معاشرتی ارتقا کے بنیادی امور - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • معاشرتی ارتقا کے بنیادی امور

    پاکستانی سماج معاشرتی ارتقاء کے فلسفہوں کے تناظر میں کس سطح پر کھڑا ہے ؟ اس مضمون میں اس بات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

    By Fahad Muhammad Adiel Published on Feb 19, 2023 Views 1714

    معاشرتی ارتقا کے بنیادی امور

     تحریر؛ فہد محمد عدیل ؛ گوجرانوالہ 


    جدید سولائزیشن انسانوں کی اجتماعی کاوشوں اور ترقیات کا نتیجہ ہے، مگر افسوس ہے کہ انسان کے اس قدر ترقی کرنے کے باوجود دنیا میں انسانوں کا بڑا طبقہ (جمہور) بنیادی سہولیات اور انسانی حقوق سے محروم ہے۔ ایک طرف دنیا میں سرمایہ کے ارتکاز والے قلیل طبقے کے لیے نت نئی سہولیات اور تعیش کے مواقع موجود ہیں تو دوسری طرف انسانیت کی ایک کثیرتعداد بھوک،افلاس اور غربت کی چکی میں پس رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے قیام کے بعد ریاستوں کی نئی حد بندی تو عمل میں آگئی، مگر ریاستی نظاموں کے تحت معاشروں میں طبقاتی گروہیت اور تقسیم انسانیت کے مسائل نے جنم لیا۔ 

    عصرحاضر کے حکیم شاہ ولی اللہ دہلویؒ (1703ء - 1761ء) کے عمرانی افکار معاشرے کی تشکیل کے بنیادی امور کا تعین کرتے ہیں اور ساتھ ہی انسانیت کے اجتماعی مسائل کا حل ریاست کے ادارتی نظام کی تشکیل میں تجویز کرتے ہیں۔

    شاہ ولی اللہ دہلویؒ معاشرتی ارتقا کو ارتفاقات کا نام دیتے ہیں اور ان کی چار منازل کا تعین کرتے ہیں۔ وطن عزیز کے اجتماعی مسائل کا شاہ صاحب کے نظریہ ارتفاقات کے تناظر میں جائزہ لیا جائے تو یہاں پر ارتفاق اول اور دوم ناقص حالت میں ہیں۔

    ارتفاق اول کے بنیادی امور کے تحت غذائی اجناس کی دریافت اور کاشت کاری کا شعبہ بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ بالفاظ دیگر ریاست کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں بسنے والے افراد کی غذائی ضروریات کو ان کے بنیادی حق کے درجے میں پورا کرے۔ دنیا کے ترقی یافتہ معاشرے نہ صرف زرعی منصوبہ بندی کرتے ہیں، بلکہ افراد کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہمہ وقت اداروں کی تشکیل و اصلاح میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ پاکستان کی آبادی میں غذائی قلت موجود ہے۔ خواتین اور بچے اقوام متحدہ کے خوراک کے بنیادی معیارات کے تحت غذا حاصل نہیں کر پاتے۔ محنت کشوں کا بڑا حصہ کاشت کاروں اور کسانوں پر مشتمل ہے جوکہ غیرہنرمند، بنیادی حقوق سے محروم اور بےکسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

    ارتفاق اول میں دوسری اہم چیز افراد کے کھانے پینے کے لیے بہتر غذا اور صاف پانی کا حصول ہے، مگر پاکستان میں غربت سے نیچے زندگی گزارنے والا 70فی صد سے زائد طبقہ پینے کے صاف پانی سے محروم ہے، جس کی وَجہ سے لوگ بیماریوں کا شکار رہتے ہیں۔ بازاری کھانوں اور ہوٹلز میں غیرمعیاری اشیا کی وَجہ سے ملک کی کثیر آبادی بیماریوں میں مبتلا رہتی ہے۔

           شاہ صاحب کے نزدیک ارتفاق اول میں معاشرے کے لوگ زبان (کلام) کا استعمال کرتے ہیں،قبائل اور اقوام کی تشکیل میں خطے کی روایات کے ساتھ افراد کے مابین بولی جانے والی زبان اور اس کی (Linguistics) ترقی معاشروں کے ارتقائی عمل میں زینہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ قومیں علم و ادب میں ترقی اس وقت کرتی ہیں، جب افراد تعلیم یافتہ ہوں۔ وہ اِظہار مافی الضمیر کے لیے اپنی زبان استعمال کریں۔ پاکستانی معاشرہ سیاسی عدمِ استحکام کی وَجہ سے لسانی تقسیم اور طبقاتی تصادم کا شکار ہے۔

    ارتفاق اول کی اسی منزل میں انسانوں کو رہائش کے لیے مکان اور جسم ڈھانپنے کے لیے لباس کی ضرورت ہوتی ہے جو انھیں موسمی شدت سے بچائے۔ پاکستان میں آبادی کا بڑا حصہ اس سے محروم ہے ۔ لوگوں کے پاس مکانات یا تو ہے نہیں اور اگر ہیں، بھی تو وہ ناقص ترین حالت میں ہیں کہ جن میں ایک خاندان بھی سہولت کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتا۔دیہاتوں میں ناقص ترین انفراسٹرکچر کی وَجہ سے بیش تر آبادی کا شہروں کی طرف انخلا ہے جب کہ شہروں کا خود منصوبہ بندی کے بغیر پھیلاؤ مسائل کا شکار ہے۔

    ارتفاق ثانی میں متذکرہ بالا مسائل کا حل انجمنوں اور اداروں کی تشکیل ہے۔ 

    ارتفاق ثانی کو سمجھنے کے لیے شاہ صاحب نے اسے پانچ حکمتوں میں تقسیم کیا ہے۔

    1- حکمتِ معاشیہ (فن معاش) 

    یہ حکمت اس وقت وجود میں آتی ہے، جب انسان اپنے کھانے پینے،چلنےپھرنے،بات چیت،سفروحضروغیرہ میں اچھی وضع کا پابند ہو جائے اور تجربات کی کسوٹی پر انھیں پرکھ لے۔ 

    اس حکمت میں انسانوں کے تین طبقات ہیں۔ 

    i۔ رفاہیت بالغہ: یعنی اشرافیہ جن کے رہن سہن کے انداز مسرفانہ اور عیش و عشرت کے دلدادہ ہوں اور وہ معاشرے میں قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود کثیر وسائل پر قابض ہوں۔ 

    ii۔ رفاہیت متوسطہ: وہ طبقہ جو مڈل کلاس کہلاتا ہے،وسائل اور رہن سہن کے اعتبار سے نہ ہی تنگدست اور نہ ہی زیادہ آسائش پسند ہوتا ہے۔

    iii۔ رفاہیت ناقصہ:معاشرے کا مفلوک الحال،غریب اور مفلس طبقہ ہے۔ پاکستانی معاشرہ کی اکثریتی آبادی نظام ظلم کے سبب اسی طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ 

    حضرت شاہ صاحب کے نزدیک ریاستی ڈھانچہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اداروں کی شہری سطح پر اس طرح تشکیل کرے کہ معاشرہ طبقات میں منقسم نہ ہو، بلکہ رفاہیت متوسطہ میں رہتے ہوئے،مساوات و رواداری کا آئینہ دار ہو۔

    2۔ حکمتِ اکتسابیہ (صنعت و حرفت) 

    اس حکمت میں معاشرے میں موجود افراد کے پیشوں کا تعین اور ان میں پیشہ وارانہ مہارتوں کا فروغ ہے۔ ریاستی نظام اور اس کے ادارے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نسل نو کی تکنیکی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتے ہیں۔ وطنِ عزیز میں معاشی منصوبہ بندی نہ ہونے کی وَجہ سے افراد پیشوں کا چناؤ بھیڑ چال (دیکھا دیکھی) سے کرتے ہیں۔ حال آں کہ پیشوں کا انتخاب اپنی صلاحیتوں کے موافق ہونا چاہیے۔ اشرافیہ کلاس کا ان پیشوں کو اختیار نہ کرنا جن میں محنت کا عنصر ہو، ہمارا کلچر بن چکا ہے ۔ یہی وَجہ ہے کہ وطنِ عزیز زرعی خطہ ہونے کے باوجود ہمیں گندم اور دوسری بنیادی غذائی اجناس درآمد کرنا پڑتی ہیں۔

    2۔ حکمتِ منزلیہ 

    اس سے مراد معاشرے کے خاندانی نظام میں بہتری ہے۔ میاں بیوی کا تعلق اہم معاشرتی اکائی ہے۔ اداروں کی تشکیل اس بنیاد پر ہونی چاہیے کہ وہ خاندانوں کا تحفظ کریں،ان کے درمیان پیدا ہونے والے مسائل اور تضادات کو عدل و انصاف کی بنیاد پر حل کریں۔ وطنِ عزیز میں خاندانی نظام انحطاط کا شکار ہے،عدالتیں طلاق،نان ونفقہ کے مقدمات سے بھری پڑی ہیں۔ عدمِ برداشت،وراثت کے تنازعات نے معاشرے کی شیرازہ بندی کو تباہی تک پہنچا دیا ہے، جس کے نتیجے میں خاندانی روایات ختم ہونے کے درپے ہیں۔

    4۔ حکمتِ تعاملیہ (لین دین کے طریقے) 

    اس حکمت میں شہری سطح پر اداروں کی تشکیل ہے جو اس طرح کی جائے کہ افراد کے مابین لین دین،وراثت اور کاروبار کے معاملات کی نگرانی ہو،تنازعات عدل و انصاف کی بنیاد پر حل کیے جائیں۔ خریدوفروخت،ہبہ،اجارہ،رھن اور قرض کے معاملات صاف ہوں۔ 

    پاکستان کے زوال پذیر معاشرے میں دھوکادہی اور حرص وہوس نے ابتدائی سطح کے کاروبار کو تباہ کر دیا ہے۔ کاروباری طبقہ معاشی عدمِ تحفظ کا شکار ہے۔ ملکی ادارے کرپشن،رشوت،سفارش اور اقربا پروری کی وَجہ سے مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں۔

    5۔ حکمت تعاونیہ 

    اس حکمت میں قانون سازی کا پہلو مدنظر ہوتا ہے، جس میں افراد کے مابین تعاون کے امور اور ان کے قانونی پہلوؤں کا تحفظ ہو۔ اس میں کفالت،مضاربت، شرکت، وکالت اور اجرت یا اجارہ طلبی کے معاملات آتے ہیں۔

    پاکستان میں زراعت،صنعت وحرفت، چھوٹے کاروبار میں مزدور ومحنت کش کو نظام عدل نہ ہونے کے باعث حقوق حاصل نہیں۔ اسی طرح معاشرے میں سرمایہ اور محنت کے عدمِ توازن کی وَجہ سے معاشرہ عدمِ استحکام کا شکار ہے۔

    شاہ صاحب کے عمرانی نظریات خاندانی سطح پر انسانوں کے بنیادی حقوق کا تعین کرتے ہیں۔ ارتفاق ثانی کی منزل شہری سطح پر بنیادی حقوق کی فراہمی اور مسائل کے حل کے لیے اداروں کا قیام عمل میں لاتی ہے۔

    پاکستانی معاشرہ مجموعی طور پر ارتفاق اول اور دوم کی سطح پر ناقص صورت میں موجود ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایک ایسی جماعت کی تیاری کی جائے جو معاشرے میں افراد کی شعوری تربیت کرے، تا کہ معاشرے میں ایسا ریاستی ڈھانچہ تشکیل دیا جاسکے جو صالح اصولوں کی روشنی میں ایک صالح معاشرے کی تشکیل کرے۔

    Share via Whatsapp