سیلاب : ریاستی بے حسی، خدائی عذاب اور حفاظتی تدابیر - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سیلاب : ریاستی بے حسی، خدائی عذاب اور حفاظتی تدابیر

    ریاستی نظام کی ناکامی کے نتیجے میں سیلاب جیسی آفات پورے سماج کے لئے خطرہ اور تباہی بن جاتی ہیں۔

    By محمد عثمان Published on Dec 05, 2022 Views 768

    سیلاب : ریاستی بے حسی، خدائی عذاب اور حفاظتی تدابیر

    تحریر: محمد عثمان، فیصل آباد

    بقیہ دنیا کے مقابلے میں نسبتا  کم بارشیں ہونے کے باوجود کم وبیش ہر دوسرے تیسرے سال ہمارے ملک کو سیلاب جیسی قدرتی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ محکمہ موسمیات وقت سےپہلے زیادہ بارشوں کی پیشین گوئی کردیتا ہے ۔ لیکن ریاستی ڈھانچہ بروقت حفاظتی انتظامات کرنے کے بجائے حسب ِمعمول اپنی غلامانہ بے حسی میں مگن رہتا ہے ۔کارپوریٹ میڈیا بھی چوبیس گھنٹےبے مقصد سیاسی سرکس کے مختلف کرتب دکھاتا رہتا ہے۔ رفتہ رفتہ پانی کا بہاؤ خطرناک حد تک بڑھ کر حفاظتی بند توڑدیتا ہے،جس سے لوگوں کےگھر بار، جان و مال،زرعی زمینیں اور مویشی وغیرہ سیلاب سے تباہ و برباد ہونے لگتے ہیں، جس کے بعد میڈیا پر مختلف طرح کے ناٹک شروع ہوجاتے ہیں۔ سیاست دان،مذہبی قائدین اور رفاہی اداروں کے افراد عوام کی امداد کرنے کے بہانے اپنے اپنے فوٹوسیشن اور خطابات کرنے لگتے ہیں، اپنے آپ کو سیلاب میں گھرے عوام کا خیرخواہ بنا کر پیش کرتے ہیں اور انھیں ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرواتے ہیں۔حکمران ہیلی کاپٹروں اور مہنگی گاڑیوں میں سرکاری پروٹوکول کے ساتھ عوامی مقامات پر جاکر اور ان کے ساتھ تصویریں کھنچوا کر درحقیقت عوام کی پس ماندگی اور محرومی کا مذاق اڑاتے ہیں۔ دوسری طرف زرق برق ٹیلی وژن سکرینوں پر مہنگے لباس اور بھاری میک اپ زیب تن کر کے نیوز کاسٹر اونچی پس پردہ موسیقی کے ساتھ انسانی المیے کو بار بار دہراتے ہیں۔

    خدائی عذاب یا ریاستی ناکامی ؟

    ایسے موقع پر  چند مشہور مذہبی شخصیات سیلاب کو خدا کا بھیجا ہوا عذاب قرار دیتی ہیں اور اِس میں ہلاک ہونے والوں کو شہادت اور جنت کی خوش خبری بھی سناتی ہیں۔ساتھ ہی ساتھ عوام کو توبہ کی تلقین بھی کرتی ہیں۔ یہ مذہبی رہنما اِس سوال کا جواب دینے سے مکمل طور قاصر ہیں کہ: 

     خدا کا یہ عذاب کمزور اور مفلوک الحال لوگوں پر ہی کیوں نازل ہوتا ہے؟

    اگر کوئی وڈیرہ اپنے علاقے میں آنے والے سیلاب کا رخ موڑ کر کمزور کسانوں کی زمینوں کی طرف کردے تو کیا یہ پھر بھی خدا کا عذاب کہلائے گا؟

    اگر سیلاب اور دوسری آفات خدا کا عذاب ہیں تو دنیا میں بہت سے ممالک اِس عذاب سے چھٹکارا پانے میں کیسے کامیاب ہوگئے ہیں؟

    سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ خدائی عذاب میں ہلاک ہونے والے شہید کیسے ہو سکتے ہیں اور امدادی سرگرمیاں کیا خدائی فیصلے کی مخالفت کرنا تو نہیں ہے؟

    سوچا تو یہ بھی جا سکتا ہے کہ اصل عذاب سیلاب کی تباہ کاری ہے یا وہ حکمراں طبقات (قومی قیادت) ہے جو کہ سیلاب اوردوسری آفات سے بچاؤ کی تدابیر کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے؟

    اور اگر اِس سوال کا جواب نااہل اور بدعنوان سیاسی و مذہبی قیادت ہے تو کیا عذاب سے توبہ کی یہ لازمی شرط نہیں کہ اس سے بیزاری کا اعلان کر کے متبادل قیادت کی فراہمی کی جدوجہد کی جائے؟

    رفاہی اداروں کا کردار

    اِن قدرتی آفات کا ایک اور اہم پہلو معاشرے میں نِجی بنیادوں پر چلنے والے رفاہی اداروں(NGOs) کی افادیت سے متعلق ہے۔کسی بھی مہذب ملک میں قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے بلدیاتی سطح پر موجود اِدارے اپنا کردار ادا کرتے ہیں، لیکن پاکستان میں جان بوجھ کر بلدیاتی اداروں کو مضبو ط ہونے نہیں دیا گیا۔ 2007ء میں نیشنل ڈائیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA)کے نام سے ایک ادارہ بنایا گیا، جس کا مقصد آفات سے بچاؤ کے لیے پیشگی حکمت عملی بنانا اور ہنگامی اقدامات کرنا تھا۔ لیکن ہر سال کروڑوں کا بجٹ ملنےکے باوجود اِس ادارے کا وجود صرف کاغذوں یا پریس کانفرنسوں تک محدود ہے۔

    ریاستی اداروں کی اپنی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرنے کی اِس صورتِ حال میں نجی رفاہی ادارےسامنے آتے ہیں اور عوام سے مالی تعاون کی اپیل کرتےہیں۔ عوام بھی دل کھول کر اِن اداروں کی مدد کرتے ہیں ۔اِس امداد کا کتنا حصہ حق داروں تک پہنچتا ہے اور کتنا انتظامی اخراجات یا بدعنوانی کی نظر ہوجاتا ہے،اس بحث کوکسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں ۔ بلاشبہ اس امداد کے ذریعے آفت زدہ انسانوں کو کچھ نہ کچھ ریلیف ضرور ملتا ہے، لیکن اس عمل کا منفی پہلو یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ عوام، دانش ور ، میڈیا اور رفاہی تنظیمیں،ریاستی اداروں اور عوامی نمائندوں کو ان کی نالائقی اور بے حسی پر کٹہرے میں کھڑا کرتے، سب کی توجہ اور توانائی محض عارضی اقدامات میں صرف ہوجاتی ہے اور کچھ دِنوں بعد لوگ سب کچھ بھول کرایک نئے انسانی المیے کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔

    ظالمانہ ٹیکسوں پر مبنی استحصالی نظام

    یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ریاست نے اگر آئین میں طے کردہ سہولیات مہیا نہیں کرنی، عوام نے اپنی صحت، تعلیم،امن و امان،صاف پانی ،قدرتی آفات سے تحفظ وغیرہ اگر بازارسے ہی خریدنا ہے یا اپنی مد د آپ کے تحت ہی بندوبست کرنا ہے تو دن بدن بڑھتے ٹیکسوں کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟ یعنی ایک طرف تو عوام سے ٹیکسوں کی مد میں پیسہ نکلوایا جائے اور دوسری طرف انھی کے چندے پر نجی رفاہی ادارے چلائے جائیں، لیکن اس کے باوجود نہ تو عوام کی اکثریت کے مسائل حل ہوں اور نہ وہ اپنی عزتِ نفس کو برقرار رکھتے ہوئے زندگی گزار سکیں۔اُلٹا یہ کہ پوری سوسائٹی میں بھیک اور خیرات پر پلنے کا ایک کلچر پیدا ہوگیا ہے۔

    اِس بحث کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ قدرتی آفات اِستحصالی نظام کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی۔ ہر آفت کے بعد پاکستانی حکمران،عوام کا نام استعمال کرتے ہوئے عالمی سطح پر کشکول لےکر نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اندون و بیرون ِملک سے وصول ہونے والی امداد کےشفاف اور دیر پا (sustainable) استعمال کا کوئی طریقہ کار حکومتی اداروں کے پاس موجود نہیں ہوتا ۔ اِس لیے اِس امداد کا بیش تر حصہ افسرشاہی کےانتظامی اخراجات، مالی بدعنوانی اورناقص منصوبوں کی نذر ہوجاتا ہے اور عوام کے حصے میں چند دن کی گزر بسر کے اسباب بہ مشکل میسر آتے ہیں۔ دوسری طرف ہماری اشرافیہ عوام میں اس امدادکا کچھ حصہ تقسیم کرکے اپنے آپ کو حاتم طائی بنا کر پیش کرتی ہے۔ ایسی بے حس اورسنگدل قیادت شاید ہی دنیا کے کسی اور حصے کو نصیب ہوئی ہو!

    حفاظتی اقدامات

    پاکستان جیسے ممالک میں مون سون کی بارشوں کے نتیجے میں سیلاب کا آنا،جغرافیائی حالات کی وَجہ سےایک قدرتی عمل ہے، جس کےنتیجے میں یہاں کی زمین کی زرخیزی میں اضافہ ہوتا ہے، لیکن ناقص منصوبہ بندی کی وَجہ سے یہ سیلاب ہمارے لیے ایک زحمت بن جاتا ہے۔ دنیابھر میں انسانوں نے اپنی عقل کے تعمیری استعمال کے ذریعے سیلاب کے نقصانات سے بچاؤ کے اقدامات دریافت کیے ہیں، جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:-

    1۔  فعال وارننگ سسٹم:- متوقع بارش اور پانی کے بہاؤ کی بروقت اطلاع کے ذریعے سیلابی ریلوں کو کنٹرول اور متاثرہ آبادی کو محفوظ مقام پر منتقل کیا جاسکتا ہے، جہاں صاف پانی، صحت بخش خوراک، رہائش،لباس اور طبی امدادجیسی بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی کے ذریعے انسانوں کی جان بھی بچائی جاسکتی ہے اور اُن کی تکلیف کو کم بھی کیا جاسکتا ہے۔

    2۔  ڈیموں کی تعمیر:- کسی بھی ملک کی معاشی ترقی میں ڈیم اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ڈیم ایک طرف تو پانی کو ذخیرہ کرکے سیلابی صورتِ حال سے بچاتے ہیں اور خشک سالی کے موسم میں اس پانی کو زراعت کے لیے مہیا کرتے ہیں، دوسری طرف یہ ڈیم سستی اور ماحول دوست بجلی بنانے کے کام بھی آتے ہیں۔ پاکستان میں ریاستی اداروں کی نااہلی اور مفادپرست قیادت کی فیصلہ سازی کی وَجہ سے آج تک ملک میں صرف150 ڈیم (چھوٹے بڑے ملا کر)تعمیر ہوسکے ہیں جب کہ ہمسایہ ملک بھارت میں 5300 سے زائد ڈیم، وہاں کی قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ملک میں تمام بڑے ڈیم آج سے پچاس سال پہلے فوجی آمر ایوب خان کے دور میں تعمیر کیے گئے تھے۔تب سے لے کر آج تک ڈیموں کی تعمیر مختلف وجوہات کی بنیاد پر تاخیر کا شکار ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ ملک میں تیل اور گیس سے بننے والی مہنگی بجلی نے صنعتی پیداوار اور عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے،جب کہ فضائی آلودگی اور سیلاب سے ہونے والی تباہی کے نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔

    3۔ زیر زمین تالاب:- بارش کے پانی کو جمع (store) کرنے کے لیے زیر زمین تالاب بنائے جائیں، تاکہ جمع شدہ پانی کو صاف کرکے حسبِ ضرورت استعمال کیا جاسکے۔

    4۔ حفاظتی بندمضبوط بنانا:- دریاؤں اور نہروں سے سیلابی پانی کو آبادی میں پھیلنے سے روکنے کے لیے حفاظتی بندوں کو مضبوط بنایا جائے اور اُن کی اونچائی میں اضافہ کیا جائے۔

    5۔ شجر کاری:- درخت مٹی کا کٹاؤ کم کرتے ہیں اور زمین کی پانی جذب کرنے کی گنجائش کو بڑھاتے ہیں۔صنعتی ترقی نے کرہ ارض کی آب و ہوا کو جو نقصان پہنچایا ہے اور اِس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں (Climate Change) کے منفی اَثرات کو کم کرنے میں بھی شجرکاری اہم کردار اداکرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ چھتوں پر سبزہ اگانے سے بھی بارش کے پانی کو سیلاب بننے سے روکا جاسکتا ہے۔

    6۔ بھل صفائی اور حفاظتی نہریں:- نہروں اور ندی نالوں کی صفائی اور انھیں پکا کرنا پانی کے بہاؤ کو بہتر بناتا ہے۔ اور ندی نالوں کی ڈھلوان کو بہتر بنانے سے پانی کا بہاؤ تیز ہوتا ہے اورسیلابی پانی ایک جگہ کھڑا رہنے کی وَجہ سے ہونے والے نقصانات میں کمی ہوسکتی ہے۔ اِس کے علاوہ دریاؤں کے بیراجوں پر حفاظتی نہریں بنائی جائیں، تاکہ اضافی پانی کو ان نہروں میں داخل کرکے سیلابی ریلے کے زور توڑا جاسکے۔

    حاصلِ کلام

    اللہ ربُّ العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں شعور کی نعمت عطا کرے۔ تاکہ حالات کی رو میں بہنے کے بجائے ہم مسائل کو سمجھ کر ان کا پائیدار حل تلاش کریں۔ وطن ِعزیز میں ایسی مخلص، محب ِوطن اور باصلاحیت قیادت پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں جو قدرت کی نعمتوں کا درست استعمال کرتے ہوئے انسانوں کی زندگیوں میں آسانیا‎‎ں پیدا کرے اور معاشرےکو امن و سلامتی، خیر خواہی اورمعاشی خوش حالی سے ہمکنار کرے۔ آمین !

    Share via Whatsapp