انسانی سماج اور الٰہی تدابیر - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • انسانی سماج اور الٰہی تدابیر

    نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علی وسلم کی سیرت طیبہ اور سماج کی ایک جامع تصویر۔ ظلم و ستم سے دوچار سماج نے کیسے فلاح پاٸی

    By Rahib Published on Jan 26, 2023 Views 442
    انسانی سماج اور الٰہی تدابیر
    تحریر؛  راہب علی سموں،  کراچی 

    جب خالق نے اس کائنات میں مختلف مخلوقات کو وجود دینے کا ارادہ کیا تو اس کرہ ارض پر بے شمار جان دار و غیرجان دار، مادی و غیرمادی چیزوں کو بھی وجود بخشا۔ان میں ایک ذی شعور مخلوق بھی پیدا کی گئی، جس کو انسان کے نام سے جاناجاتاہے۔یہ انسان آپس میں باہمی روابط کے ذریعے تعلقات قائم کرکے دھرتی پر زندگی بسر کرتا ہے۔جس سےخاندان بنے،گاؤں اور شہر وجود میں آئے اور ممالک قائم ہوئے،مختلف کاروبار، لین دین، شعبے قائم ہوئے،اورنظم و ضبط پیداہوا، اس تمام مجموعے کو 'سماج' کہا جاتا ہے۔
    شروع میں انسان درست خطوط پر تھا، لیکن کچھ انسانوں نے ایسے کام شروع کردیے،جس سے سماج میں انسانوں کے لیے تکالیف پیدا ہونی شروع ہوئیں۔مگر ان مصائب کا ذمہ دار عام انسان نہیں، بلکہ وہ افراد بنے، جو معاشرے میں بالادست تھے۔ انھوں اپنے فاسد فکر اور طریقے سے معاشرے میں فتنہ و فساد برپاکردیا ۔ اچھائی کے بجائے برائی کا غلبہ ہوگیا اور فطرت پر قائم رہ کر زندہ رہنا مشکل ہوتا گیا۔ فطرتی قانون کے انکار ، معاشی و سماجی جبر و ظلم ، بے انصافی اور اخلاق کی پستی و بداخلاقی کو رواج ملناشروع ہوا، شرک و بت پرستی سے شہروں کے شہر بھرگئے، انسانیت مشرکانہ افکار کے نتیجے میں بالادست طبقات کی ذہنی و سماجی غلامی کا شکار ہوتی گئی۔ تو اللہنے سماج میں معاشرتی صحت کے لیےاپنے چنے ہوئے، سچے، اور انسانیت کے ہمدرد وقتاً فوقتاً دنیا میں بھیجے۔ ان اولوالعزم انسانوں نے اپنے پُرحکمت افکار و نظریات سے انسانیت کی رہنمائی کرناشروع کردی۔ یوں جب کبھی کچھ انسانوں کی وَجہ سے معاشرہ ان بیماریوں کا شکار ہوجاتا تو وہی قدرت کاملہ ان برگزیدہ ہستیوں کو، جن کو انبیا کرام علیہم السلام کہا جاتا ہے، انسانی معاشرے کے علاج کے لیےبھیج دیتی-
          ایک بار پھرایساہوا کہ انسانیت  شرک ،سیاسی،سماجی اور معاشی غلامی کا شکار ہوگئی،جس کے نتیجے میں انسان ذلت و پستی،افلاس و تنگی اور غلامی کے شکنجے میں پِسنےلگا۔ آخرکار اللہ نےانسانوں کے سب سے زیادہ دانا و بینا اور حکیم شخصیت حضرت محمدﷺ کو مبعوث فرمایا۔ شروع میں اس ذہنی وسماجی غلامی کےخاتمے کی حضرت محمدﷺ کی جدوجہدکی بڑی مخالفت ہوئی، یہاں تک کہ حضرت محمدﷺکو بدنی ایذا دینے تک سے گریز نہ کیا گیا۔ وہ لوگ حضرت محمدﷺکی بات پر کانوں میں روئی ڈال لیتے تھے،وہ بداخلاقی کاراستہ چھوڑنانہیں چاہتے تھےجبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاج کا محور عمدہ اخلاق کی تکمیل تھا۔ظلم و ناانصافی کو مٹاکر عدل وانصاف قائم کرنا،گروہیت کی جگہ اجتماعیت کی فضابنانا،جھگڑے اور فساد کی جگہ امن و سلامتی کوفروغ دینا تھا-یوں ظالم طاقتوں کی اجارہ داری ٹوٹی اور ایک اللہ کی وحدانیت اور حاکمیت قائم ہوئی اور عبادت و خدمت انسانیت کے ذریعے سے انسانیت کا تعلق اللہ سے قائم ہوا۔ باطل ملیامیٹ اور حق کابول بالا ہوا۔ صدیوں کی  بداخلاقیوں کو اخلاق و سے بدلا گیا، انسان جو دوسرے انسان کا غلام تھا ، اللہ کا بندہ و غلام بنا۔علم و شعور کو پذیرائی ملی- نبیﷺ کی تربیت یافتہ جماعت نے بین الاقوامی سطح پر معاشرتی فتنہ و فساد برپا کرنے والی دو مفسد طاقتوں قیصر و کسری کے نظاموں کوشکست دےدی ۔ 
    دنیا اس عدل پسند نظام کی وَجہ سے ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک مستفید ہوتی رہی۔ انسانیت پھلتی پھولتی رہی، ایجادات ہوئیں،امن و خوش حالی کےماحول میں انسان جیتا رہا۔ لیکن پھر اذیت ناک صورتِ حال سماج میں طاری ہونے لگی۔نبیﷺ کے بہ قول کہ ْامت میں ہر سو سال بعد ایسے لوگ آتے رہیں گے جو انسانیت کے مسائل حل کرتے رہیں گےٗ، اسی سنۃ اللہ کے مطابق  ہندوستان كے مردم خیز خطہ میں ایک حکیم و دانا شخصیت پیدا ہوئی، جس کو زمانے والے امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے نام سے جانتے ہیں۔اس بزرگ نے سماجی امراض کا ٹھیک طریقے سے جائزہ لیا اور سماجی جسم کے اندر جو امراض کا پھوڑا پیدا ہوا، اس کا علاج نبوی طریقے کے مطابق تجویز کرتے ہوئے اس کے لیے چند ماہرینِ علاج بھی تیار کرلیے، جنھوں نے ہندوستانی سماج پر ان مٹ نقوش ثبت کیے۔ 
    اَب اسی طریقہ کار کے مطابق ولی اللہی افکار کے ماہرین کی جماعت معاشرتی خرابیوں کے علاج کے لیے مصروف عمل ہے-وہ دن رات اسی جدوجہد میں ہے کہ کسی طرح معاشرہ پھر سے عمدہ اخلاق پر قائم ہو-سرمایہ پرستی،سامراجیت اور انسانی غلامی جیسی شیطنت کا خاتمہ کرکے دنیا کو پھر سے جنت نظیر بنایاجائے۔ اس کے لیے ضرورت ہےکہ ایسے پُرعزم و بلند حوصلہ افراد کی ہم معیت اختیار کریں تاکہ ایک صحت مند اور صالح  نظام  قائم  ہو سکے۔
    Share via Whatsapp