میں اپنا ملک کیوں چھوڑوں؟
میں اپنا ملک کیوں چھوڑ دوں؟
میں اپنا ملک کیوں چھوڑ دوں؟
تحریر: یاسر عرفات ۔ ملتان
انسان جب اپنے مسائل کا جائزہ لے تو اس کا واسطہ دو طرح کے مسائل سے پڑتا ہے۔ ان میں ایک پہلو وہ ہے جس کا تعلق اِنفرادی زندگی سے ہے، جب کہ دوسرا پہلو ہماری اجتماعی سے متعلق ہے۔
اِنفرادی مسائل سے مراد ایسے مسائل ہیں، جن کا شکار ایک وقت میں ایک فرد ہوتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی خاص رنگ نہیں پسند، یا کوئی مخصوص سبزی، یا کوئی مخصوص پالتو جانور وغیرہ، تو یہ ذاتی مسئلہ ہے۔ اگر ایک وقت میں ایک شے ناپسند ہے تو ہوسکتا کسی اَور وقت میں پسند آجائے، یا متبادل اختیار کر لیا جائے۔ لہٰذا ذاتی طور پر کوشش سے اِنفرادی مسئلے کوکسی حد تک حل کیا جا سکتا ہے۔
اجتماعی مسائل سے مراد ایسے مسائل ہیں، جن کے زیر اثر ایک اجتماع ہوتا ہے۔ مثلاً مہنگائی، دہشت گردی، فکری انتشار، فسطائیت، بدعنوانی، بے روزگاری، سماجی ٹوٹ پھوٹ، اخلاقی گراوٹ، جہالت، وَبائیں وغیرہ وغیرہ۔ ایسے مسائل کی خاصیت یہ ہے کہ اگر ایک وقت میں ایک فرد کا مسئلہ حل ہو بھی جائےتو وہ نفسِ مسئلہ اپنی جگہ پہ ہی رہتا ہے۔ مثلاً اگر میرے معاشرے کے لوگوں کو بے روزگاری یا دہشت گردی کی وَجہ سے مشکلات کا سامنا ہے اور میری غیرمعمولی جدوجہد سے میں روزگار بھی حاصل کرلیتا ہوں اور اپنے لیےسیکیورٹی کے اقدامات بھی کر لیتا ہوں تو بھی میرے معاشرے میں نفسِ بے روزگاری اور نفسِ دہشت گردی جوں کی توں کھڑی ہوگی۔ لوگ پھر بھی بےروزگاری اور دہشت گردی کی وَجہ سے مشکلات میں پڑے رہیں گے۔ گویا اجتماعی کاوش کے بغیر ان مسائل کو حل کرنا، ناممکن ہے۔
اصولاً جب بھی مشکلات محسوس ہوں تو ایک بار اپنی ذات سے بالاتر ہوکر معاشرے کی طرف دیکھنا چاہیے کہ جو محرک میری پریشانی کی وَجہ بن رہا ہے وہ میری ذات تک محدود ہے یا معاشرے سے جُڑا ہوا ہے؟
اجتماعی دائرے سے متعلق مسائل کو چند مثالوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔
اگر میرے گھر میں کوئی بیمار ہوکر بستر پہ پڑا ہے اور علاج معالجے کی ذمہ داری مجھ پر ہے، لیکن میں ابھی یہ بوجھ اُٹھانے کے قابل نہیں ہوا، اور نہ ہی مجھے ہیلتھ سسٹم سے کوئی امید ہے۔ تو یہ "صحت" کا مسئلہ ہے۔ صحت کی ضرورت سب کو ہوتی ہے اور سب لوگ اسی ہیلتھ سسٹم سے جُڑے ہوئے ہیں تو صحت کا مسئلہ اجتماعی مسئلہ ہوا۔
تعلیم جاری رکھنے کے لیے فیس کی ادائیگی مشکل ہے، یا تعلیمی نصاب سے مایوسی ہے، یا طبقاتی نظامِ تعلیم کی وَجہ سے احساسِ کمتری ہے تو سوچنا بنتا ہے کہ تعلیم کی ضرورت معاشرے کے ہر انسان کو ہے اور ہر انسان اسی نظامِ تعلیم سے جڑا ہوا ہے تو تعلیم کا مسئلہ بھی اجتماعی ہے۔
روزگار کی ضرورت سب کو ہے، عزت کا حق ہر انسان کو چاہیے۔ اپنے کام کاج سے فارغ ہونے کے بعد روحانی ترقی کے لیے خود پر وقت صرف کرنا ہر انسان کی ضرورت ہے، شادی سب کی ضرورت ہے، اخلاقی ترقی، اخوت و بھائی چارہ، معاشی خوش حالی ہر انسان چاہتا ہے۔ یہ انسانی معاشرے کے اجتماعی تقاضے ہیں اور ان میں مشکلات آنا اجتماعی مسائل ہیں۔
یہ جاننے کے لیے کہ مسائل کی اصل جَڑعوام ہیں یا مروجہ نظام، ہمیں جاننا چاہیے کہ انسانی معاشرے کی بنیادی اساس عوام کا میل جول، ایک دوسرے پر اعتبار اور معاہدات ہوتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر مہذّب معاشرہ اپنی مشترکہ بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ٹیکس دے کر اور قوانین بنا کر نظام چلاتا آیا ہے۔ یعنی کہ معاہدات کا ایسا پیکج جس میں اجتماعی ضروریات کو پورا کرنے سے متعلق فیصلے کیے جاتے ہوں، مثلاً بھوک ہر انسان کو لگتی ہے اس لیے بھوک مٹانے کا ایک معاشی نظام جو تجارت،زراعت،صنعت اور معاشی تعاون کے بارے میں درست فیصلے کر کے سب کی بھوک مٹائے۔ اسی طرح تعلیم چوں کہ سب کی ضرورت ہے تو تعلیمی نظام فکری انتشار اور جاہلیت کا خاتمہ یقینی بنائے، اخلاقیات، ہنر،ثقافت،زبانیں،ایجادات، سماجی علوم،طبعیاتی،حیاتیاتی اور دینیاتی علوم کی محرومی کو دور کرے۔ حقیقی تاریخ پڑھا کے معاشرے کو اس کے پیروں پہ کھڑا کرکے خود مختار بنایا جائے۔ صحت سب کی ضرورت ہے تو صحت کا مرکزی نظام،امنِ عامہ کا مرکزی نظام، اشاعت و نشریات کا مرکزی نظام۔ یہ تمام تر مرکزی نظام اس معاشرے کے افراد کی فلاح و خوش حالی کے لیے تشکیل دیے جائیں۔ نظام اگر اپنا کام صحیح کرتا ہے تو عوام کے مسائل حل ہوتے ہیں اور اگر یہ نظام اپنا کام چھوڑ دے تو یہ نظام بوجھ کے سوا کچھ نہیں۔ لہٰذا انسانی معاشرے کے مسائل کی حقیقی جڑ اس کا مرکزی نظام ہوتا ہے اور عوام اپنی ضروریات کے حصول کے لیے اس کے محتاج ہوتے ہیں۔
انسان کی فطرت ہے کہ وہ جس جگہ سے مانوس ہو اور رہائش کے لیے محفوظ سمجھے، ایسی جگہ پر مستقل رہائش کو ترجیح دیتا ہے۔ سیاحت کے لیے جانا، کسی اجنبی جگہ پر عارضی رہائش رکھنا پھر کسی اور جگہ کی تلاش میں چل پڑنا سیروتفریح کرنا بھی انسان کی فرحت کا باعث ہے، لیکن ایک ایسی رہائش گاہ جہاں وہ اپنے ماں باپ، اولاد، بہن بھائی اور اقربا کے لیے تحفظ محسوس کرے، اس کا فطری تقاضا ہے۔ انسان اپنی فطرت سے اس احساس کو نفی نہیں کر سکتا۔ بشرطیکہ اس کی فطرت مسخ ہو جائے یا وہ ذہنی توازن کھو دے۔
انسان جب پیدا ہوتا ہے، اس دنیا میں آتے ہی اپنے کھانے پینے،صاف ستھرا اور صحت مند رہنے کے لیے دوسروں کا محتاج ہوتا ہے۔ وہ چلنے پھرنے سے محتاج ہوتا ہے، بولنا سیکھنے کے لیے محتاج ہوتا ہے، چیزوں کو سمجھنے سے محتاج ہوتا ہے، اس کی یہ محتاجی سب سے پہلے اس کے والدین اور اقربا دور کرتے ہیں پھر وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکول/مدرسے کا محتاج ہوتا ہے، سکول میں اس کے ساتھی اس کو اجتماعی ماحول دیتے ہیں، اساتذہ لکھنا پڑھنا سکھاتے ہیں، اس کے ساتھ پورا معاشرہ اخلاقی و معاشی تعاون کرنے لگتا ہے، کوئی گھر کی بجلی ٹھیک کر دیتا ہے، کوئی چائےبنا دیتا ہے، کوئی مشکل میں اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے،اس طرح سے ایک معاشرہ اپنے وسائل خرچ کرکے ایک نو مولود بچے کو ایک کارگر فرد کے طور پر تیار کرتا ہے۔ اس فرد پر معاشرے کی ساری انویسٹمنٹ اس معاشرے کی دی ہوئی امانت ہوتی ہے۔
معاشرے نے اپنے محدود وسائل سے اگر چند ایک باصلاحیت افراد تیار کر لیے ہوں تو بدلے میں معاشرہ چاہتا ہے کہ یہ افراد اس کے اجتماعی مسائل کو حل کرنے کےلیے اپنی صلاحیتیں صرف کریں۔ دیگر افراد کی مایوسی دور کریں۔ یہ صلاحیتیں کسی فرد کی ذاتی ملکیت نہیں ہوتیں کہ وہ اسے جہاں چاہے جیسے چاہے استعمال کرے۔ بلکہ اس وطن کی ملکیت ہوتی ہیں، جس نے ایک محتاج بچے کو اپنی زبان سکھائی، اپنی ثقافت میں پال کر بڑا کیا اور اسے فیصلہ لینے کے قابل بنایا۔ لہٰذا اس پر پہلا حق اس کے اپنے ملک کا ہے۔
چند مُحِبِّ وطن اور بھولے بھالے نوجوان یہ سوچ کر وطن چھوڑنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں کہ ہم ملک چھوڑنے کی قربانی دیں گے، باہر جا کر اپنے ملک میں کرنسی بھیجیں گے تو ملکی معیشت کو فائدہ پہنچے گا۔ اور ایسی ذہنیت کو باقاعدہ تقویت دی جاتی ہے۔ مثلاً سابق وزیراعظم کا جولائی/ 2023ء کا بیان سامنے آیا کہ "ہنرمند لوگوں کو باہر بھیجنے سے پاکستان کا تجارتی خسارہ کم ہو جائےگا"۔ گویا ایسی ذہنیت تیار کی جاتی ہے کہ باہر جاؤ پیسہ کماؤ اور پاکستان میں لاؤ۔ اس کے برعکس وطن میں وہ لوگ بھی ہیں جو اسی ذہنیت کے ساتھ کام کرتے ہیں، لیکن میرے مُحِبِّ وطن پاکستانیوں کے بالکل اُلٹ، ان کی پریکٹس یہ ہے کہ پاکستان جاؤ پیسہ کماؤ اور باہر لاؤ۔ ہمارا بھولا پاکستانی سعودیہ، دبئی وغیرہ سے ریال میں کما کر اپنے ملک پیسہ بھیجتا ہے اور اس کے ملک پر قابض امپورٹڈ بیوروکریسی/اشرافیہ اس کا پیسہ ڈالر، یورو، پونڈز وغیرہ میں حوالہ ہنڈی اور ملٹی نیشنل، جعلی کمپنیوں کے ذریعے، دکھاوے کی این-جی-اوز کے ذریعے باہر لے جا کر بینکوں میں رکھتے ہیں، جائیدادیں، فلیٹ، کاروبار بناتے ہیں۔ پاکستان آتے ہیں سامراج کے اشاروں پر نظام چلانے کی نوکری کرنے، اور ہمارا بھولا بھالا پاکستانی جن ممالک کو مہذب سمجھ کر وہاں ڈگری کے حصول کے بہانے یا چھوٹے موٹے روزگار کی تلاش میں جانا چاہتا ہے وہی ممالک اس کے وطن کے سب سے بڑے مجرموں کو پناہ دیتے ہیں، ان کے بچوں کو آنے والی نسل پر حکومت کرنے کے لیے تعلیم و تربیت دیتے ہیں۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کو شہریت اور تحفظ دیتے ہیں۔
کسی مُحِبِّ وطن پاکستانی کو کسی مجبوری کی وَجہ سے ملک نہیں چھوڑناچاہیے۔بلکہ خائن اشرافیہ سے جان چھڑوانی چاہیے.350 پاکستانی 14 جون 2023ء کوبہتر روزگار کی تلاش میں ملک چھوڑتے کوشش میں مارے گئے .
آج جذبات سے اوپر اُٹھ کر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں وطن بیزاری کی وبا تو نہیں پھیلائی جا رہی؟ اجتماعی مسئلے کو انفرادی بتا کر گمراہ تو نہیں کیا جا رہا؟ کہیں قصور وار اس معاشرے کو تو نہیں ٹھہرایا جا رہا جو خود اس سامراجی نظام کی زد میں ہے اور اپنے نوجوان سے امید لگا کر بیٹھا ہے؟ ان حالات کا beneficiary کون ہے؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان دھوکے سے نکلے اور حقائق کی روشنی میں تجزیہ کرے۔ کیا ملک چھوڑنے سے زندگی کی مشکلات ختم ہو جاتی ہیں؟ جب مشکلات سے جان نہیں چھوٹنے والی، جب جدو جہد لازم ہے،تو کیوں نا ایک اجتماعی سوچ کے تحت زندگی کو گزاری جائے؟ نوجوان نسل ایک اجتماعی طاقت پیدا کرے اور اپنے ملک کے اجتماعی مسائل کا حل نکالے۔ اپنی قومی ذمہ داریوں کا شعور حاصل کرے اور اس کے نتیجے میں اجتماعی مسائل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔