ایک جامع اور آفاقی تحریک
امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رح اور ان کے بیٹے امام عبدالعزیزرح کے دور میں جہاں ولی الہی جماعت
ایک جامع اور آفاقی تحریک
تحریر : انور جاوید، ٹوبہ
ولی اللہی جماعت ایک مضبوط تاریخی تسلسل کی حامل جماعت ہے۔ جو نہ صرف ایک قومی تحریک ہے، بلکہ دین اسلام کی اِنفرادی، اجتماعی اور قومی سطح سےلے کربین الاقوامیت تک کا جامع فکر و فلسفہ رکھتی ہے۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اور ان کے بیٹے امام شاہ عبدالعزیزدہلوی ؒ کی رہنمائی میں ولی اللہی جماعت ہندوستان میں مسلسل قومی خدمات سر انجام دیتی رہی ہے ۔ ولی اللہی فکر آفاقی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ولی اللہی فکر بین الاقوامی سطح تک وہ تعارف حاصل کیوں نہ کرسکی، جس کی وہ مستحق تھی۔ اس کی ایک بنیادی وَجہ یہ بھی تھی کہ ولی اللہی تحریک کا زیادہ تر فکر و فلسفہ فارسی اور عربی زبان میں مدون ہے، جس کو بعد میں ہندی( اردو/ریختہ) میں بھی تحریر کیا گیا۔اس وَجہ سے دیگر اقوام میں یہ تحریک اس درجہ متعارف نہ ہو سکی، جس کی یہ مستحق تھی۔
امام شاہ عبدالعزیز دہلوی ؒ جو کہ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے فرزند اور آپ کی تحریک کے وارث و شارح تھے۔ ایک روایت کے مطابق علمائے استنبول نے ان کو دعوت دی کہ وہ استنبول آ کر اپنے علوم سے انھیں براہِ راست روشناس کروائیں۔ ایسا کرنے میں بہت سی چیزیں آپ کے آڑے آ رہی تھیں۔
ایک تو اس وقت کے ہندوستان کے معروضی حالات بے حد خراب تھے اور دوسری وَجہ آپ اس وقت اپنے والد گرامی امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا رہے تھے۔ تیسری اور سب سے اہم وَجہ یہ تھی کہ جو اہم کام امام شاہ عبدالعزیز دہلوی ؒ سر انجام دے رہے تھے۔ وہ عوامی رابطہ مہم تھی،جس میں آپ بڑی حکمت سے کام لیتے ہوئے بدیسی قوتوں کے خطے میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو ختم کرنے میں برسر پیکار تھے۔ ایک اور اہم فریضہ جو آپ سرانجام دے رہے تھے وہ امام شاہ ولی اللہ ؒ کی فکر کو عام فہم بنا رہے تھے، جس کی وَجہ سے وہ متوسط طبقہ میں بے حد مقبول ہو رہی تھی۔ یہ ایک حقیقت ہے جو بھی فکر متوسط طبقہ میں مقبول ہو جائے اس کے ختم ہونے کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں۔یہ آپ ؒ کا عظیم کار نامہ ہے۔
درج بالا بیان کردہ حقائق ہی تھے، جن کی بنا پر آپ نے ہندوستان سے باہر نہ جانے کا فیصلہ کیا۔ اس سے ولی اللہی علوم کے بیرونی دنیا میں تعارف پیش کرنے کے لحاظ سے تو شاید کوئی کمی واقع ہوئی ہو مگر آپ نے اس خطے کے لیے لازوال فکری ،تحریکی اور آزادی کے لیے خدمات پیش کیں۔یعنی آپ ؒ نے شاہ صاحب کی فکر کی ترویج کی ۔ان کی فکر پر جماعتی عمل کو آگے بڑھایا ۔متوسط طبقہ میں شاہ صاحب کی فکر کو عام کیا ۔ عوامی رابطے کو مضبوط کیا۔ فتوی دارالحرب دیا، جس کی بدولت عام آدمی تک غلامی کی لعنت کا احساس اور جذبہ حریت پیدا ہوا۔
علمی حوالے سے،ایک بلند مرتبہ عالم دین نے پورے ہندوستان کا سفر کیا ۔وہ کہتے ہیں کہ انھیں پورے ہندوستان میں ایسا کوئی عالم نہ ملا جو بالواسطہ یا بلا واسطہ امام عبدالعزیز ؒ کے سلسلہ تعلیم سے متاثر نہ ہو ۔ اس سے آپ ؒ کی علمی خدمات کا بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
الغرض آپ نے ان خدمات کی انجام دہی میں اعلی مقام و مرتبہ پایا۔ آپ کی سوچ صرف خطے تک محدود نہ تھی، بلکہ آپ عالمی استعمار کی بین الاقوامی چالوں سے بھی اچھی طرح واقف تھے۔ اس بات کا ثبوت آپ کی تیار کردہ جماعت ہے، جس نے شمع سے شمع جلائی، جس نے ہر دور(تحریک بالا کوٹ، 1857ء کی جنگ آزادی میں شاملی کے میدان میں جہاد، دارالعلوم کاقیام، تحریک خلافت، ثمرۃ التربیت،جمعیت الا نصار،نظارۃالمعارف القرآنیہ، تحریک ریشمی رومال) میں بہترین حکمت عملی اپنائی ہے ۔ انھی تحریکات کی بدولت یہ خطہ اغیار کے چنگل سے آزاد ہوا۔اور یہ جامع فکر و فلسفہ تاریخ نہیں، بلکہ آج کے جدید دور میں ہمارے مسائل کا حل پیش کرتا نظر آتا ہے۔یہ عصر حاضر کے باشعور افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس عظیم فکر وفلسفہ سے رہنمائی حاصل کریں اور معاشروں کو ترقی سے ہمکنار کریں۔