سیاسی فرقہ واریت اور سماج پر اس کے نتائج و اَثرات - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سیاسی فرقہ واریت اور سماج پر اس کے نتائج و اَثرات

    موجودہ دور میں کوٸ بھی جماعت اپنا مثبت کردار اسوقت نہیں ادا کر سکتی جب تک اسکے پاس تربیت یافتہ افرادی قوت نہ ہو۔

    By Mehboob ur Rehman Published on Nov 09, 2022 Views 1005
    سیاسی فرقہ واریت اور سماج پر اس کے نتائج و اَثرات 
    تحریر: محبوب الرحمٰن سہر۔ اوگی، مانسہرہ 

    اگر ہم مسلم تاریخ کا مطالعہ کریں تو فرقہ اور مسلک دو اصطلاحات بالعموم نظر آتی ہیں، جن کا تعلق مسلمان معاشرے میں بسنے والے لوگوں کے علمی و سیاسی طور پر اختلافِ رائے و نظریے کی وَجہ سے ہے۔دورِحاضر میں فرقہ واریت سے مراد دراصل وہ اختلافات ہیں جو مختلف سیاسی جماعتوں کے سیاسی مقاصد کے پیش نظر معاشرے میں سیاسی و مذہبی رنگ میں لانچ کیے جاتے ہیں جو بعد ازاں ان کے فالووَرز و کارکنان کے لیے بنیادی و نظریاتی اصول بن جاتے ہیں۔

    حالیہ سیاسی انتشار میں سیاسی جماعتوں کا مطمح نظر دراصل اختلافِ رائے و اختلافِ نظریہ کے بجائے مادہ پرستی و حب جاہ ہے۔یہ جماعتیں اکثر و بیش تر اپنے مفادات کا ایک پلندہ تیار کرتی ہیں، جن پر نظریات کا خول چڑھایا جاتا ہے جو خول بعدازاں اپنے فالوَرز کو ایک چھتری تلے جمع کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔

    ہمارا فرسودہ سیاسی نظام ایک مخصوص طبقے کے لیے سامانِ راحت فراہم کرتا ہے۔ اس لیے سیاست میں متحرک ہر پارٹی پر قابض مخصوص خودغرض ٹولہ اس طاغوتی نظام کو مضبوط ترین بنانے کے لیے اپنا کردار ”حصہ بہ قدرِ جُثہ“ادا کرتا ہے۔ اشرافیہ سے موسوم یہ طبقہ ضرورت پڑنے پر اپنی مخالف جماعتوں کے ساتھ ایک نقطہ پر اتفاق و مفاہمت پر بھی قائل ہوتا نظر آتا ہے۔نتیجتاً سرمایہ داری نظام بھی برقرار رہتا ہے اور اس ٹولہ کے مفادات بھی پورے ہوجاتے ہیں۔

    ہماری سیاسی تاریخ کا آئینہ اس بات کا گواہ رہا ہے کہ مختلف اوقات میں اس شیطانی دھندے کو نظریہ ضرورت کا نام دے کر اپنے کارکنان کو مطمئن کیا جاتا رہا ہے۔ ہماری75سالہ تاریخِ پاکستان کا تقریباً نصف عرصہ اسی کھیل کی نذر رہا ہے، جس میں اکثر سیاسی جماعتوں کا نظریہ خاص گروہ یا جماعت کا امتیازی وصف بن کر رہ گیا اور ان جماعتوں پر براجمان ایک فی صد طبقہ اپنے ذاتی یا گروہی مفادات کے سبب ریاست و سماج کے لیے وبال جان ثابت ہوا۔

    اگر ہم اس حالیہ سیاسی صورتِ حال کا موازنہ چودہ سو سال قبل کے جاہل عرب معاشرہ کے ساتھ کریں تو کسی قدر مشابہت نظر آتی ہے۔بعثتِ نبویﷺ سے قبل بھی یہی ظلم و استبداد رائج تھا۔انسانیت کے بنیادی حقوق،بودوباش کے آسان ذرائع ،عدل و انصاف اور امن و امان ناپید تھے۔توحید کے مقابلے میں سردارانِ قریش کے مفادات کے ممد و معاون کفر و شرک اور شخصیت پرستی اپنے عروج پر تھے۔ایسے میں نبیِ رحمتﷺاور ان کی تربیت یافتہ جماعت نے اس بیمار معاشرے میں صحت مندانہ خصوصیات و عادلانہ نظام کا قیام ممکن بنایا۔ آپﷺ نے ابوجہل و ابولہب کے ظالمانہ نظام کو توڑ کر عادلانہ سماجی نظام قائم کیا۔

    دورِحاضر میں کسی بھی معاشرے کی ترقی و زوال کا پیمانہ وہاں کے شہریوں کی بودو باش اور ضروریاتِ زندگی کا مطالعہ کرکے لگایا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ اجتماعی طور پر ترقی کی منازل طے کرنے کے بجائے آئےروز زوال کی داستانیں رقم کر رہا ہے۔ ہمارے ہاں سب سے بڑا المیہ سماج کی تقسیم ہے، جس سے کفر و شرک اور ظلم و جبر جنم لے رہا ہے۔ ظلم و ناانصافی اس قدر عروج پر ہے کہ سماج فرقوں اور گروہوں میں بٹ چکا ہے۔ اس گروہی تقسیم میں مہلک ترین اور تباہ کن تقسیم سیاسی فرقہ واریت ہے، جہاں حصول اقتدار یا ذاتی و گروہی مفادات کی خاطر پارٹیاں اور فرقے (مافیاز) بنتے جا رہے ہیں۔بعدازاں ان کے لیڈران اپنی کرسی اور ہوسِ اقتدار کے لیے سادہ لوح عوام کو مخالفین کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ بہ ظاہر یہ ٹکر اور اختلافِ رائےجمہوریت کے نام سے اپنے کارکنان کے ذہنوں میں ڈالی جاتی ہے، لیکن اس لڑائی کے اندر مفادپرست لیڈران کی ذاتی اَنا اور مفادات پنہاں ہوتے ہیں، جس سے سماجی تباہی اور کش مکش جنم لیتی ہے۔ ہوسِ اقتدار اور اَنا کے اس باطل بت کو سہارا دینے کے لیے یہ لیڈرز کبھی کبھار اتنے گِر جاتے ہیں کہ اختلافِ رائےکے نام پر سرِعام ایک دوسرے کی پگڑی اُچھالتے اور کردار کشی کرتے ہیں۔ نتیجتاً ان کے کارکنان اور ان سے متاثر غیر تربیت یافتہ طبقات جذبات کے سمندر میں غوطہ لگا کر اخلاقیات کا جنازہ نکالتے نظر آتے ہیں، جس کے سبب معاشرے میں عدمِ برداشت کا عنصر پروان چڑھتا جارہا ہے۔ سادہ لوح کارکنان ان لیڈرز کی محبت میں فریقِ مخالف کو کافر،منافق یا غدار ڈکلئیرکرتے بھی نظر آتے ہیں۔ یوں جمہوریت کے نام پر لگایا جانے والا دھندہ ذاتی اَنا اور عدمِ برداشت کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے اور سماج کے حقیقی مسائل یعنی امن و امان، عدل و انصاف، تعلیم و صحت اور ذریعہ معاش کے حلال ذرائع ناپید ہوجاتے ہیں۔

    ہمارے ہاں معاشرتی برائیوں کی ایک وَجہ یہ بھی ہے کہ امن و امان کا فقدان ہے۔ انصاف کے بجائے ظلم کا نظام پروان چڑھتا ہے۔ نئی نسل بامقصد تعلیم سے دوری کے سبب شعوری فقدان کا شکار ہے۔ ہمارا نوجوان تعلیم و شعور کی طلب کے بجائے مفادپرست ٹولوں کی خوشامد کا عادی بن گیا ہے۔ تاکہ کسی کونے کھدرے میں خود کو سما لے۔سماجی مسائل کی ایک اہم اور بڑی وَجہ ظالم سرمایہ دار و جاگیردار طبقہ کا عوام کے وسائل پر قابض ہونا بھی ہے، جس کے نتیجے میں معاشرے میں حرام و ناجائز ذرائع معاش یعنی چوری، ڈاکہ، زنی، شراب نوشی اور اخلاقی پستی جیسی بیماریاں عام ہوتی جا رہی ہیں۔

    سماج کا مظلوم طبقہ اگر ان ظلم پیدا کرنے والی بنیادی بیماریوں کے خلاف سر اٹھاتا ہے یا حق بات کرنے کی جسارت کرتا ہے تو مفادپرست اور ظالم نظام کے آلہ کار لیڈرز اپنے اَثر رسوخ سے اس آواز کو دَبا لیتے ہیں۔ یوں سرمایہ دار حکمران طبقہ فرعونی کردار ، جاگیردار طبقہ قارونی، جب کہ ان دونوں کے جرائم اور ظلم و جبر کو جائز اور حلال قرار دینے والاطبقہ معاشرے کو بربادی کی طرف دھکیلتا ہے۔ ان حالات میں عام رعایا کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔

    آج ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ سیاسی و معاشی نظام ازسر نَو تشکیل دیا جائے۔اس کے زیر و زبر اور شَدومد کو سمجھنے والی مخلص قیادت اپنا کردار ادا کرے۔ اُسوہ نبی ﷺ کو سامنے رکھتے ہوئےاولاً اس ظالمانہ و جابرانہ فرسودہ نظام کی تبدیلی کے لیے تربیت یافتہ جماعت تیار کی جائے جو سیاستِ نبوی ﷺ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو مثبت پیرائے میں استعمال کرے۔ تاکہ ہمارا نوجوان مفادپرست طبقے کے چُنگل سے نکل کر اپنی صلاحیتوں کو قومی و بین الاقوامی سطح پر سودمند بنا سکے۔
    Share via Whatsapp