ماہ رمضان نظریۂ صارفیت کی زد میں
ماہ رمضان کے مہینے میں خوراک اور مشروبات سے منسلک کمپنیاں نظریۂ صارفیت کی بنیاد پر مسلمانوں کا روحانی و جسمانی استحصال کرتی ہیں۔
ماہ رمضان نظریۂ صارفیت کی زد میں
تحریر ؛ حسنین خان،دبئی
رمضان المبارک کے معاشرے پر سماجی، اور معاشی اَثرات مرتب ہوتے ہیں۔ رمضان المبارک میں روزے رکھنا اجتماعی عمل ہے، جس سے سماجی تبدیلی کا نظریہ فروغ پاتا ہے۔ ہمارا یہ مادی جسم بھوک اور پیاس ایک ماہ تک اس لیے برداشت کرتا ہے کہ اس میں دوسروں کے لیے ہمدردی اور ان کی بھوک پیاس دور کرنے کی جدوجہد جیسے جذبات پیدا ہوں۔
لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں جہاں ہر چیز کو جنس کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، وہیں پر اس رمضان المبارک جیسے مقدس مہینے کو بھی جنس میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
کنزیومراِزم اور کمرشلائیزیشن نے عام عوام کے ذہنوں کو بری طرح جکڑ لیا ہے، جس کی وَجہ سے آج مسلمان رمضان المبارک کی روح سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔لوگ سرمایہ دارانہ اَثرات میں اتنا غرق ہوچکے ہیں کہ اجتماعی اخلاق بکھر چکے ہیں۔
آج ملٹی نیشنل کمپنیاں ہمارے ذہنوں پر قابض ہیں۔ صارف کی ہر طرف سے یہ کوشش ہے کہ ہماری تسکین زیادہ سے زیادہ ہو، جب کہ دوسری طرف فرم کا مقصد منافع کا زیادہ سے زیادہ حصول ہے۔ آج خوراک اور مشروبات سے منسلک بڑی بڑی کمپنیوں نے مختلف ٹرانسمشنز اور ٹی وی ایڈز کے ذریعے ہمارے دسترخوان کو کنٹرول کر رکھا ہے اور بالواسطہ طور پر کمپنیاں یہ فیصلہ کر رہی ہیں کہ ہمیں کس چیز کو کس وقت صرف کرنا ہے۔
اَب چوں کہ دنیا کی ایک چوتھائی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے تو ان کمپنیوں کا یہی ٹارگٹ ہوتا ہے کہ مختلف طریقوں سے رمضان المبارک کے مہینے میں ہائیپر کنزیومراِزم کو فروغ حاصل ہو، جس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ رمضان المبارک کے مہینے میں خوراک اور مشروبات سے منسلک کمپنیوں کا نفع آسمانوں کو چھو رہا ہوتا ہے، جب کہ اس کے پیچھے جینوئن خریداری کے بجائے کمپنیوں نے صارفین کی ذہن سازی کی ہوتی ہے۔ اس مہینے میں بڑی کمپنیوں کی پروڈکٹ سامنے رکھ کر پروگرامز کیے جا رہے ہوتے ہیں، جہاں لوگوں کو مسجدوں، عبادات اور دیگر نیک عملوں سے دور رکھا جارہا ہوتا ہے، وہیں پر ان کے خوراک کے بلز میں 50 سے 100 فی صد تک کا اضافہ بھی ہورہا ہوتا ہے جو کہ صارف سمجھ نہیں پا رہا ہوتا۔
83فی صد خاندان اپنی خوراک کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق رمضان المبارک میں خوراک پر ہونے والے اخراجات سالانہ 15فی صد بنتے ہیں۔
اسی طرح اگر ہم کھانے کے طور طریقے پرکھیں تو معلوم ہوگا کہ رمضان المبارک میں ہی سب سے زیادہ وسائل رزق کا ضیاع کیا جارہا ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام کے ماحول میں روزے کی روح کو نظرانداز کیا جا رہا ہوتا ہے۔ لوگ عبادات اور اپنے نفس کے تزکیہ کے بجائے نظریہ صارفیت (کنزیومراِزم کو جو کہ ان کے ذہنوں میں بالواسطہ فیڈ کر دیا جاتا ہے۔) کی بنیاد پر رات کو دیر تک ہوٹلوں اور کھانے کے مقامات پر بیٹھ کر وقت اور وسائل کا ضیاع کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ زندگی سے مستفید ہورہے ہیں، کیوں کہ ان کے ذہنوں کو سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے سے یہ بات پہنچائی جا رہی ہوتی ہے کہ رمضان المبارک شاید اسی طریقے سے گزارنے کا نام ہے۔
ہمارے کرنے کا کام
آج اس پُرفتن اور نفسانفسی کے دور میں ہمیں اپنے عمل پر غور کرنے اور دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اس مہینے میں اس کی رحمتوں اور برکتوں سے مستفید ہورہے ہیں یا پھر سرمایہ دارانہ نظام کے پرافٹ کی بھوک کی بھینٹ چڑھ کر دنیا و آخرت تباہ کر رہے ہیں!