سماجی انقلاب کے لئے اجتماعی جدوجہد کی اہمیت - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سماجی انقلاب کے لئے اجتماعی جدوجہد کی اہمیت

    سماجی انقلاب کے لئے اجتماعی جدوجہد کی اہمیت

    By انجنئیر صفدر خان بنگش Published on Apr 09, 2023 Views 1266
    سماجی انقلاب کے لئے اجتماعی جدوجہد کی اہمیت
    تحریر: انجینئر صفدر خان بنگش، الخبر سعودی عربیہ

    اللہ تبارک وتعالی کی پیدا کردہ یہ کائنات بہت ہی وسیع ہے۔ اس میں لاتعداد کہکشائیں موجود ہیں جن میں سے ایک ملکی وے ہےجس کا ہم ایک حصہ ہیں۔ ہماری زمین نظام شمسی کاایک سیارہ ہے جس کی حیثیت کائنات کے مجموعی حجم کے اعتبار سے شاید ایک نقطے سے زیادہ بھی نہ ہو البتہ اس مادی کائنات میں ایک چیز مشترک ہے کہ یہ فلکی اجسام مادے سے بنے ہیں اور اپنی ایک مادی ساخت اور وجود رکھتے ہیں۔ اس اعتبار سے اس کی کمیت (Mass) اور وزن (Weight) ہوتا ہے۔ مادی وجود ٹھوس( Solid )، مائع (Liquid) یا گیس (Gas)کی شکل یا حالت میں پایا جاتاہے۔
    اب چونکہ کائنات مادی وجود سے بنی ہے اس لئے کائنات میں تغیر و (Transitions) اور تبدل (Changes) خاص مادی قوانین  (Material Laws) کے تحت ہوتا رہتا ہے۔
    ہماری زمین اگرچہ اس کائنات میں محض اک نقطے کی مانند ہے لیکن زمین کی اہمیت کائنات میں اب تک کی ناسا
    (National Aeronautics and Space Administration)
    کی تحقیقات اور مشاہدات کے مطابق مرکزی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ زمین پر جانداروں کا وجود پایا جاتاہے اور زندگی یا بقائے زندگی (Survial of Life) کے لئے وسائل اور اسباب موجود ہیں جوکہ اب تک کی ناسا یا دیگر فلکیاتی اداروں کی ریسرچ کے مطابق کائنات کےکسی دوسرے سیارے یا گیلیکسیز پر موجود نہیں ہیں۔
    زمین پر جانداروں ( نباتات اور حیوانات ) کی لاکھوں اقسام پائی جاتی ہیں۔ جن میں سب سے زیادہ اہم، کامل اور ترقی یافتہ جاندار یہ حضرتِ انسان ہے گوکہ قوت، جسامت اور طاقت میں بہت سارے جانورانسان سے کہیں زیادہ بڑھ کرہیں۔
    حکیمِ انسانیت حضرت الامام شاہ ولی اللہ  دہلوی کے نزدیک انسان درج ذیل تین خصوصیات کی وجہ سے کائنات کےتمام جانداروں میں ایک ممتاز بلکہ بلندترین مقام کا حامل ہے۔
     1: مادہ ایجاد و تقلید ( یعنی انسان اپنی عقلی وعملی صلاحیتوں کو کام میں لاکر تحقیق کرتا ہےاور نت نئی اشیاء ایجاد کرتا ہے اوراسی کےساتھ ساتھ دوسروں کی ایجادکردہ اشیاء کو کام میں لاکر ان سے استفادہ کرتا ہے)۔
     
    2: حب جمال ( انسان اپنی زندگی میں مزید جدت اور بہتری کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہتا ہے اور خوب سے خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرم عمل رہتا ہے۔دور حاضر میں اسی کو اپگریڈیشن بھی کہاجاتا ہے)۔

    3: رفاہ عامہ ( انسان میں ایک خصوصیت یہ بھی ہےکہ وہ اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر اجتماعی مفاداور دوسرے انسانوں کی فلاح کے لئے بھی سوچتا ہے اور کام کرتا ہے)۔
     
    کرہ ارض پر انسان اپنی انہی خصوصیات کی بنیاد پر سماج اور ریاستیں تشکیل دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اس سطحِ زمین پر 204 ممالک موجود ہیں۔ اگرمذکورہ بالا خصوصیات کو بروئے کار لاکر سماجی تشکیل کا عمل اختیار کیا جائے تو تمام مادی وسائل کو کام میں لاکر اس کے نتیجے میں اجتماعی انسانی مفاد کا تحفظ پر مبنی معاشرے وجود میں آسکتے ہیں اور اسی سے انسانی زندگی میں بہتری اور جدت پیدا کرنے کے اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔
    لیکن عہدحاضرکا منظر نامہ ایک بڑی دردناک حقیقت کا اظہار کرتا ہے کہ اس میں مذکورہ بالا انسانی اصولوں خاص طور پر رفاہِ عامہ کے تصور کے برعکس دنیا بھر کےاکثر وسائل اوراقوام کو عالمی سامراجی گروہ نے اپنے زیرِتسلط رکھا ہواہے۔ اسی بالا دست طبقے کوعرف عام میں بین الاقوامی سرمایہ دار یاCapitalist کہا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت اپنے بنیادی حقوق مثلاً روٹی، پانی، کپڑا، مکان، صحت اورتعلیم وغیرہ سے محروم ہے کیونکہ ان وسائل پر انہی مخصوص سامراجی گروہوں کا تسلط ہے۔
    گزشتہ کم وبیش تین صدیوں سے اس نظامِ سرمایہ داری نے اپنے مکروہ وسفلی مفادات کے حصول کے لئے اقوام اورانسانیت کو غلام بنا رکھا ہے۔
    ایک افریقن نژاد (صومالیہ) یورپین نیشنلٹی ہولڈر ڈاکٹر / پروفیسر عباس مقیم دمام( سعودی عرب) جوکہ یہاں پیٹرولیم یونیورسٹی میں پڑھاتے  ہیں۔ آپ سماج،  ریاست میں رہنے والے انسانوں ( مردوعورت، جوان، بچے بوڑھے اور پھر مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے انسان ، جانوروں اور پرندوں ) وغیرہ پر ریسرچ کرچکے ہیں۔ آپ نے ”افریقن ممالک میں انسانوں،حیوانوں،پرندوں اور دوسرےجانداروں کی نسل کشی کی بقا“ کے موضوع پر امام عبدالرحمن بن فیصل یونیورسٹی میں ایک لیکچر دیا تھا۔ جس میں آپ کے مشاہدات اورتحقیق  کے مطابق افریقہ میں %60 انسان غذا کی کمی کا شکار ہیں جسکی وجہ سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوکر بروقت علاج کی عدم دستیابی کی وجہ سے لاکھوں انسان لقمہءِ اجل بن چکے ہیں۔
    انسانوں کی ان اموات ،جوکہ زیادہ تر دیہی علاقوں میں رہتے ہیں، کا تناسب%60 ہے۔ اسی طرح باقی انسانوں کی ابادی کا  %40جو  شہروں میں رہتے ھیں، اس میں سے بھی %30 ابادی بھوک اور جہالت میں ڈوبی ہوئی ہے۔یہ لوگ12، 12 گھنٹے کام کرکے اپنی اور اپنےبچوں کی بمشکل غذائی ضروریات ہی پوری کرسکتے ہیں لیکن ان کی تعلیم یا صحت کی سہولیات حاصل نہیں کر پاتے۔
    باقی %5 عیاش اور مفاد پرست حکمران ٹولہ ہے جس کو ترقی یافتہ ممالک سےبھی کہیں زیادہ مراعات اور وسائل حاصل ہیں اور %5 اوورسیز جوکہ یا تو دوسرے ممالک میں نیشنلٹی ہولڈرز ہیں یا اپنےخاندانوں کے لئے Remittances بھیجتے ہیں لیکن اس سے بھی وہ بمشکل اپنی غذائی ضروریات، تن ڈھانپنے کے لئے کپڑا، رہائش کے لئے گھر ، بیماری کے لئے وقتی علاج ، جہالت سے نکلنے کے لئے تعلیم اور بقائے نسل کے لئے نکاح وغیرہ کی سہولیات حاصل کرسکتے ہیں۔
    یہ تو افریقن ملک صومالیہ کا حال ہے جوکہ ایک طرف مادی وسائل سے مالا مال ہے تو دوسری طرف اس ملک کے پاس افرادی قوت بھی وافرتعداد میں دستیاب ھے لیکن ان سب کے باوجود سرمایہ داری تسلط کی لعنت کے باعث اس ملک پر انسان ہی نہیں حیوانات اور پرندے بھی مررہے ہیں۔
    یہی حال دنیا کے آدھے سے زیادہ دوسرے ممالک کا ہےاور بدقسمتی سےکئی دہائیوں سے ہمارا ملک وطن عزیز پاکستان بھی قومی اور بین الاقوامی سرمایہ داروں کے ہاتھوں افریقن ممالک کے صف میں لا کھڑا کردیا گیا ہے۔ پاکستان میں رائج نظام سرمایہ داری نے یہاں غربت، افلاس، جہالت اور بدامنی کو فروغ دیا ہے۔
    اب جبکہ ہم اس کے خاتمے کی بات کریں گے تو ہمیں اس مادی کائنات میں جاری نظام اسباب کو سمجھنا ہوگا۔ جیساکہ معاشرتی زوال کا بنیادی سبب رائج سرمایہ داری نظام ہے تو اس کے تدارک کے لئے ہمیں ایک مضبوط اور موثر مزاحمتی قوت اختیار کرکے ہی آگے بڑھنے کی حکمت عملی وضع کرنی پڑے گی بصورت دیگر ہمارا حشر بھی اوپر ذکرکئے گئے افریقہ کے ان ممالک جیسا ہوسکتا ہے کہ جہاں ظلم و بربریت تو اپنی انتہاؤں کو چھورہی ہے لیکن اس جبر کے تسلط کے خلاف کوئی منظم اجتماعی طاقت وقوت موجود نہیں ہے جو کسی بھی زوال یافتہ معاشرے میں اجتماعی سدھار لانے کے لئے ضروری ہوتی ہے۔
    تاریخ عالم کا مطالعہ بھی اسی حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے ایک ہمہ گیر انسانیت نواز نظریے پر جب بھی ایک باشعور اجتماعیت منظم ہوئی ہے اور اس نے سماجی بدلاؤ کا راستہ اختیار کیا ہے تو معاشروں کو ظلم وجبر سے نجات ملی ہے اور انسانیت نے اجتماعی طور پر سکھ کا سانس لیا ہے۔ حضرات انبیاء علیہم السلام کی جماعتی تشکیل کے ذریعے سماجی تبدیلی (ظالمانہ طاغوتی طاقتوں کے خاتمے اور عدل وانصاف کے قیام ) کے لئےقابل قدر کاوشیں اسی عظیم سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
    آج وطن عزیز پر مسلط نظامِ سرمایہ داری کے ان گھٹا ٹوپ اندھیروں اور ان کے اثراتِ بد یعنی ظلم، جبر، ناانصافی، جہالت، طبقاتیت اور اخلاقی بحران سے نجات کا واحد راستہ یہ ہے کہ دین اسلام کے انسانیت دوست تصور اور اس کے جامع فکروعمل کی روشنی میں صالح اجتماعیت اور باشعور قیادت کی تیاری کے عمل کو اختیار کیا جائے اور اس راہ کی کاوشوں میں تیزی لائی جائے تاکہ اس عظیم دھرتی کے باسی بھی عدل وانصاف، امن واستحکام اور سماجی و اجتماعی ترقی کی راہوں پرگامزن ہوسکیں۔
    Share via Whatsapp