نبوی تعلیمات میں قدرتی ماحول کے تحفظ کی ناقابلِ مصالحت اہمیت
تشدد کے حالت یا جنگی حالت میں قدرتی ماحول کے حوالے سے اسلام ہماری کیا رہنمای فرماتا ہیں اور سیرت رسول ﷺ میں، خلفاے راشدين کے دور میں اس کی مثالیں۔
نبوی تعلیمات میں قدرتی ماحول کے تحفظ کی ناقابلِ مصالحت اہمیت
تحریر؛ منظور احمد مومند۔پشاور
الذی خلق سبع سموات طباقا ماتری فی خلق الرحمن من تفوت فارجع البصر ھل تری من فطور(سورۃ الملک،٣)
(جس نے بنائے سات آسمان تہ پرتہ ، کیا دیکھتا ہے تو رحمن کےبنائے میں کچھ فرق، پھر دوبارہ نگاہ کر کہیں نظر آتی ہے تجھ کو دراڑ)
قدرت نے جب سے انسان کو اس دنیا میں بھيجا ہے، ازل سے ہی ابن آدم کسی نا کسی وَجہ سے آپس میں دست وگریباں رہے ہیں۔ایک دوسرے پر قابو پانے،یا آگے بڑھنے کا لالچ ہو،چاہے وه قوموں کو غلام بنانے یا غلامی سے آزادی کے لیے کوشش ہو، وه مال پرستی ہو یا سلطنت و عہدہ ہو،پیچھے رہ جانے والی زمین ہو یا بڑھاپے کے زد میں آنے والا عورت کا حسن وجمال ہو، ہمیشہ سے انسان نے مذکورہ چیزوں کے حصول میں عجلت کی۔ ہابيل و قابیل کا واقعہ ابتدائے انسانیت میں تصادم کی ایک زندہ مثال ہے۔ اگرچہ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ جنگ وجدل،تشدد اور غلط افکار انسانی فطرت ہیں۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے تو انسان کو اپنی فطرت پر بنایا ہے: "فطرت الله التی فطر الناس علیھا"(سورۃ الروم،30))وہ ہی تراش اللہ کی جس پر تراشالوگوں کو(اور نعوذ بااللہ خالق کی فطرت تو ایسی نہیں ہے۔ یقیناً یہ دنیاوی ماحول کی وَجہ سے ہے۔ کیوں کہ ماحول ہی غلط اورصحیح ، گناہ وثواب جنگ و امن کا ضامن ہوتا ہے ، ماحول اگر صالح ہوگا تو معاشرہ بھی صالح ہوگا۔ لوگوں کی عادات و اطوار بھی صالح شکل اختیار کریں گی اور ماحول اگر ظلم وجبر کا ہوگا تو اس ماحول کی پیداوار بھی اسی طرح ہوں گی ۔ انسانی افراتفری میں اکثر اللہ کا بنایا ہوا قدرتی نظام (ماحول ) بھی متاثر ہوجاتا ہے۔
جب کہ شریعت میں ہر مسئلے کا حل موجود ہے ۔ ایسے حالات میں دین کے قدرتی ماحول کے بارے میں ارشاد ربانی کیا ہے ؟اور نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعين کا کیا رویہ تھا ،اور انھوں نے اس قسم کے حالات میں کیا راستہ اختیار کیا اور آگے امت کے لیے کیا پیغام دیا۔ علمائے حق کا کیا کردار رہا ، اور اسی طرح موجوده دور میں ایک عام انسان کا قدرتی ماحول کے تحفظ کے لیے کیا کردار ہونا چاہے؟ انھی زاویوں پر مدلل اور تحقيقی گفتگو ہوگی ۔
انسانی زندگی کی بقا کے لیے قدرتی ماحول کی اہمیت و ضرورت:
قدرتی ماحول دنیا میں موجود تمام اشیا جن کو قدرت نے بنایا ہے، وہ کسی نہ کسی زاویے سے جان دار کے فائدے سے منسلك ہیں ، قدرتی ماحول ہیں۔ باالفاظ دیگر دنیا میں موجود سب کچھ بائیوٹک اور اے بائیوٹک سب کچھ قدرتی ماحول کے زمرے میں آتا ہے اللّه سبحانہ وتعالیٰ نے اس دنیا میں سب کچھ انسان کے لیے مسخر کیا ہے۔ رسول اللہﷺ کا مبارک فرمان ہے کہ "اگر قیامت قائم ہونی ہو، اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں پودا ہو اور وه اس بات پر قادر ہو کہ وه قیامت سے پہلے پودا لگا لےگا تو ضرور لگائے گا۔(مسند ابن احمد )
ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ تین چیزوں میں سب شریک ہیں، آگ ، گھاس اور پانی۔(مسند الحدیث)
قدرت اپنے طریقے سے چلتی ہے۔ اگر کوئی اس کو جنگلات کی کٹائی، مضر گیسوں کے اخراج، صاف پانی کی آلودگی اور کئی دوسری صورتوں سے متاثر کرےگا تو بدلے میں قدرت بھی زلزلے،طوفان،سیلاب، بے وقت بارشوں اور خطرناک موسمیاتی تبدیلیوں کی صورت میں اپنا اثر دکھائی گی۔
جنگوں اور تشدد کے حالات میں اسلامی تعلیات :
اسلام ایک مكمل ضابطہ حیات ہے۔ انسانی زندگی میں جاری ہونے والے ہر فعل وعمل کے حوالے سے شریعت بات کرتی ہے۔ شریعت کی رو سے ہروه فعل منع ہے، جس کی وَجہ سےانسانیت نیز ہر ذی روح چیز کو نقصان ہو۔ اسلام جنگ کی حالت میں بھی قدرتی ماحول کی حفاظت کا حکم دیتا ہے ۔
اسی وَجہ سے رسول اللہ ﷺ نے دورانِ جہاد بھی ایسی چیزوں کو نقصان پہنچانے سے منع فرمادیا، جس سے عام انسانوں کو نقصان ہو۔
الحاصل! اسلام انسانی اجتماعیت کو برقرار رکھنے کے لیے انسانی بقا کےلیے تمام سہولیات کی حفاظت سے بحث کرتا ہے۔
قدرتی ماحول کے تحفظ کے حوالے سے سیرت نبویﷺ اور خلفائے راشدین کے دور کی مثالیں :
پانی کو آلودگی سے بچانے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے ارشادات موجود ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورﷺ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، جب وہ وضو کر رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے دیکھا کہ وه زیادہ پانی استعمال کررہے ہیں توآپ ﷺ نے فرمایا کہ اے سعد یہ اسراف کیسا ؟ اس پر حضرت سعد نے فرمایا کہ اے نبیﷺ وضو میں بھی اسراف ہے، اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ہاں! اگر آپ بہتی ندی پر بھی ہوں تو وضو میں اسراف نہ کرو ۔ زیادہ پانی نا بہاؤ ۔ ( ابن ماجہ ،حدیث نمبر 425)
اس کے علاوہ فرمایا کہ تم میں سے کوئی اس پانی میں پیشاپ نہ کرے جو ٹھہرا ہوا ہو۔ اور نہ ہی اس میں غسل کرے ( البخاری )
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے بھی یہی ہدایات دیں کہ باغات اور کھیتوں یا گلستان کو نقصان نہیں پہنچانا۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سمیت تمام دورِصحابہ میں جنگی اور تشدد کے حالات میں قدرتی ماحول کو مدنظر رکھا گیا۔ اور اجتماع انسانیت کے لیے مفید اشیا کی حفاظت کو یقینی بنایا گیا ۔( نورالبصر)
قرآن و سنت اور آثارِصحابہ میں اس حوالے سے مثالیں:
ماحولیاتی چال کو برقرار رکھنے کے لیے اسلام نے اصول وضع كیے ہیں۔ سیرت نبویﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی انھی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئےان پر عمل کیا ہے ۔
قرآن کریم نے کھیتوں، درختوں وغیرہ کو نقصان پہچانے کے عمل کو منافقین کا شیوه قرار دیا ہے۔
ارشادباری تعالیٰ ہے:
"اور جب پھرے تیرے پاس سے تودوڑتاپھرے ملک میں تاکہ اس میں خرابی ڈالے اور تباہ کرے کھیتیاں اور جانیں اور اللہ ناپسند کرتا ہے فساد کو"۔ (سورہ البقرہ، 205)
نبی پاک ﷺ کا ارشاد ہےجس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ جس نے کسی پرندے کو بہ طور تفریح قتل کیا تو قیامت کے روز وه پرندہ الله تعالیٰ سے شکا یت کرےگا ۔ یعنی اسلام نے ایکو سسٹم میں موجود ہر چیز کا خیال رکھا ہے چاہے وه جان دار ہو یا غیرجان دار، اگر قدرت نے اسے ایک زاویے میں رکھا ہے تو کسی کو نہیں چاہیے کہ اس فطری تسلسل کو متاثر کرے۔
اسلامی تاریخ سے مثالیں :
قدرتی ماحول میں شجر کے ساتھ ساتھ جانور بھی شمار کیے جاتے ہیں اسلامی تاریخ اور رسول اللہ ﷺ کے زمانے سے اس حوالے سے مثالیں موجود ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک عورت کو اس وَجہ سے عذاب دیا گیا، کیوں کہ وه بلی کو باندھ کر رکھتی تھی۔ نہ اس کوکھانا کھلاتی نہ پانی پلاتی (مسلم باب تحريم قتل الہرہ )
اسی طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں جب وه لشکر کو ہدایات دے رہےتھے تو یہی فرمایا کہ سوائے کھانے کے فائدے، یعنی گائے، اونٹ یا بكری وغیرہ کے کسی جانور کو قتل نہ کرنا ۔
حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی یہی ہدایات تھیں، یعنی قدرتی ماحول کو محفوظ رکھاجائے اور آپ نے اس کےلیے کئی اقدامات کیے، آپ رضی اللہ عنہ نے نہری نظام متعارف کروایا اور آبپاشی اور زرعی ارادے سے نہری جال بچھایا۔ (نور البصر)
موجودہ دور میں جنگوں میں قدرتی ماحول کی تباہی اور اس حوالے سے مسلمان علما کا کردار :
اللہ تعالیٰ نے علما حضرات کو ایک الگ مرتبہ دیا ہے اور قرآن مجید میں ان کے بارے میں فرمایا ہے کہ:
"اسی طرح اللہ سے ڈرتے وہ ہی ہیں اس کے بندوں میں جن کو سمجھ ہے"۔ (سورہ فاطر،45)
یعنی علمائے حق سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والے ہیں اور علمائے حق نے ہمیشہ اُمت کی صحیح رہنمائی فرمائی ہے ۔ چاہے وہ دینی معاملات کے حوالے سے ہوں یا دنیاوی حوالے سے،چاہے جنگی اوقات یا امن وامان کا ماحول ہو۔ الحمد اللہ ہر حال میں علمائے حق نے علمائے سو کے مقابلے میں قوم کو حق کا رستہ دکھلایا ہے۔ چوں کہ علمائے حق انبیاعلیہم السلام کے وارث ہیں، جس طرح حدیث شریف ہے العلماء ورثۃ الانبیاء (الحدیث)۔ نبیوں کا کام ہی دنیا میں انسانوں کو صراطِ مسقيم کی طرف دعوت دینا ہے، اسی طرح علمائے حق نے بھی ہمیشہ اعلیٰ کردار ادا کیا ہے اور کر رہے ہیں۔
اختتام:
مذكور قرآنی آیات اور صحیح احادیث سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام کس حد تک قدرتی ماحول (جس سے یقیناً مراد ایکو سسٹم میں موجود تمام عناصر ہیں) کی حفاظت،ا ہمیت اور انسانی زندگی میں ان تمام چیزوں کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔
دین اسلام چوں کہ ایک ضابطہ حیات ہے، جس میں ہر مسئلے کا حل اور طریقہ کار مو جود ہے۔دین اسلام قدرتی ماحول،حالت تشدد اور امن میں بھی ماحول کی حفاظت کا حکم دیتا ہے۔ اس ضمن میں دورِصحابہ سے بھی کچھ مثالیں پیش کی گئی ہیں، جن سے رسول اللہ ﷺ کا اپنی جماعت کی ہر حوالے سے بے مثال تربیت کی جھلک نظر آتی ہے۔