پاکستانی ڈراموں اور فلموں کے تاریک پہلوؤں کا جائزہ اور اس کا تدارک
کسی بھی ریاست اور نظام کا صحیح فکر وفلسفہ پراور اسی فکر پر معاشی وسیاسی نظام کا استوار ھونا ضروری ھے
پاکستانی ڈراموں اور فلموں کے تاریک پہلوؤں کا جائزہ اور اس کا تدارک
تحریر؛ ڈاکٹر عبدالرحمن شاہ، بنوں
اگر بہ نظر غور جائزہ لیا جائے تو دنیا کی ہر قوم اپنی ثقافت کو باقی رکھنےکے لیے تمام ذرائع و وسائل بروئے کار لاتی ہے۔اپنے تاریخی آثار و مقامات کے ذریعے اپنا تعارف دیگر اقوام سے کرواتی ہے ۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے نسل نو کو ان سے واقف کرایا جاتا ہے ۔
دنیا کی تمام اقوام کے ہاں کچھ اقدار اور اخلاقیات مشترکہ ہوتے ہیں،جن کی مہذب اور باشعور اقوام پابندی کرتی ہیں اور ایسی چیزوں کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر کوریج دی جاتی ہیں،جن کا تعلق قومی تقاضوں سے ہوتا ہے۔ ایسی اقدار جو تاریخ و ثقافت کے فروغ کے لیے ضروری ہوں،جن سے قومی آداب اور رویے تشکیل پاتے ہیں۔ تاکہ معاشرے میں وہ عام ہوں اور یوں وہ عوامی شعور کا حصہ بن جائے۔
لیکن نصف صدی سے بڑھتی ہوئی غربت نے عام انسانوں کو سماجی بیگانگی میں مبتلا کردیا ہے۔ ٹیکنالوجی کے فروغ نے سرمایہ اور دولت کی ہوس کے ساتھ مل کر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اپنا قبضہ جما لیا ہے۔یوں تو جس ملک کے اندر جو سسٹم غالب ہوتا ہے ۔اس کا تعلیمی نظام بھی اسی سسٹم کو ترقی دیتا ہے۔اسی طرح الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا بھی اسی کے کنٹرول میں ہوتے ہے ۔ اس طرح اقدار کی پامالی، خودغرضی طرز زندگی بن جاتے ہیں۔ دکھ کی بات تو یہ ہے وطن عزیز میں نہ تو تعلیمی نظام میں ایسا مواد شامل ہے ۔اور نہ ہی ٹیچر کی صورت میں اس کے سامنے کوئی رول ماڈل ۔نہ ہی الیکٹرانک اور نہ ہی پرنٹ میڈیا پر ایسی چیزوں کا تذکرہ ملتا ہے،جس کی وَجہ سے اپنے دیس میں ہمیں مایوسی کے سوا کچھ نظر نہیں آرھا ہے ۔اس کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک بڑی وِجہ قوم کے کو دکھائے جانے والے ڈرا مے اور فلمز بھی ہیں ۔ذیل میں ان کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے ۔
1۔ اکثر وبیش تر ڈراموں میں مسائل سے دوچار خاندانوں اور شخصیات کو خودکشی کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔حال آں کہ کسی کو حوصلہ دینے ،اللہ پر بھروسہ کی تلقین اور امید سے اس کو اس صورتِ حال سے بچایا جاسکتا ہے۔مزید یہ کہ اس طرح کا مواد دکھانے سے اس عمل کو معاشرے میں رواج اور ترقی ملتی ہے۔اور اس کے منفی اثرات زیادہ ہوتے ہیں ۔
2۔ مملکت اسلامی و جمہوری کے سرکاری خرچ اور اجازت سے بنائے جانے والے پروگرامات میں اداکاروں کے انداز و اطوار فیشن کے نام پر فروغ پاتے ہیں ۔یہ تہذیب کے عکاسی نہیں ہے۔مشرق اور اسلامی تہذیب سے اس کا کوئی ربط نہیں بنتا ۔
3۔ ان ڈراموں میں دکھایا جانے والا ہر منظر حقیقی محسوس ہوتا ہے۔یوں نسل نو کے ذہن میں تشکیک اور انتشار کا سبب بنتا ہے، جب کہ وہ کسی ایک پہلو کی عکاسی ہوتی ہے۔
4۔ غیرملکی زبان اور رویوں کو غیرمحسوس انداز میں آگے بڑھایا جاتا ہےاور اپنی زبانوں اور مقامی رسوم وروایات کو دقیانوسیت اور پرانی چیزیں کہہ کر ان سے پیچھا چھڑایا جاتا ہے،جس کی وَجہ سے سماجی نراجیت میں اضافہ ہوا ہے۔
5۔ حالات کی خرابی کا ذکر ہے، لیکن بہتری کے اقدامات کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔
6۔ خاندانی اور شخصی مسائل کو تو بیان کیا جاتاہے اور انفرادی اصلاح کی سوچ بھی اُجاگر کی جاتی ہے،لیکن سماج،شہر اور قومی نظام کے مسائل کاسسٹم کے تناظر میں تجزیہ کرنے کا اسلوب موجود نہیں ۔ نتیجتاً معاشرے میں وحدت عملی پیدا نہیں ہو تی، جس کے بل بوتے پر قومیں بام عروج کو پہنچتی ہیں۔اور دنیا میں اپنا ایک مقام بنا لیتی ہیں۔
7۔ ان پروگرامات میں حکمران طبقے کےمعیار زندگی کی نمائندگی تو ہوتی ہے،جس سے عوام میں حب مال اور حب جاہ کے امراض بھی پیدا ہوتے ہیں اور احساس محرومی الگ سے پیدا ہوتی ہے۔ درجہ بالا حقائق کو سامنے رکھ کر ہم اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ ملک میں قائم طبقاتی سوچ اور معاشی وسیاسی طبقات کے برعکس قومی تقاضوں سے ہم آہنگ افکار و نظریات کو فروغ دینے کے لیے لا محالہ قومی آزادی ،معاشی انصاف امن امان اورسیاسی حقوق کی بنیاد پر ایک تحریک برپا کرنا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔ اپنی صلاحیتیں اور مہارتیں بڑھانا اولین ترجیح ہونی چاہیے ۔ یوں اعلیٰ اور عادلانہ اصولوں پر سسٹم تشکیل دینے کا شعور پروان چڑھے گا۔ اس طرح ہم نوجوانوں کے اندر قومی سوچ،ذمہ دار شہری بننے،انسانیت کے لیے فائدہ مند ہونے اور انھیں اچھے اخلاق سے آراستہ کر نے کے اہم تقاضوں کو پورا کرسکتے ہیں ۔