خود کفیل فرشتے - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • خود کفیل فرشتے

    اس مضمون میں کم عمر بچوں پر معاشی ذمہ داریوں بارے منظر کشی کی گٸ ہے۔

    By Mehboob ur Rehman Published on Sep 08, 2023 Views 1328
    خود کفیل فرشتے
    تحریر؛ محبوب الرحمن سہر، اوگی

    صبح نمودار ہوتے ہی کائنات کی رنگینیوں کا عکس نمایاں نظر آتا ہے۔ ہر انسان آنکھ کھولتے ہی اپنی زندگی کو ست رنگی بنانے کی دوڑ میں لگ جاتا ہے۔ کاروباری پہیہ وقت کی دوڑتی رفتار کے ساتھ قدرے تیزی سے گھومنے لگتا ہے۔ سڑک پر دوڑتی ٹریفک اپنے مسافروں کو لیے منزلِ مقصود کی طرف بڑھتی ہے۔سکول کی طرف بڑھتی بسیں بچوں کے روشن مستقبل کے لیے ابتدائی ہجرت گردانی جاتی ہیں تو دفاتر کا عملہ اپنی روزی روٹی کے حصول لیے انتہائی مستعدی سے جانبِ منزل لپکتا ہے۔
    ایسے میں ایک معصوم بچی بھی فٹ پاتھ پر چادر پھیلائے کھلونے سجا کر بیٹھی ہے۔ صبح کی روشن کرنیں، جہاں باقی مخلوق کے لیے روشن مستقبل کی نوید سناتی ہیں، وہیں یہ ننھی گڑیا بھی اپنی چمک دار آنکھوں میں ہزاروں خواب سجائے بیٹھی ہے۔ محض سات سال کی عمر میں ”طلبِ معاش“کی فکر لیے چادر پھیلائے بیٹھی یہ بچی ایک اہم عنوان ہے۔ ایسا عنوان، جس کا خلاصہ و تشریح اپنے آپ میں بہت سے سوالات جنم لے رہا ہے۔
    طلب جاہ و مال کا ٹوکرا سر پر اُٹھائےکسی بھی مصروف شخصیت کے لیے یہ محض ایک واقعہ ہے، لیکن حسِ حساسیت کی صفت سے موصوف کسی بھی باشعور شہری کے لیے یہ ایک دُکھ بھری داستان، بہت بڑا المیہ، ناقابلِ بیان حادثہ اور بہت بڑا ظلم ہے۔ ایک ایسی داستان جس کی ابتدا  سے انتہا  تک کھوج لگانے کے بعد ہمیں کوئی قابلِ قبول وِجہ نہ ملے۔
    یاسر اپنی تحقیق کی گتھی سلجھانے جب اس ننّھی پری کے پاس پہنچتا ہے، تو حسبِ عادت سوال و جواب ہوتے ہیں جن کو قلم کی نوک کچھ یوں سرِ ورق ڈھالتی ہے۔
    یاسر : ہیلو گڑیا ، السلام علیکم ۔۔!!
    گڑیا : وعلیکم السلام
    یاسر : یہ کیا فروخت کررہی ہو؟
    گڑیا : بچوں کی چیزیں(کھلونے) 
    یاسر : اچھا! مجھے میری بیٹی کے لیے کچھ”چیزیں“ دے دو۔ میری بیٹی سات سال کی ہے۔آپ کی طرح ہی ننھی سی پری۔!!
    گڑیا : تمھاری بیٹی کو کون سی چیز پسند ہے؟
    یاسر : جو چیز(کھلونا) آپ کو پسند ہے، وہی میری بیٹی کو پسند ہے۔
    گڑیا : اوکے ، یہ کتاب اور پنسل لے لو ۔
    یاسر : تمھارا نام کیا ہے؟
    گڑیا :میرا نام ”اقرا “،اقرا زید نام ہے میرا۔
    یاسر : اوہ!۔۔۔یہ تو میری بیٹی کا نام ہے۔
    گڑیا : آپ کی اقرا  بھی گھر میں کھانا نہ ہونے کی وَجہ سے ”چیزیں“ بیچتی ہے؟
    یاسر : کیا ؟ (حیرانی و تجسس بھرے انداز میں ) ہاں! میری بیٹی بھی چیزیں فروخت کرتی ہے۔
    ننھی اقرا  کے آخری سوال کے بعد یاسر میں وہ ہمت نہ رہی کہ جس کو بروئےکار لاتے ہوئے وہ مزید سوال کی جسارت کر سکے ۔ حال آں کہ بہت سے سوالوں کے جواب ابھی باقی تھے۔ 
    سوال یہ کہ یہ معصوم اقرا  کھیلنے کی عمر میں کھلونے کیوں بیچ رہی ہے؟ 
    سوال یہ کہ اس کم عمر کلی کو زمانے کے کانٹوں سے محفوظ رکھنے والی ہستیاں یعنی والدین کہاں ہیں؟ 
    سوال یہ کہ چادر پر پھیلائےکھلونوں میں محض گتّے کی کتاب اور لکڑی کی پنسل ہی اس کو کیوں پسند ہے؟ 
    سوال یہ کہ اگر اقرا  یہ کھلونے نہ بیچتی تو اس وقت کیا کر رہی ہوتی؟
    اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں ایسے درجنوں بچے نظر آئیں گے جو اپنی انتہائی کم عمری میں گھریلو مسائل تلے دبے ہیں۔آئے روز سینکڑوں معصوم جانیں گندگی کے ڈھیر سے روزی تلاش کرتی نظر آتی ہیں۔ ہزاروں بچے معاشی تنگی کے پیشِ نظر کسی ٹریفک اشارے یا بازاروں میں بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ لاکھوں بچے اپنی تعلیم کے زمانے کی عمر میں ”چائلڈ لیبر“کا ٹیگ لگائےکسمپُرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
    سوال یہ ہے کہ آخر اس حالتِ زار کا ذمہ دار کون ہے؟ 
    کیا مملکتِ خداداد میں برسرِ اقتدار طاقتیں اس طرف کوئی با معنی قدم اُٹھانےکے بارے میں سوچتی ہیں؟ 
    کیا خاندانی و عائلی زندگی کے اس برباد منظر نامے پر ہم یونہی خاموش رہیں گے ؟
    بے حس آسودہ حال لوگ اپنی طبقاتی سوچ اور دولت کا غرور لیے یونہی گزرتے رہیں گے ؟
    غریب والدین کے اس مسئلے پر ہمارا معاشرہ سنجیدہ رویہ اپنا کر ان معصوم جانوں کی زندگیوں کو قیمتی بنانے کے بارے میں کیا سنجیدہ بھی ہے؟ 
    یا یہ سب معصوم و کم عمر بچے خود اپنی جان اور خاندان کی کفالت کے ذمہ دار ٹھہرائےجائیں گے اور اربابِ اختیار اور معاشرے کی باہمی رضامندی سے ان کے گلے میں ”خود کفیل فرشتے“کا کارڈ لٹکا دیا جائے۔!!
    Share via Whatsapp