تعلیمی اداروں کے ماحول میں بڑھتے اخلاقی مسائل اور والدین کی ذمہ داری - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • تعلیمی اداروں کے ماحول میں بڑھتے اخلاقی مسائل اور والدین کی ذمہ داری

    زیر نطر مضمون میں تعلیمی اداروں میں بڑھتی ہوئی جنسی ہراسگی اور بلیک میلنگ کے پس پردہ منشیات کے مکروہ دھندے کو زیر بحث لایا گیا ہے ۔

    By محمد خورشید Published on Aug 21, 2023 Views 1210

    تعلیمی اداروں کے ماحول میں بڑھتے اخلاقی مسائل اور والدین کی ذمہ داری

    تحریر؛ محمد خورشید۔ بہاولپور 

             

     ا ن دنوں ملک کی ایک مشہور یونیورسٹی سے متعلق جنسی ہراسانی اور منشیات نوشی و فروشی کا واقعہ بذریعہ سوشل میڈیا و الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا زبان زد عام ہے۔ تعلیمی اداروں کے حوالے سے اس طرح کے واقعات ماضی میں بھی میڈیا کی زینت بنتے رہے ہیں اور پھر نئے اسکینڈلز نئے معروضی و مصنوعی مسائل کی گرد میں اَٹ کر قصہ پارینہ بنتے رہتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں اِلزامات کی زد میں آئے بے قصور و مظلوم کی زندگیاں تباہ ہوجاتی ہیں، مجرم اپنے راستے پر بدستور گامزن رہتے ہیں اور میڈیا اپنی ریٹنگ اور ویٹنگ کے لیے نئی کہانی کی تلاش میں کہانی گروں پر نظریں جما لیتا ہے۔ جرم اور ظلم کی یہ داستانیں صرف تعلیمی اداروں ہی میں رقم نہیں ہوتیں، بلکہ اس سے کوئی ایک ملکی ادارہ بھی ایسا نہیں، جو بچا ہوا ہو، یہ اس وَجہ سے ہے کہ اس کا تعلق افراد سے نہیں، بلکہ نظام سے ہے اور نظام ہی وہ سانپ ہے جو یہ بچے جَن رہا ہے، جب تک اس سانپ کا سر نہیں کچلا جاتا ،تب تک سنپولے پیدا ہوتے رہیں گے اور ظلم و جور کی داستانیں یوں ہی رقم ہوتی رہیں گی۔ کرنے کا اصل کام تو یہی ہے کہ اس نظام کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا جائے، لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا تو ہم عوام کیا کریں؟ کیا اپنے بچوں کو تعلیم نہ دلوائیں؟ کیا انھیں کہیں روزگار کے لیے نہ بھیجیں؟ کیا انھیں گھر سے باہر نہ بھیجیں؟ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جن بچوں کو معاشرے سے کاٹ کر یا ڈرا کر رکھا جاتا ہے وہ بذات خود کئی خطرناک نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں، اس لیے ان واقعات سے بچنے کا حقیقی راستہ یہ نہیں کہ بچوں کا حقِ تعلیم چھینا جائے، بلکہ ان کی سوچ درست کی جائے، زندگی کے حقیقی سماجی آداب، مسائل و چیلنجز سے آگاہ کرکے ان سے نمٹنے کی ہمت، جرآت اور حکمت عملی سمجھائی جائے۔

    زندگی کا اعلیٰ ترین مقصد

               مسائل کا سامنا کرنے کے لیے بچوں کو زندگی کے اعلیٰ ترین مقصد کا تعارف کرایا جانا ضروری ہے۔ یہ ضروری ہے کہ بچوں کو بتایا جائے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے، لہٰذا اللہ سے تعلق کے علاوہ علم دوستی، انسان دوستی اور اعلیٰ اخلاق کا پیدا کرنا ہی مقصد زندگی ہونا چاہیے، اس کے ساتھ دنیا میں انسانوں پر سے ظلم کا خاتمہ، عدل کا قیام، اعلیٰ اخلاقیات پر مبنی سماجی نظام اور ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے واسطے بھیجا ہے اور اس مقصد کے حصول کا اہم راستہ تعلیم و تربیت کا حصول ہے۔

    بچوں پر اعتماد اور ان سے بے تکلف تعلق

                زوال زدہ معاشروں کا ایک بڑا المیہ یہ ہوا کرتا ہے کہ وہاں ہر انسان دوسرے انسان سے خوف میں مبتلا رہتا ہے، اس لیے کہ وہ سمجھتا ہے ہر دوسرا انسان اس کی جان مال اور عزت کا لٹیرا ہے۔ یہی تصور والدین اور اولاد کے باہمی تعلق پر اس انداز سے بھی مرتب ہوتا ہے کہ چوں کہ  والدین اپنی اولاد خصوصاً بچیوں کی عزت و عصمت کے حوالے سے حد درجہ حساس ہوتے ہیں اور ہونا بھی چاہیے، لیکن معاشرتی فرسودگی اور مجرم پیشہ افراد کے ہر شعبے میں بہتات کی وَجہ سے اور بچوں میں ان سے نمٹنے کی قابلیت نہ سمجھنے کی وَجہ سے اعتماد کرنے سے قاصر ہیں، اور یہی عدم اعتماد اور خوف والدین اور اولاد میں وہ فاصلہ پیدا کرتے ہیں جن کی وجہ سے بچے اپنے مسائل والدین کو نہیں بتا پاتے،اور بچے جرائم پیشہ افراد کی بھینٹ چڑھ کر جرم کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔ والدین کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ بچوں کو گھر میں وقت دیں، ان کے پاس بیٹھیں انھیں سنیں اور انھیں یہ اعتماد دیں کہ اگر ان سے کوئی غلطی ہو بھی جائے تو وہ والدین کو بتاتے ہوئے نا ڈریں اور نہ ہی جھجکیں، کیوں کہ والدین بچوں پر بہ طور داروغہ نافذ نہیں کیے گئے، بلکہ یہ تو بچوں کی تربیت کے لیے بچوں کے ساتھی اور دوست ہیں اور تربیت کا تعلق پُرحکمت اصلاح سے ہے کہ جہاں ڈانٹ ڈپٹ کی ضرورت ہو تو ڈانٹا جائے جہاں پیار اور شفقت کی ضرورت ہو وہاں شفقت کا بھرپور اِظہار کیا جائے۔

    فقط نمبروں کی دوڑ سے باہر آئیے

               کوئی بھی ملک جب دنیا کے نقشہ پر ابھرتا ہے تو سب سے پہلے اپنے نظام تعلیم کو تبدیل کر کے اسے قومی تقاضوں سے ہم آہنگ کرتا ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے قومی تقاضے ہی وجود پذیر نہ ہو پائے تو ہم نظام تعلیم کیا بناتے، اسی لیے ہمارا نظام تعلیم بدستور کالونیل دور کا رکھا گیا، جس کا واحد مقصد نظام ملکی کو کلرک فراہم کرنا تھا جو فائلوں کا پیٹ بھرے، ان پر دستخط کرے اور عوامی اُمنگوں کو کاغذوں کے ڈھیروں میں دفنانے کا ماہر ہو، سو ہمارے نظام تعلیم نے یہ مقاصد بہ خوبی پورے کیے۔ جب ملک میں نئے علوم اور ان علوم کی بنیاد پر نئے شعبے وجود پذیر نا ہو پائیں تو لا محالہ ڈگری صرف کلرکی کے حصول کا ذریعہ ٹھہرتی ہے اور اس کے لیے قائم کیا گیامعیار زیادہ سے زیادہ نمبروں کا حصول ہوتاہے، لہٰذا نمبروں کے حصول کی دوڑ ہمارے ہاں شروع ہوئی جو کہ سو فی صد تک پہنچی۔ بچوں میں منفی مقابلے کا رجحان پیدا ہوا وہ اپنے ہم جماعتوں سے آگے نکلنے کے جوش میں عزت داؤ پر لگانے کے راستے پر نکل گئے، انھیں خبر ہی نہ ہوئی۔ جب خود انھیں خبر نہ ہو سکی تو والدین جو کبھی انھیں سن ہی نا سکے تو انھیں کیا معلوم ہوتا۔ لہذا یونیورسٹیز میں کئی المیے جنم لیتے رہتے ہیں۔

    بد اخلاقی کا نظام

    ملک کے ہر ادارے میں کرپشن جیسی بداخلاقی کا غلبہ ایک حقیقت بن چکا ہے، سیاست ہو، معیشت ہو، عوامی و ملکی تحفظ کے ادارے ہوں یا عدالتی ادارے۔ کرپشن، سماجی ناانصافی، اقرباپروری و بداخلاقی ہر جگہ اپنی جڑ مضبوط کرچکی ہے، اور تعلیمی ادارے بھی اس ہمہ قسم جرائم سے نآشنا نہیں۔ انتظامیہ و اساتذہ ہر دو کی اکثریت اس روگ میں مبتلا ہوچکی ہے، لہٰذا وہاں پر اس قسم کے جرائم کی روک تھام اور طلبا کے تحفظ کے لیے سخت اقدامات کا ہونا بھی ضروری ہے۔ 

    حاصل کلام

               ضروری یہ ہے کہ ہم بچوں سے قربت اور دوستی کا تعلق استوار کریں، ان سے سماجی رابطے مضبوط تر بنائیں، انھیں اعتماد دیں اور انھیں منفی مقابلے کے نقصانات سے آگاہ کر کے نمبروں کی دوڑ اور منفی مقابلے کی فضا سے باہر لائیں، تاکہ وہ کسی کے ہاتھوں اپنی غلطی یا کم نمبروں کے اندیشوں کی بنیاد پر بلیک میل ہونے سے بچ جائیں۔

    Share via Whatsapp