی نظام میں ایسی کوئی قوت موجود نہیں ہے جو معاشرےمیں پیدا ہونے والے منفی رویوں کا توڑ کر سکے۔یہاں تو تعلیم شعوری تقاضے پیدا کرنے کے بجائے مرعوبیت کا ایسا بیج لگا دیتی ہے جو ساری زندگی ایک ناسور کی طرح ہمارے ساتھ جوان ہوتا ہے۔یوں جوانی میں پہنچتے ہی ہم جذباتیت اور نرگسیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
2۔ معقول انسان بننے کے مراحل کی اگر بات کی جائے تو پہلی درس گاہ اس کا گھر ہے۔اس کے ماں باپ اور بہن بھائی اس کی راہ نمائی اور اچھا انسان بننے کی گنجائش پیدا کرتے ہیں، یہ اسی صورت ممکن ہے جب ہمارا رویہ معقول ہوگا، اَب اگر گھر میں معقول رویے ہوں گے تو فرد کے اندر معقولیت پیدا ہوگی اور گھر میں معقولیت معاشرتی توازن کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔جب کہ ہمارے معاشرے میں یہ چیز عنقا ہے۔
3۔ گھر کے بعد اگلے مرحلے میں ہمارا سامنا معاشرے سے ہوتا ہے، جس کا سب سے اہم رکن ریاست ہے۔ اَب اگر ریاست ایک اخلاقی درجہ کی ہوگی تو اس کے نتیجے میں ہم (عوام) بھی بہتر زندگی کی طرف گامزن ہوں گے، لیکن اگر ریاست خود غیرمتوازن ہو، معاشرے کے اہم شعبے سیاست و معیشت چند خاندانوں یا خود ساختہ اعلیٰ طبقے کی پکڑ میں ہو، تو اس کے نتائج بھی مضرت رساں ہوں گے، جس کے اَثرات ہم عوام تک پہنچتے رہتے ہیں۔ یہاں غیرمتوازن ریاست سے مراد ایسی ریاست ہے، جہاں آئین، قانون اور اخلاقیات کی دھجیاں اُڑانے والوں کو اہم اور بالادست سمجھا جائے۔
4۔ جیسے دھرتی ماں کا درجہ رکھتی ہے، ویسے ہی ریاست کا نظام اور اس کے حکمران اس کی حفاظت کے ذمہ دار ہوتے ہیں، یہی حکمران ایسا معقول نظام مملکت ترتیب دے سکتے ہیں جو انصاف پر مبنی ہو، جو بغیر کسی تفریق کے تمام عوام کو ان کے بنیادی حقوق مہیا کریں۔ اس کی مثال ایسے ہے، جیسے ہمارے جسم میں خون کی گردش ایک متوازن رفتار سے ہوتی ہے۔اگر اس کی رفتار میں کسی وَجہ سے کمی یا زیادتی آ جائے تو دونوں صورتوں میں توازن برقرار نہیں رہتا اور انسانی جسم کام کرنے کے قابل نہیں رہتا سارا جسم مفلوج ہوجاتا ہے اور آخر میں اس کی طاقت کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔بالکل ایسے ہی جب ریاست کا نظام غیرمتوازن ہوتا ہے اور اس کو چلانے والے کوئی ڈنڈی مارتے ہیں۔ سرمائے کا رخ ایک چھوٹے سے بالادست طبقہ کی طرف ہوتا ہے اور دوسرا عوام کا طبقہ دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہو جاتا ہے، تب معاشرہ تنزلی کا شکار ہوجاتا ہے اور غیرمتوازن صورتِ حال کی وَجہ سے پوری ریاست پر اس کا اثر پڑتا ہے۔گویا انسانی جسم کی مانند ریاستی جسم بھی متوازن کردار کا حامل ہونا چاہیے،تبھی صحت مند ذہن پیدا ہوں گے جو ایک معقول ذہنیت کے ساتھ معاشرے کا اہم رکن ثابت ہوں گے۔
5۔ عربی کا ایک مشہور مقولہ ہے، "الناس على دين ملوكهم" (لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں) اس مقولہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عوام کے بہتر اخلاق کا تعلق حکمران طبقے کی اخلاقیات پر منحصر ہوتا ہے۔ جب حکمرانوں کی پالیسیاں عوام کے حق میں نہیں ہوں گی، طبقہ واریت، اقرباپروری، عدم مساوات، نا انصافی اور لا قانونیت کا دور دورہ ہو گا تو اس کے اَثرات پوری قوم پر پڑتے ہیں اور ایسے حالات میں اچھے اخلاق اور معقول ذہنیت بنانا ایک خواب ہی لگتا ہے۔
6۔ انسان ہونے کے ناطے ہمارا واسطہ دوسرے انسانوں سے کسی نا کسی شکل میں رہتا ہے، اس لیے اگر اس معقولیت کو ترقی دینی ہے تو اپنی ذات کے دائرے سے باہر نکل کر قومی دائرہ میں سوچنا ہو گا کہ کیا وَجہ ہے جو ہم دن بدن اخلاقیات سے گرتے جا رہے ہیں۔کیا اس میں ہمارے والدین کا قصور ہے، جن کی تربیت معیاری نہیں تھی؟ یا ریاستی نااہلی ہے کہ ایسا معیاری نظام ہی نہیں دیا گیا جو قوم کے نوجوانوں میں قومی سوچ پیدا کر سکتا ہو۔ اَب چوں کہ نوجوان نے ہی ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہوتی ہے تو کیا یہاں نوجوانوں کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ ملک کی باگ ڈورسنبھالیں؟ کیا کسی سطح پر ایسا نظام موجود ہے کہ اعلیٰ سوچ کے حامل نوجوانوں کو آگے لایا جائے اور بہترین نظام چلانے کی صلاحیت کو پیدا کیا جائے؟ اس کا جواب بھی نفی میں ہی مل رہا ہے۔یہاں تو کچھ خاندانوں کی سیاست ہے جو باری باری آتے ہیں اور ایسے خوش نما نعرے دیتے ہیں اور نوجوانوں کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں ان کو آپس میں لڑاتے ہیں، ان میں معقولیت کو ختم کر کے جذباتیت کو ابھارتے ہیں، غیرضروری بحث و تکرار اور طبقاتیت کو فروغ دیتے ہیں، رہی سہی کسر ہمارا سیاسی مذہبی طبقہ نکال دیتا ہے جو عالمی سرمایہ داریت کو خوش نما نعروں کے ساتھ پیش کرتے ہیں اور ہم بغیر تحقیق کے آمین کہہ دیتے ہیں۔ اس طرح سطحی سوچ کا غلبہ ہو جاتا ہے، یہی نہیں انھی نوجوانوں کو استعمال کر کے ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیتے ہیں یا اپنا ماننے سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔
7۔ ایک اَور خرابی جو ہماری اخلاقیات کی تباہی کی وَجہ ہے اور ہمارے ملک کے مقدر میں لکھی گئی ہے وہ ہمارے ہاں معاشی تنگ دستی ہے جو اپنی عروج پر ہے، اور معاشی تنگی نتیجہ ہے سرمایہ دارانہ نظام کا۔ ایسے حالات میں کیا صحت مند ذہن تیار ہو گا؟
الغرض، قوم کی اخلاقیات کا تعلق معاشرے سے ہوتا ہے اور معاشرہ ریاستی اصول و قوانین پر گامزن ہوتا ہے، ان اصول و قوانین کو بنانے والے ہمارے حکمران ہیں، اَب اگر حکمران قوم کی ترجیحات کو سامنے رکھتے ہوئے مفید قانون سازی کریں گے تو اس کے نتائج پوری قوم میں ظاہر ہوں گے۔ بعینہٖ اسی طرح اگر اوپری سطح پر لاقانونیت ہوگی تو اس کے نتائج نچلی سطح تک آئیں گے، یہی وَجہ ہے کہ آج تمام لوگ خود کو یہاں محفوظ تصور نہیں کرتے اور یہاں سے نکلنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنی تمام تر توانائی دوسرے ملک میں جانے کے لیے صرف کرتے ہیں۔ اَب ہمیں خود سے بھی سوال کرنا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، ہم نے ذاتی سوچ کو قومی سوچ پر ترجیح دی ہے یا نہیں؟ کیا ہم کوئی قومی کردار ادا کر رہے ہیں؟ آج کے دور کی معقولیت یہی ہے کہ آپ اس ملک اور قوم کے لیے مثبت ذہن رکھتے ہیں اور ملک میں رہ کر اس کے حالات کو بہتر بنانے کی سوچ رکھتے ہیں جب یہ سوچ پائیدار ہو گی تو اللہ تعالیٰ بھی ہمیں اس راستہ پر استقامت عطا فرمائے گا، جس کی بنیاد پر ہم پوری قوم کے لیے کردار ادا کرنے کے قابل ہوں گے۔