سوشل کنٹریکٹ اور فریقین کا کردار - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سوشل کنٹریکٹ اور فریقین کا کردار

    معاشرے معاہدوں سے ہی قیام عمل میں آتے ہیں اور معاہدوں کی پاسداری سے ہی ترقی کرتے ہیں.

    By محمد عرفان شہزاد Published on Nov 02, 2023 Views 893

    سوشل کنٹریکٹ اور فریقین کا کردار

     

    تحریر؛ محمد عرفان شہزاد۔ لاہور 

     

    سوشل کنٹریکٹ کی ایک سادہ سی تعریف یہ ہے کہ افراد اور ریاست کے درمیان ایسا معاہدہ جس میں افراد اپنے کچھ اختیارات سے محروم ہو کر اجتماعی حکومت کو قبول کرتے ہیں اور حکومت اس کے بدلے عوام کی بہتری کے کام کرتی ہے۔ 

    عمرانی معاہدہ اُن تمام معاہدات، قوانین ،ضابطوں و اخلاقیات کا مرکب ہے جو سماج چلانے والوں اور سماج میں رہنے والے افراد کے درمیان اس نیت سے کیا جائے کہ تمام سماجی سرگرمیوں کو منظم انداز میں رواں دواں رکھا جا سکے۔ہم اسے ایک ایسے متفقہ فیصلے کی نسبت بھی سمجھ سکتے ہیں کہ جس کے تحت سماج کی تمام اکائیاں کسی حد تک اپنی مکمل آزادی سے دستبردار ہوتے ہوئے مجموعی اچھائیوں کی جانب راغب ہوتے ہیں۔ 

    معاشرے کی سب سے چھوٹی اکائی یا پہلا اجتماعی یونٹ یعنی گھر بھی مرد اور عورت کے درمیان ایک معاہدے سے ہی قیام عمل میں آتا ہے۔ گھر میں بھی ذمہ داریوں اور حقوق و فرائض کا تعین ہو جائے اور ہر فریق اپنی ذمہ داری مکمل طور پر پوری کرے تو گھر مجموعی طور پر ترقی کرتا ہے۔ 

    اسی طرح معاشرے میں بھی دو فریق عوام اور حکمران کے درمیان ایک معاہدہ ہے۔ افراد اپنے حقِ حکمرانی سے دستبردار ہو کر کسی کو یہ حق سونپتے ہیں تو بدلے میں ان اختیارات کو استعمال کرنے والوں کا فرض ہے کہ وہ عوام کی جان، مال اور عزت کا تحفظ یقینی بنائیں۔ 

    ملک کی صورتِ حال کا جائزہ لیں تو ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام اور حکمران طاقت کے درمیان یہ معاہدہ کمزور تر ہوتا جا رہا ہے۔ عوام نے اپنا حقِ حکمرانی جن اداروں کو سرنڈر کیا تھا اور یہ حق ان کے پاس عوام کی امانت تھی، وہ بددیانتی کی انتہا چُھو رہے ہیں۔ خود کو مطلق حکمران سمجھ بیٹھے ہیں اور یک طرفہ فیصلوں سے سوشل کنٹریکٹ توڑنے کے مسلسل مرتکب ہو رہے ہیں۔ 

    عوام سے ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکس اور ظالمانہ قوانین کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانوں کا اطلاق تو موجود ہے،لیکن اس کے عوض ریاست کی جو بنیادی ذمہ داریاں ہیں وہ معاشرے میں کُلی طور پر مفقود ہیں۔ 

    1. میعاری تعلیم کا حصول شہری خود سے بھاری بھرکم فیسیں ادا کر کے یقینی بنا رہا ہے۔ 

    2. صحت کی بہتر سہولیات کے لیے خود ادائیگی کرتا ہے۔

    3. کسی معاملے میں انصاف چاہیے ہو تو وکیل اور عدالت کی فیس خود ادا کرتا ہے۔

    4. سیکیورٹی کے لیے cctv خود سے لگواتا ہے، چوکی دار یا گارڈ کی تنخواہ پلے سے ادا کرتا ہے۔ 

    5. کچرا اُٹھانے والے کو خود سے پیسے دیتا ہے۔

    6. خوردونوش کی اشیا کی قیمتیں کنٹرول کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر بائیکاٹ کی تحریکات خود چلاتا ہے۔

    7. کوئی سواری خریدتا ہے تو رجسٹریشن کی مد میں ٹیکس دیتا ہے، پھر ہر کلومیٹر چلانے پر پٹرول کی قیمت میں ٹیکس دیتا ہے۔ اگر موٹرویز استعمال کرے تو الگ سے ٹیکس ہے اور پھر سواری رکھنے پر سالانہ ٹیکس ہے۔

    8. بجلی،گیس اور انٹرنیٹ کے بِلوں میں جی ایس ٹی کے علاوہ ایسکٹرا فردر، فکسڈ، فیول پرائس ایڈجسمنٹ وغیرہ کئی قسم کے ٹیکس بھی دیتا ہے۔وغیرہ وغیرہ

    ایک طویل فہرست ہے، جس مد میں ساری کوششیں اور ادائگیاں خود سے کرنی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سوشل کنٹریکٹ دو فریقوں کے مابین ہوتا ہے تو دوسرا فریق کہاں ہے؟ اس کی کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟ کیا اس نے کوئی ایسا مربوط طریقہ کار بنایا ہے، جس سے وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے؟ 

    دوسری جانب 76 سال سے گروہی مفادات کے لیے بنائی جانے والی پالیسیز اور سوشل کنٹریکٹ سے روگرادنی کا نتیجہ ہے کہ عوام پر آج بوجھ بڑھتا چلا جا رہا ہے، لیکن فریقِ دوم اَب بھی ڈھٹائی سے اپنی پرانی روِش برقرار رکھے ہوئے ہے۔لمحہ موجود کے قومی چیلنجز سے عاری نرگسیت میں ڈُوبی ہوئی مقتدرہ صرف ایک خاص گروہ کے مفادات کو تحفظ کرتے ہوئے عوام کو مسلسل ذبح کر رہی ہے۔ 

    معروف معیشت دان حفیظ پاشا 2021 ءمیں شائع ہونے والی اپنی کتاب "چارٹر آف اکانومی" میں بتاتے ہیں کہ اشرافیہ کے کس حصے کو کتنی سبسڈی ملتی ہے؛

    کارپوریٹ سیکٹر:بینکنگ: 196 ارب، صنعت: 528 ارب روپے

    جاگیردار:370 ارب روپے

    زیادہ آمدن والے افراد:368 ارب روپے 

    بڑے تاجر:348 ارب روپے

    سٹیٹ اونڈ انٹرپرائزز:345 ارب روپے

    فوج (فوجی کاروباروں کوملنے والی مراعات):257 ارب روپے

    ایکسپوٹرز:248 ارب روپے

    یہ ٹوٹل 17 ارب ڈالر کی سبسڈی صرف اشرافیہ کو دی جاتی ہے۔ 

    اس کے علاوہ وزرا، مشیر، سول اینڈ ملٹری بیوروکریسی اور عدلیہ ملنے والی تنخواہوں کے علاوہ آفسز میں اردلیوں کی تنخواہیں، سرکاری گاڑیاں اور فیول کے اخراجات، ڈرائیورز کی تنخواہیں، کنالوں میں پھیلے ہوئے گھر، ان گھروں میں خادموں کی تنخواہیں، گھروں کے یوٹیلیٹی بلز، ان گھروں کی حفاظت کرنے والے پولیس کے عملہ کی تنخواہیں، پروٹوکولز کی گاڑیوں اور ان کے عملہ کے اخراجات، ریٹائرمنٹ کے بعد تاحیات مراعات، بڑی بڑی زمینوں کی الاٹمنٹ وغیرہ۔

    آئی ایم ایف سے 1.5 ارب ڈالر لینے کے لیے پورے ملک و قوم کو گِروی رکھ دیا گیا، لیکن 17 ارب ڈالر کی سبسیڈیز سے لطف اُٹھانے والوں نے اپنے مفادات کو ذرہ برابر کم نہ کیا تو پھر مشکل فیصلے کاہے کے؟ مشکل فیصلوں کا بوجھ معاہدے کا صِرف ایک فریق کیوں اُٹھائے؟ 

    سوشل کنٹریکٹ کے لحاظ سے حکمران فریق کی ذمہ داری فریقِ اول یعنی عوام کی ریاست کے ساتھ تعاون اور وفاداری کے نتیجے میں بنیادی حقوق کی فراہمی اور تحفظ تھا، لیکن صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ 

    اس صورتِ حال میں سوسائٹی کی کوئی بھی اکائی چاہے وہ مزدور ہو، کسان ہو، ڈاکٹرز ہوں یا اساتذہ ہوں، اگر آئینی فریم ورک میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں تو ریاست جبروتشدد کے ذریعے حقائق کو کچلتی نظر آتی ہے، جو کہ معاہدہ عمرانی کی کُھلی خلاف ورزی ہے۔ مزید اداروں کی نجکاری چاہے وہ تعلیمی ہو یا دیگر عوامی سہولیات کے ادارے عوام کے حقوق پر ہی ڈاکا ہے۔ 

    معاشرے معاہدوں سے ہی قیام عمل میں آتے ہیں اور معاہدوں کی پاسداری سے ہی ترقی کرتے ہیں۔ یہ کبھی ممکن نہیں کہ کوئی ایک فریق مسلسل اپنی ذمہ داریوں سے جان بوجھ کر غافل رہے اور دوسرے فریق سے جبر و تشدد کے ذریعے اس کی ذمہ داریاں پوری کروا کر معاشرے میں ترقی اور استحکام لا سکے۔ 

     مضبوط معاشروں کا قیام پائیدار عمرانی معاہدے پر تمام فریقوں کے عمل درآمد سے ہی ممکن ہے۔ اگر فریقِ دوم کی یہی روِش رہی تو نتیجہ انتشار اور لاقانونیت ہی ہوگا جو کسی فریق کے حق میں اچھا نہیں ہے۔

     

    Share via Whatsapp