معاشیات میں کمی کا تصور: خدائی نظریہ اور مغربی فکر کا ابطال
معاشيات میں کمی کا تصور ابتدائی تصور ہے۔ روایتی معاشیات میں مفکرین یہ سمجھتے ہیں کہ کمی کے بغیر معاشیات کا کوئی تصور ہی نہیں۔
معاشیات میں کمی کا تصور: خدائی نظریہ اور مغربی فکر کا ابطال
حسنین خان، راولپنڈی
معاشيات میں کمی کا تصور ابتدائی تصور ہے۔ روایتی معاشیات میں مفکرین یہ سمجھتے ہیں کہ کمی کے بغیر معاشیات کا کوئی تصور ہی نہیں۔
یورپ کی نشاۃ ثانیہ اور صنعتی انقلاب کے بعد، یورپ میں خدا اور مذہب کا انکار عروج پر تھا، جس نے مالتھس کے خیالات کو شکل دی۔ مالتھس کا خیال تھا کہ "ایک خدا جو نیک ہے، ہر جگہ موجود ہے اور عقل مند ہے، وہ کیسے اپنی مخلوق کے لیے محدودیت چاہ سکتا ہے"۔ بالکل اسی طرح لیونل رابنز نے معاشیات کی تعریف کی، جو کچھ اس طرح ہے: "معاشیات ایک ایسا علم ہے، جس میں ہم انسانی رویے کا مطالعہ کرتے ہیں، جب اسے لامحدود خواہشات اور ان کے مقابلے میں محدود ذرائع کا سامنا کرنا پڑے۔ جب کہ ان محدود ذرائع کے متنوع استعمال ہوں"۔اسی طرح اس کا خیال تھا کہ "زندگی کم ہے اور فطرت بخیل ہوتی ہے"۔ جس طرح ان کی باتیں نادرست ہیں، اسی طرح ان کے اَثرات اس سے بھی بدتر ہیں۔ آج ہمارے ملک میں سرمایہ پسند معاشی ماہرین ان ہی مغربی ماہرین کے ان باطل افکار کی جگالی کرتے ہوئے یہ وسوسے دہراتے رہتے ہیں کہ چوں کہ وسائل کم ہیں اور انسانی آبادی زیادہ ہے،لہٰذا آبادی کو کم کرنا چاہیے، اس کے لیے چاہے کوئی بھی غیرانسانی اور غیرفطری طریقہ اپنایا جائے۔
معاشی کمی (scarcity) کے مغربی افکار کے معاشرتی اَثرات
کسی بھی شے کی، چاہے کتنی ہی مقدار کیوں نہ ہو، لیکن اگر یہ محسوس کیا جائے کہ اس کی قلت ہے تو اس کو قدر دی جائے گی اور محفوظ رکھا جائے گا۔ اگر آپ کی یہ سوچ بنا دی گئی ہے کہ خوراک کی کمی ہے تو آپ کے پاس جو کچھ ہوگا آپ اسے جمع کریں گے، اپنے آپ کو ذخیرہ اندوزی میں مبتلا کریں گے، زیادہ سے زیادہ کی تلاش میں رہیں گے اور ہو سکتا ہے کہ اشیائے صَرف کی ذخیرہ اندوزی پہلے کی نسبت بڑھ جائے۔ جب آپ پر محدودیت کی سوچ مسلط کی جاتی ہے تو نتیجتاً، آپ ہمیشہ غیرمطمئن رہیں گے۔ خواہ آپ کے پاس کتنا زیادہ ہی کچھ کیوں نہ ہو۔ اور یہ چیز آپ کے کمی کے تصور اور سوچ کو اور مضبوط کرتی جائے گی۔ جیسا کہ ہٹلر نے کہا تھا "If you tell a lie big enough and keep repeating it, people will eventually come to believe it." یعنی ’’اگر آپ کوئی جھوٹی بات بہت زیادہ بولیں گے اور بار بار بولیں گے تو آخرکار لوگ اس پر یقین کر ہی لیں گے۔ بالکل اسی طرح جب کسی ملک کے سرمایہ پسند معاشی ماہرین مخصوص ایجنڈا کے مطابق اپنے عوام کے ذہنوں میں بار بار معاشی وسائل کی کمی اور محدود ہونے کا تصور ڈالیں گے تو اس کی وَجہ سے معاشی سرگرمیاں اپنے قدرتی عمل کو چھوڑ کر ایک قسم کی محدودیت پیدا کریں گی۔یہ مشاہداتی بات ہے کہ کمیابی پر مبنی اپیل صارف کے مابین سخت مقابلہ پیدا کرتی ہیں، جس کی وَجہ سے معاشرے میں خودغرضی اور نفسیاتی اُلجھن پیدا ہوتی ہے اور صارف صَرف کے حوالے سے ناقص فیصلہ کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں کمی(scarcity) کو زیادہ تر معاشی اشتہار کے آلے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے کہ جہاں عوام کو اگر کسی شے کی ضرورت نہ بھی ہو، لیکن قلت کے تصور کے باعث شے خرید لیتا ہے اور اگر وہ شے مل جائے تو وہ اپنے آپ کو فاتح کے طور پر دیکھنا شروع ہو جاتا ہے۔
نظریہ قلت اشیا اور یورپی حرص و آز کا تاریخی مطالعہ
نفسیاتی مطالعہ اس چیز کو ظاہر کرتا ہے کہ کمی (scarcity) کا تصور انسان میں غصہ، تشدد پر مبنی خیالات اور دوسروں پر حملہ آور ہونے کے جذبات پیدا کرکے قوموں کو محکوم بنانے اور وسائل پر قبضہ کرنے کی خواہش پیدا کرتا ہے۔ یہیں سے انسانی سماج میں سیاسی انتشار، لاقانونیت، معاشی غلبہ اور معاشرتی بدنظمی وغیرہ جیسے خصائلِ بد جنم لیتے ہیں۔
یورپ نے اسی تصور باطل کے تحت ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا میں کالونیاں بنانا شروع کیں اور ان قوموں پر تسلط جمانے اور وسائل پر قبضے کے دوران ان پر جو ظلم و ستم کیے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔
موجودہ سرمایہ پرست معاشی نظام کے اَثرات
معاشی وسائل کی کمی و قلت کے اسی تصورِ باطل کی وَجہ سے انسانوں میں عموماً باہمی تعاون ختم ہو جاتا ہے اور سماج میں امن و امان میں بگاڑ شروع ہو جاتا ہے۔ دراصل، یہ کمی کا تصور ہی ہے جو نچلے طبقے میں فساد کا باعث بنا ہوا، اور سرمایہ دار اس سے اپنے منافع کو بڑھاوا دیتے جا رہے ہیں۔ حرص و آز کا ایک طلاطم خیز سمندر ہے، جس میں ہر عام و خاص، مذہبی و غیرمذہبی بہتا جا رہا ہے اور کسی کو کچھ علم نہیں کہ کون سی آفت ہم سے چمٹ گئی ہے اور نہ کسی کو اس سے چھٹکارے کی فکر ہے نہ ہی نجات کی راہ سجھائی دے رہی ہے، حیران و پریشان جیسے کسی کو ان دیکھا جن بھوت لپٹ جائے اور وہ اس سے چھٹکارا نہ پا سکتا ہو۔
قرآن حکیم کا نظریہ کثرت اشیا
مغربی ابطال کے برعکس اگر قرآنی نقطہ نظر سے تصورِ اشیا کا جائزہ لیا جائے تو خدا جگہ جگہ فطرت اور اسے وابستہ اشیا کو وافر قرار دیتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے " اللہ ہی ہے جس نے آسمان اور زمین بنائے اور آسمان سے پانی اتارا تو اس کے ذریعے تمھارے کھانے کے لیے کچھ پھل نکالے۔ اور کشتیوں کو تمھارے قابو میں دے دیا، تا کہ اس کے حکم سے دریا میں چلے۔ اور دریا تمھارے قابو میں دے دیے۔ اور تمھارے لیے سورج اور چاند کو کام پر لگا دیا جو برابر چل رہے ہیں اور تمھارے لیے رات اور دن کو مسخر کردیا۔ اور اس نے تمھیں وہ بھی بہت کچھ دے دیا جو تم نے اس سے مانگا اور اگر تم اللہ کی نعمتیں گنو، تو انھیں شمار نہ کر سکو گے، بے شک انسان بڑا ظالم ناشکرا ہے۔" (سورہ ابراہیم:30 تا34)
تصورِ کثرتِ اشیا کے معاشرتی اَثرات
اگر انسان کے اندر کمی (scarcity) کے بجائے کثرت (abundance) کا تصور بٹھائیں تو وہ مشترکہ انسانی مفاد کے بارے میں سوچے گا اور اس کے حصول کے لیے تگ و دو کرے گا۔ اور جب کبھی بھی معاشی خرابی پیدا ہو تو وہ اعتماد پر مبنی فیصلے کرے گا، جس سے معیشت میں غیریقینی کی صورتِ حال پیدا نہیں ہوتی اور مارکیٹ پر کسی بھی قسم کا مصنوعی اَثر نہیں پڑتا۔ مزید یہ کہ جہاں خدائی کتاب ایک طرف وافر مقدار کی بات کرتی ہے تو دوسری طرف زیادہ سے زیادہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی تلقین بھی کرتی ہے، تاکہ تقسیم دولت پر کوئی برا اَثر نہ پڑے اور معاشی سرگرمیاں پھلتی پھولتی رہیں۔ اسی حوالے سے قرآن میں ارشاد ہے: "ان لوگوں کی مثال جو اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہیں ایسی ہے کہ جیسے ایک دانہ جو سات بالیں اگائے ہر بال میں سو سو دانے، اور اللہ جس کے واسطے چاہے بڑھاتا ہے اور اللہ بڑی وسعت جاننے والا ہے۔" (سورہ بقرہ:261 ) مطلب یہ ہے کہ Marginal propensity to consume یعنی اشیا کا استعمال و صَرف نچلے طبقے کا زیادہ ہوتا ہے۔ اور جب دولت گردش کرتی ہے تو اکانومی میں اشیا و خدمات کی طلب بڑھ جاتی ہے، جس سے مزید پیداوار بڑھتی ہے اور روزگار بڑھ جاتا ہے۔ یعنی مجموعی طور پر معیشت مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے۔ اگر ہم اجتماعی سوچ کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو دولت میں بے شمار اضافہ ہوگا اور بہت سی معاشی و معاشرتی برائیاں ختم ہو جائیں گی۔
یوں یہ تصور کہ فطرت، معاشی وسائل محدود اور کم دیتی ہے، ایک مغربی سفسطہ اور اندیشہ خام خیال ہے، جبکہ مذہب کے نقطہء نظر سے فطرت یا اللہ تعالیٰ ہر پیدا ہونے والے زی روح کے لئے اس کی ضرورت کے مطابق وافر مقدار میں اشیا پیدا کرتا ہے، شرط یہ ہے کہ درست نظامِ تقسیم معاش قائم کیا جائے۔