آن لائن مذہبی پروگرام کی مروجہ کیفیت اور حقیقی معیارات
آن لائن مذہبی پروگرام کی مروجہ کیفیت اور حقیقی معیارات
آن لائن مذہبی پروگرام کی مروجہ کیفیت اور حقیقی معیارات
محمد حارث خان یوسفزئی، راولپنڈی
عصر حاضر میں جہاں ہمارے گردوپیش میں ہر شہ ڈیجیٹل صورت اختیار کرتی جارہی ہے اور دیگر سماجی خدمات (social services) آن لائن ہوتی جا رہی ہیں، وہیں مذہبی اقدار کو بھی اسی ڈگر پر بے ہنگم اور غیرمعیاری بنیاد پر آن لائن کیا جا رہا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ہر شخص اِنفرادی سطح پر ہی دو چار عربی تصنیفات کے اردو ترجمہ پڑھ کر گویا اپنے آپ کو ازخود ہی عالم کے درجہ پر براجمان کرکے آن لائن چینل بنا کر بیٹھ جاتا ہے۔ یقیناً دورِجدید میں ترقیات کا انکار کرنا بیوقوفی ہے، لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے بین الاقوامی و قومی غلبے کے موجود ہوتے ہوئے مکمل طور پر صرف انھی ترقیات پر انحصار کرنا کسی طرح بھی عقل مندی کا ثبوت نہیں۔
اسی خطرے کے پیش نظر گزشتہ دو دہائیوں سے "عالم آن لائن" جیسے پروگرامز نے معاشرے میں فرقہ واریت کو مزید پروان چڑھایا اور آج تک مسلکی اختلافات کو عام عوام کے سامنے رکھ کر مزید نفرت کے بیج بوئے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف کوئی بھی شخص اچانک اُٹھتا ہے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اپنا چینل بنا کر دین سمجھانا شروع کر دیتا ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ دیگر علوم کے ماہر جب تک متعلقہ سند یافتہ(degree holders) نہ ہوں تو عوام ان کو مسترد کر دیتے ہیں، لیکن کوئی بھی شخص راتوں رات اُٹھ کر دین کا نمائندہ بن جائے تو عوام اس کو معیار پر پرکھنا بھی مناسب نہیں سمجھتی، بلکہ اس کے برعکس فرقہ وارانہ اور جذباتی گفتگو کی وَجہ سے اس کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیتی ہے۔ اس سب کے پس منظر میں اس کا ملکی نظام بھی اس کاوش میں بھرپور حصہ ڈالتا ہے اور ان پروگرامز کی اشاعت میں رقم تک خرچ کرتا ہے، کثیرالقومی کمپنیاں(multinational companies) ایسے پروگرام کو اشتہارات سے نوازتی ہیں، جس پروگرام پر جتنا بڑا مسلکی مسئلہ زیر بحث آئے گا اس کی درجہ بندی(ratings) اتنی ہی زیادہ بڑھے گی، اور اس بڑھوتری کی وَجہ سے اشتہارات بھی زیادہ ملیں گے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں چوں کہ زر(capital) ہی اصل ہے تو اس زر کو کمانے کی خاطر عوام کے دماغوں میں اختلافی مسائل نفرت کی صورت انڈیل دیے جاتے ہیں جو پھر معاشرے کا ناسور(cancer) بن کر ایک مستقل خوف کی صورت اختیار کر جاتے ہیں اور نتیجتاً جانے کب، کون، کیا عنوان دے کر موت کی نیند سلا دے۔
عالم کی ذمہ داری میں سچ بولنا شامل ہے، لیکن جب اس کی شہرت کا باعث ہی سرمایہ دارانہ نظام(capitalism) بنے گا تو وہ کیسے اس نظام کے خلاف بات کرے گا، لہٰذا وہ ظلم کی حقیقی جڑ کو کبھی منظر عام پر نہیں آنے دیتا۔ بلکہ عوام کو تقسیم رکھنے کے لیے وہ مسائل بیان کرتا ہے، جس میں مسلکی اختلاف پایا جاتا ہو۔ پھر نظام ایسے افراد کو دیگر قومی سطح کے سرکاری و نجی میڈیا پلیٹ فارمز کا حصہ بناتا ہے اور عوام کے اندر اس کی شہرت کا ڈنکا بجواتا ہے، اتنی شہرت دیکھ کر وہ شخص بھی حُب جاہ کا شکار رہتا ہے، اور اس ذہنی مرض کے اندر وہ حق بات کا بھی انکار کر دیتا ہے اور اپنی اس جھوٹی شہرت کو قائم رکھنے کے لیے بے بنیاد دلائل گھڑتا ہے۔ عوام کا چوں کہ تحقیقی مزاج نہیں ہوتا اور اس خطے میں کئی سال غلامی میں رہنے کے بعد تحقیق کا یہ وصف ویسے ہی ناپید ہے، تو عوام ایسے مشہور افراد کے بیان کردہ قصوں کو درست مان لیتی ہے۔
دور کے مطابق یہ جدید انداز ضروری ہے تو اس کے معیارات(SOPs) طے ہونا لازم ہیں، کون سے مسائل ایسے ہیں جو عوام کے سامنے زیر بحث نہیں لانے چاہییں، علمائے کرام کا آپسی رویہ کس نوعیت کا ہوگا، تاریخی واقعات پر گفتگو کرتے ہوئے اجتماعی پہلو(collective perspective) سامنے رکھے جائیں نہ کہ اِنفرادی و شخصی پہلو، تعصب(biased) بھری گفتگو کا انداز نہ ہو، جب کسی شخصیت پر گفتگو ہو، تو وہ اوصاف سامنے لائے جائیں، جن کا تعلق عوام کے عمل کرنے سے ہو، پھر جو عالم ایسے آن لائن اجتماع میں بلائے جائیں ان کا ماضی فرقہ واریت سے پاک ہو، وہ عالم کی تمام شرائط پر پورا اُترتے ہوں، ان کا انداز عوامی اور رہنمائی دینے والا ہو۔
اور جو اِنفرادی سطح کے اپنے ذاتی چینل بنا کر منظر عام پر آتے ہیں ان کے لیے عوام کو خود باشعور ہونا پڑے گا، ان کا تسلسل جاننے کی کوشش کریں کہ وہ خود کہاں سے تعلیم یافتہ ہیں، ان کا نظریہ کیا ہے، ان کی کہی گئی باتوں کی تحقیق ضرور کریں، عقلی اصولوں پر پرکھیں، اپنی مذہبی و تاریخی روایات سے جوڑ کر اس بات کو سمجھیں، واقعات جو بیان کیے جائیں ان کے نتائج پر غور کریں۔
ہر ترقی کی ایک حد اور ایک دائرہ کار ہوتا ہے، وہ ترقی تب تک ہی فائدہ مند ہے جب تک اس کا مقصد انسانی مفاد کا ہو، لیکن جب اس کا مقصد محض دولت کمانا بن جائے اور اس کے لیے انسانی اجتماعی مفادات کو پس پشت ڈال دیا جائے تو یہ شیطانی وصف بن جاتا ہے۔ اس لیے اس ظلم کے دور میں جہاں ہمارے ملک کے اوپر سرمایہ دارانہ چھتری ہے، ایسے ہر اقدام کا جائزہ لینا ضروری ہے جو تقسیم انسانیت کا موجب بنے اور درست راستے کو تلاش کرنا موجودہ دور کا اہم تقاضا ہے۔