جنت کا ٹکٹ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • جنت کا ٹکٹ

    شاید ایجنٹ انہیں یہ سمجھانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ تھوڑے سے عذاب کے بعد جنت کے دروازے ان کے لیے کھل ہی جائیں گے۔

    By نعمان باقر Published on Jul 19, 2023 Views 797
    جنت کا ٹکٹ
    (Ticket to paradise)
    تحریر؛ پروفیسر نعمان باقرنقوی، کراچی 

    چند دن پہلے اویس حمید کا فون آیا کہ سر میری مختصر فلم [short film] کی سکریننگ ہے،آپ نے آنا ہے ۔ اویس حمید زیبسٹ [ZABSIT] کے شعبہ ابلاغ عامہ میں پڑھتے ہیں۔ جب وہ تعلیم کے لیے کراچی آئے تھے تو میں نے خوشی اور مسرت کا اِظہار کیا تھا۔ مجھے فوٹو گرافی کاشوق رہا ہے جو ان کی طرف سے مجھے اس موقع پر مدعو کرنے کا سبب بنا۔ اویس میرے قدیم دوست کے بیٹے ہیں جو اپنے شوق سے اس میدان میں آئے۔ اُمید ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو اس میدان میں جلد ہی منوالیں گے۔ 
    یہ مختصر فلم کراچی میں رہنے والے بنگالی خاندان سے متعلق ہے۔ یہ ایک غریب خاندان ہے جو سمندر کے کنارے مچھیروں کی بستی میں رہتا ہے۔ ان کا ایک بیٹا سمندر میں ڈوب گیا تھا، اس لیے بوڑھے والدین اپنے چھوٹے بیٹے کو سمندر میں کشتی لے کر جانے نہیں دیتے۔ یہ اکیلی کشتی بڑے بیٹے اور خاندان کی نشانی تھی، اس لیے وہ اسے بیچتے بھی نہیں تھے۔ ان کا یہ بیٹا ساحل پر ہی محنت مزدوری کرتا ہے۔ اس کے والدین کی واحد خواہش حج پر جانے کی تھی، جسے پورا کرنے کے لیے ان کا بیٹا بےچین رہتا تھا۔ 
    ایک دن کسی گیم شو میں ان کا، عمرہ کرنے کا ٹکٹ نکل آتا ہے۔ بیٹا بڑی خوشی سے آکر اطلاع دیتا ہے اور اس کے والدین بہت خوش ہوتے ہیں، مگر ساتھ ہی والد گرامی سوال کرتے ہیں کہ ہمارے پاس شناختی کارڈ نہیں تو پاسپورٹ کیسے بنے گا؟ ہم عمرہ پر کیسے جائیں گے؟ بیٹا شوق اور جذبے سے کہتا ہے کہ میں کرلوں گا، ہوجائے گا، آپ پریشان نہ ہوں۔ 
    قصہ مختصر 
    وہ دوست سے اس پریشانی کا اِظہار کرتا ہے وہ اسے ایک ایجنٹ کا بتاتا ہے کہ جو اسے شناختی کارڈ بنا کر دے سکے۔ ایجنٹ اسے 80000 روپے لانے کو کہتا ہے۔ بیٹا ماں باپ کو کسی طرح راضی کرکے کشتی گروی رکھ کر رقم ایجنٹ کو دیتا ہے اور وہ رقم لے کر بھاگ جاتا ہے ۔ یہ ایسی بڑی پریشانی تھی کہ اس پر ہر طرف سے مایوسی کے اندھیرے چھا جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں اسے کوئی دوست کہتا ہے کہ گیم شو والوں سے بات کرو ممکن ہے ٹکٹ کی رقم مل جائے اور آپ کشتی چھڑا سکو۔ اس طرح اس نے کشتی واپس لے لی، وہی شخص جس کے پاس کشتی گروی رکھی تھی، اسے کہتا ہے کہ میرا ایک جہاز عمان جارہا ہے میرے آدمی سب سنبھال لیں گے۔ آپ چاہو تو اپنے ماں باپ کے ساتھ اس مقدس سرزمین کی زیارت کو جاسکتے ہو۔ یہ تین افراد حرمین شریفین کی زیارت کے شوق میں بے سوچے سمجھے دوسرے پر اعتماد کرکے جہاز پر سوار ہونے کے لیے روانہ ہوجاتے ہیں۔ یہاں فلم ختم ہوگئی اور خوب داد ملی۔ ہم باہر آتے ہیں اور سب اویس کو مبارک باد دیتے ہیں۔ پھر ہم چائے کے لیے بیٹھے تو پتا چلا کہ ایک سال پہلے سے فلم کا خاکہ بن رہا تھا۔ میں نے کہا کہ اس فلم کی ٹائمنگ اور موضوع اس وقت بین الاقوامی میڈیا کی زینت ہے۔ پاکستان میں بنگالی کمیونٹی سے جڑے مسائل اس فلم کا مستقل موضوع ہیں۔ اویس نے کہا کہ جب میں اس فلم کے آخری منظر کو لکھ رہا تھا تو اس وقت اٹلی کے ساحل پر کشتی ڈوبی تھی اور اس میں ہاکی کا کوئی قومی سطح کا کھلاڑی اور اس کا بیٹا بھی ڈوب گئے تھے۔ 
    نتیجہ
    میں سوچنے لگا کہ لوگ کیوں اپنے ملک کی جنت چھوڑ کر اپنا سب کچھ قربان کرکے جانتے بوجھتے ہوئے دوسرے ملکوں کی زمین کو جنت بنانے کے لیے اپنی جان کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ شاید ایجنٹ انہیں یہ سمجھانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ تھوڑے سے عذاب کے بعد جنت کے دروازے ان کے لیے کھل جائیں گے۔ جنت کے خواب بیچنا کتنا پھلتا پھولتا کاروبار ہے کہ متعلقہ حقائق انسان کو نظر نہیں آتے، نہ ہی بتانے والوں کو اور نہ ہی سننے والوں کو نظر آتے ہیں۔
    Share via Whatsapp